Monday, 20 May 2024
  1. Home/
  2. Blog/
  3. Qasim Imran/
  4. Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

پاکستان کو بطور ریاست یا معاشرہ دہشت گردی کا ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ یہ چیلنج کئی دہائیوں سے درپیش ہے اور بطور ریاست ہم اس سے نمٹنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں ہماری ریاست اور اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں نہ صرف قربانیاں دی ہیں بلکہ کئی اہم کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں اس وقت دہشت گردی کی وہ صورتحال نہیں جو ہمیں ماضی میں درپیش تھی۔ اس کا اعتراف داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر موجود ہے کہ ہم ریاستی سطح پر کافی حد تک درست سمت میں چل رہے ہیں۔ لیکن یہ جنگ آسان نہیں اور آج بھی کسی نہ کسی شکل میں ہمیں دہشت گردی کی مختلف شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ جنگ ختم نہیں بلکہ بدستور جاری ہے۔

لہولہان قوم کو کچھ وقفہ ملا تھا، مگر شائد وہ ایک بار پھر لہولہان ہونے کو جا رہی ہے۔ گزشتہ سال اگست میں امریکی افواج کے انخلاء کے نتیجے میں افغانستان میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں ایک ہی سال میں دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں ریکارڈ 51 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک، پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز (پپس) کے اعداد و شمار کے مطابق 15 اگست 2021 سے 14 اگست 2022 کے درمیان پاکستان میں 250 حملوں میں 433 افراد ہلاک اور 719 زخمی ہوئے۔

اس کے مقابلے میں، ملک نے اگست 2020 سے 14 اگست 2021 تک 165 حملے دیکھے جن میں 294 افراد ہلاک اور 598 زخمی ہوئے۔ یہ کچھ نتائج تھے جو جاری کیے گئے پپس پیپر سیریز کے پانچویں شمارے میں شیئر کیے گئے تھے۔ ان تجزیاتی مقالوں کا مقصد پاکستان کے افغان نقطہ نظر، اور افغان امن اور مفاہمت میں اس کے کردار اور دلچسپی کے بارے میں اہم اسٹیک ہولڈرز کے علم کی بنیاد کو بڑھانا ہے۔

تھنک ٹینک نے کہا، "طالبان کی فتح پر کچھ حلقوں کی دیوانہ وار خوشی اب ایک صدمے میں بدل رہی ہے کیونکہ طالبان کے بے ترتیب حکمرانی کے تحت سیکیورٹی کی ابھرتی ہوئی صورتحال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان ایک اور آزمائش یعنی دہشت گردی کا سامنا کرنے والا ہے۔ " اس معاملے میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسے کوئی شواہد اور عملی اقدامات موجود نہیں ہیں کہ طالبان حکومت افغان سرزمین پر غیر ملکی دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں مقیم غیر ملکی دہشت گرد گروپ طالبان کی فتح کو وسطی اور جنوبی ایشیا میں اور عالمی سطح پر اپنے پروپیگنڈے کو پھیلانے کی تحریک کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ افغانستان میں فعال موجودگی کے ساتھ اہم دہشت گرد تنظیموں میں القاعدہ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (IMU)، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ETIM)، تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور اسلامک اسٹیٹ ان خراسان (IS-K) شامل ہیں۔

اب تک، طالبان نے صرف IS-K کے خلاف کارروائی کی ہے کیونکہ یہ گروپ طالبان کی حکمرانی کو چیلنج کرتا ہے اور ان کے خلاف مسلح طور پر برسرِ پیکار ہے۔ یہ مسئلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حالیہ مہینوں میں افغانستان سے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی واپسی کی اطلاع پر خیبر پختونخواہ کے رہائشیوں میں خوف و ہراس کی لہر پائی جاتی ہے، سوات اور وزیرستان کے علاقوں میں شہریوں اور سکیورٹی فورسز پر تازہ حملے اس بات کا ثبوت ہیں۔

اس اشاعت میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے 300، 000 سے زائد افغان باشندے پاکستان فرار ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستانی حکام کے اس دعوے کا مقابلہ کرتے ہیں کہ گزشتہ سال اگست سے تقریباً 60، 000 سے 70، 000 افغان پاکستان میں داخل ہوئے۔

گزشتہ دور حکومت کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ افغانستان میں لڑنے والے طالبان کے خاندان اسلام آباد کے گردونواح میں رہتے ہیں۔ بارہ کہو میں وہ گھر لے کر رہتے ہیں، زخمی اور میتیں بھی یہیں آتی ہیں۔ اب ذرا اندازہ کریں کہ پورے پنڈی، اسلام آباد کی آبادیوں کو طالبان سے بھر دیا گیا ہے۔ یہ ہم پاکستان کی سٹریٹیجک ڈیپتھ کے نام پر کر رہے ہیں، ملک کا بیڑا غرق ہو جائے، خیر ہے۔

پھر ہم حیران ہوتے ہیں کہ ہمارا نام گرے لسٹ پر کیوں ہے اور دنیا کیوں ہمیں دہشت گردوں کا ساتھی سمجھتی ہے؟ وہی افغان طالبان بڑے عرصے تک پاکستانی طالبان کو سپورٹ دیتے رہے۔ انہوں نے ہی پشاور سکول میں معصوم بچوں کو مارا۔ ستر ہزار پاکستانی فوجی اور شہری ان طالبان کے حملوں میں جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ریکارڈ پر کئی پریس ریلیز موجود ہیں جب افغان طالبان نے پاکستانی طالبان کی حمایت کا اعلان کیا۔

طالبان جو پرانے اور دقیانوسی خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں، جو خواتین کی تعلیم یا نوکری کے خلاف ہیں۔ جہاں انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ سرعام برقع پوش خواتین کو بازاروں میں کوڑے مارے جاتے ہیں۔ خواتین کی عوامی جگہوں اور پارکوں میں جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس بات کا حق افغان لوگوں کو ہے کہ وہ کیسا معاشرہ یا نظام چاہتے ہیں لیکن کوئی توپوں اور گنوں کے ساتھ ان پر قبضہ کر لے اور ہم اس پر شادیانے بجائیں تو اس کے اثرات ہماری زندگیوں اور معاشروں پر بھی پڑیں گے۔

میرا خیال تھا کہ ستر ہزار شہریوں اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو قتل کرانے کے بعد ہمارا دل بھر گیا ہوگا۔ رومانس پورا ہوگیا ہوگا۔ پشاور سکول کے بچوں کے بے رحمانہ قتلِ عام کے بعد ہم کبھی بھول کر بھی طالبان کا نام نہیں لیں گے نہ ہی سپورٹ کریں گے۔ شمالی وزیرستان میں 9 اگست کو پاک فوج کے قافلے پر طالبان کے خودکش حملے میں 4 جوان شہید ہوئے۔ ابھی پچھلے مہینے پاکستانی طالبان کی جانب سے ملک کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ایک حملے میں کیپٹن سمیت پاک فوج کے پانچ جوان شہید ہو گئے۔

ذرائع نے 5 ستمبر کو بتایا کہ یہ حملہ رات میں شمالی وزیرستان کے علاقے بویا میں کیا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور ساتھ ہی 13 ستمبر کو پڑوسی جنوبی وزیرستان میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں ایک فوجی کی جان لینے کا دعویٰ کیا۔ پشاور میں مقیم انٹیلی جنس اہلکار نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز کا ایک قافلہ کوہاٹ سے پشاور جا رہا تھا کہ 3 اکتوبر کو دیر گئے متنی کے علاقے کے قریب اس پر حملہ ہوا جس میں دو جوان شہید اور 5 زخمی ہوئے۔

آج 16 نومبر کو جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا تو ایک اور افسوسناک حملہ دہشت گردوں کی طرف لکی مروت میں پولیس موبائل پر کیا گیا جس میں چھ پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔ یہ تمام حملے ٹی ٹی پی نے کیے اور انہوں نے ان کی ذمہ داری قبول کی۔ لیکن پاک فوج کے بہادر سپوت بہادری سے دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دہشت گردی کی اس جنگ میں ملک و قوم کی حفاظت کی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں لوگ دہشت گردی کی حالیہ کاروائیوں کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ پاکستانی حکام نے حالیہ ہفتوں میں افغان طالبان رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور سخت مطالبہ کیا ہے کہ انتہا پسند گروپ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو لگام دے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں کاروائی کرنے کے بعد سرحد پار افغانستان میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔

دہشت گردی میں ملوث یہ افراد دراصل انسان نہیں حیوان ہیں بلکہ ان کو انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے۔ یہ ملک و قوم کے نہیں بلکہ خدا کے بھی مجرم ہیں۔ ہم جس منصب پر فائز ہیں ہمارا یہ اخلاقی فرض اور ذمّہ داری ہے کہ ان ملک دشمنوں کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند کرتے رہیں اور اپنی قلم کی طاقت سے ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے رہیں اور ان کے مذموم مقصد کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے رہیں۔

انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف زیرو عدم برداشت کی سوچ اور فکر کو قومی بیانیہ کی شکل دینی ہوگی۔ اپنی سیاسی، انتظامی، قانونی سطح پر موجود پالیسیوں میں ایسی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانی ہوں گی جو دہشت گردوں کو آزادانہ بنیادوں پر کام نہ کرنے دے یا ان کو اس انداز سے ختم کیا جائے کہ وہ ریاست کے مقابلے میں کوئی نئی طاقت کے طور پر ابھر سکیں۔

اسی طرح قومی سطح پر جو دہشت گردی کے خلاف ہمارا قومی ریاستی بیانیہ ہے اسے زیادہ سے زیادہ فعال یا لوگوں میں اس کی آگاہی یا شعور دیا جائے۔ کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں فکری سطح پر موجود مسائل یا مغالطے بھی ہمیں کامیابی سے دور لے جاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے فکری بیانیہ کو نئی جہت دینی ہوگی تاکہ ہم نہ صرف انتہا پسندی اور دہشت گردی سے باہر نکل سکیں بلکہ خود کو ایک مہذہب اور ذمہ دار پرامن ریاست کی جانب پیش رفت بھی کر سکیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran