Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Hameed Ullah Bhatti/
  3. Azad Kashmir Mein Adam Istehkam Na Qabil e Qabool

Azad Kashmir Mein Adam Istehkam Na Qabil e Qabool

خود نمائی ایک ایسی بیماری ہے جس کا شکار ہر وقت نمایاں ہونے کے بہانے تلاش کرتا ہے۔ اِس بیماری میں مبتلا شخص خود کو سب سے ذہین اور بالاتر تصور کرتا ہے۔ اِس لیے خواہاں ہوتا ہے کہ ہر ملنے والا جُھک کر ملے سلام کرے اور مشاورت کرے وطنِ عزیز جیسے ممالک میں یہ ایک لاعلاج بیماری ہے کیونکہ یہاں اکثریت کا مسلہ باعزت روزگار، صاف پانی وخوراک ہے۔ یہ بیماری قوم پرستوں میں بُری طرح سرایت کرچکی ہے اسی لیے قوم پرست اپنے سوا کوئی ذہین شخص دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اِس بیماری میں مبتلا بظاہر آئین پسندی کی بات کرتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ آئین کی وہی شق پسند کرتے ہیں جو خودنمائی میں مددگار ہو۔

اِس بیماری کے کئی مریض خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور سندھ میں عشروں سے سرگرم ہیں۔ عام قیاس ہے کہ انھیں بیرونی اعانت حاصل ہے۔ بدقسمتی سے یہ بیماری اب آزاد کشمیر تک پھیل چکی ہے۔ احتجاج کا مقصد بظاہر عوام کو حقوق دلانا بتایا جاتا ہے لیکن اِس آڑ میں بدامنی و انتشار کو فروغ دینے کا موجب بنتے ہیں جس پر جلد قابو پانا اِس لیے بھی ضروری ہے کہ آزاد کشمیر جیسا حساس علاقہ کسی نئی مُہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر یہاں خود نمائی کی بیماری میں مبتلا چند شرپسندوں نے قومیت و علاقائیت کی آگ زیادہ بڑھکالی تو بجھانا مشکل ہو سکتا ہے۔

پاکستان کا شروع سے موقف ہے کہ تقسیمِ ہند کے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کو حقِ خودارادیت دیا جائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کر سکیں کہ آیا پاکستان میں شامل ہونا ہے یا بھارت کی محکومی میں زندگی بسر کرنی ہے۔ جموں و کشمیر کی بغاوت کے ایام میں بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دے گا اِس بارے اقوامِ متحدہ نے بھی ایک سے زائد بار قراردادیں پاس کیں مگر شملہ معاہدے نے سب کچھ بدل کررکھ دیا جس کے تحت پاک بھارت حکومتوں نے کسی عالمی فورم یا ثالث کے پاس لیجانے کی بجائے مسائل باہمی گفت و شنید سے حل کرنے پر اتفاق کیا لیکن اِس معاہدے نے کشمیریوں کی منزل دور کر دی۔

آٹھ عشروں کے بعد بھی حق خودارادیت کی جدوجہد بے نتیجہ ہے۔ اِس دوران مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری جانیں قربان کر چکے ہزاروں مائیں بہنیں اور بیٹیاں عصمتیں لُٹا چکیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری بھارت کی دور دراز جیلوں میں بند ہیں کشمیری قیادت کو قتل کیا جارہا ہے یہاں مسلمان ہونا ہی جُرم اور غداری ہے۔ نماز و روزہ سے روکا جاتا ہے عرصہ حیات تنگ ہونے کے باوجود کشمیری صدقِ دل سے آج بھی پاک وطن کا حصہ بننے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ پاکستان بھی اُن کا مقدمہ پوری طاقت سے لڑرہا ہے۔ اپنے کشمیری بھائیوں کو آزاد کرانے کے لیے پاک فوج پانچ سے زائد چھوٹی و بڑی جنگیں لڑ چکی۔ اِس دوران پاکستان دولخت ہوگیا مگر اپنے کشمیری بھائیوں کی حمایت پر ثابت قدم ہے جس سے پریشان بھارت اب ریشہ دوانیوں پر اُتر آیا ہے۔ آزاد کشمیر میں سیاسی عدمِ استحکام ہو یا بدامنی، دونوں صورتیں بھارت کے لیے پسندیدہ ہیں۔ آزادکشمیر میں خود نمائی کی بیماری کا شکار عناصر دانستہ یا نادانستہ طور پر بھارتی بیانیہ مضبوط کررہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی بھارت کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کرتا ہے تو پاکستان سفارتی سطح پر آواز بلند کرتا اور حالات سے دنیا کو آگاہ کرتا ہے۔ اب بھی مقبوضہ کشمیر کی وادی گزشتہ چھ برس سے عملی طور پر ایک جیل ہے۔ ہر کشمیری دیدہ و نادیدہ آہنی شکنجوں میں جکڑا ہے۔ لوگوں کی زمینیں چھین کر کاروبار تباہ کیے جارہے ہیں۔ جنت نظیر وادی میں تعینات لاکھوں بھارتی فوجی روزانہ کشمیریوں کی تذلیل کرتے ہیں اپنے کشمیری بھائیوں کو بھارتی پنجہ استبداد سے جلد نجات دلانے کے لیے پاکستان مسلسل کوشاں ہے۔

اب جبکہ پاکستان رواں بر س ماہ مئی میں بھارت کو فضائی اور زمینی لڑائی کے دوران شکست فاش دے چکا تو آزاد کشمیر میں کچھ خود نمائی کی بیماری میں مبتلا لوگ متحرک ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ شٹر ڈاؤن، پہیہ جام اور احتجاجی ریلیوں سے عدمِ استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ دو مقاصد حاصل کیے جاسکیں اول، اگر مقبوضہ کشمیر میں امن نہیں تو آزاد کشمیر بھی پُرامن نہیں۔ اِس طرح یہ ثابت کرنا آسان ہوجائے گا کہ دونوں طرف کے کشمیری امن کے دشمن ہیں دوم، جب پاکستان سے آزاد کشمیر ہی سنبھالا نہیں جا رہا تومقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو کیسے سنبھال سکتاہے؟ لہذا کشمیر کی موجودہ صورتحال کو مستقل تسلیم کرنا بہتر ہوگا۔ نیز اقوامِ متحدہ اپنی پاس کی گئی قراردادوں بُھلا دے ایسا ہونا بہت خطرناک صورتحال ہوگی۔ اِس طرح ناصرف کشمیری ہمیشہ کے لیے اپنی منزل سے دور ہو جائیں گے بلکہ پاکستان بھی نامکمل رہے گا اور پانی کے سرچشموں پر ہمیشہ کے لیے اُس کا کنٹرول ہو جائے گا۔ اس طرح جب چاہے گا آزاد کشمیر اور پاکستان کے پچیس کروڑ لوگوں کونہ صرف پیاسا مار سکے گا بلکہ زراعت کو تباہ کرنے کے بھی قابل ہو جائے گا۔

آزادکشمیر میں عدمِ استحکام اِس لیے بھی ناقابل قبول ہے کہ جب آزادکشمیر کے لوگوں کو بخوبی معلوم ہے کہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں خودنمائی کی بیماری میں مبتلا قوم پرست ہیں۔ بی ایل اے، ٹی ٹی پی جیسے فتنہ ہندوستان اور خوارج فعال ہیں جن کی مالی سرپرستی نہ صرف بھارت کر رہا ہے بلکہ افغان سرزمین کے زریعے ہتھیار و تربیت بھی فراہم کررہا ہے جس کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔ اِن حالات میں خود نمائی کی بیماری میں مبتلا لوگوں کا متحرک ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب پورا پاکستان مہنگی بجلی استعمال کررہا ہے مگر آزادکشمیر میں بجلی اور آٹے کے نرخ کم ترین ہیں۔

آزادکشمیر میں تعلیم وصحت کی سہولتیں پورے ملک سے بہتر ہیں تیس فیصد ریاستی آبادی کو سرکاری ملازمتیں حاصل ہیں یہ شرح ملک کے تمام علاقوں سے زیادہ ہے۔ اِس کے باوجود ٹیکس نہ دینے کی باتیں قابلِ ستائش نہیں ارے بھئی جب آپ ٹیکس ہی نہیں دیں گے تو تعلیم و صحت، زرائع آمدو رفت کے لیے وسائل کیسے حاصل ہوں گے؟ خود نمائی کی بیماری میں مبتلا لوگوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے لوگ آزاد کشمیر کے وسائل ہڑپ کر رہے ہیں جس میں کوئی صداقت نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ امسال پاکستان نے اضافی اکیس ارب آزاد کشمیر حکومت کو دیے ہیں جہاں تک مہاجرین نشستوں اور کوٹہ سسٹم کا تعلق ہے تو اِن سے کشمیری ہی مستعفید ہو رہے ہیں۔

آزاد کشمیر میں کوئی پاکستانی جائیداد تک نہیں خرید سکتا مگر بھارت میں ایسی کوئی پابندی نہیں وہ تو کشمیریوں کی شناخت ختم کرنے کے لیے جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ تک ختم کر چکا ہے لہذا خود نمائی کی بیماری کا شکار ہوش کے ناخن لیں اور اغیار کی سازشوں میں آلہ کار نہ بنیں۔ ہرگز نہ بھولیں کہ بھارتی بھیڑیے مسلسل اِس تاک میں ہیں کہ آزاد کشمیر کو ہڑپ کر لیں اِس لیے اپنے محدود مفاد کے لیے آزاد خطہ کو سیاسی عدمِ استحکام کی پاتال میں دھکیلنے سے گریز کیا جائے تاکہ پاکستان یکسوئی سے کشمیری بھائیوں کا مقدمہ لڑ سکے۔ اِدارے بھی غیر ضروری نرمی کی بجائے ریاستی امن کو ہرحال میں یقینی بنائیں تاکہ دشمن کو منفی پراپیگنڈے کا موقعہ نہ ملے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran