Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Hameed Ullah Bhatti/
  3. Cheen Aur Brics Se Khof

Cheen Aur Brics Se Khof

چینی راہدری منصوبے اور برکس فیصلوں نے امریکی پالیسی سازوں کو پریشان کر رکھا ہے کیونکہ یہ منصوبے ایسے کثیر قطبی منظرنامے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس سے امریکی اہمیت کمی ہونا یقینی ہے۔ اگر امریکی دفاعی، تجارتی اور معاشی غلبہ ختم ہوتا ہے تو اُسے مختلف ممالک کا محتاج ہونا پڑے گا جو اُسے ناپسند ہے۔ مستقبل کے منظرنامے میں نئی جگہ بنانے سے زیادہ وہ اپنی حالیہ حثیت بحال رکھنا چاہتا ہے مگر قرائن سے ظاہر ہے کہ عالمی منظرنامے پر جنم لیتی تبدیلیاں بہت کچھ بدلنے والی ہیں جن سے عالمی تقسیم کا عمل تیز ہوگا جس کے نتیجے میں طاقت کے نئے مراکز وجود میں آسکتے ہیں جنھیں محصولات بڑھانے اور دباؤ سے روکنا اب ممکن نہیں رہا۔

موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنیت تاجرانہ ہے وہ دھونس و دباؤ سے امریکی منافع بڑھانا چاہتے ہیں اُن کے پاس دفاعی طاقت کا بھی ہتھیار ہے وہ امریکی معیشت کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے ہر حربہ اختیار کر رہے ہیں۔ روس اور مشرقِ وسطیٰ کی تیل پر اجارہ داری محصولات بڑھانے کی ایک وجہ ہے۔ رواں ماہ اگست کے دوران ٹرمپ نے کئی اہم فیصلے کیے اور دنیا کے 69 ممالک کی طرف سے امریکہ بھیجا جانے والے سامان پر دس سے پچاس فیصد نیا ٹیرف لگایا اور عالمی تجارت کا رُخ تبدیل کرنے کی کوشش کی مگر ایسی کوششوں کی کامیابی کے حوالے سے ابھی یقینی طورپر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

چینی راہداری منصوبوں کے کلیدی کردار پاکستان اور برکس میں شامل ایک اہم ملک بھارت پر ٹرمپ کی خاص توجہ ہے پاکستان پر عائد محصول 29 سے 19کرتے ہوئے بھارت پر پچاس فیصد نئے محصولات عائد کیے گئے ہیں جبکہ ٹیکسٹائل کے دیگر بڑے برآمد کنندگان بنگلہ دیش اور ویت نام پر محصول کی شرح بیس فیصد کردی گئی ہے۔ محصول کی شرح 19فیصد ہونے پر پاکستان خوش ہے حالانکہ اِس سے ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کرنے میں زیادہ بہتری نہیں آسکتی۔ بنگلہ دیش اور ویت نام میں صنعتوں کے لیے توانائی سستی ہے جبکہ پاکستان میں پیداواری لاگت دس فیصد زیادہ ہے۔ اِن حالات میں بھارتی برآمدات اگر کچھ متاثر ہوں گی بھی تو بھی بنگلہ دیش اور ویت نام کی طرف سے پاکستانی برآمدات کے لیے چیلنج کم نہیں ہوگا۔ علاوہ ازیں امریکی تیل جو روس اور مشرقِ وسطیٰ سے مہنگا ہے خریدنے سے برآمدی منافع زائل ہو سکتا ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ پاکستان فیصلوں میں توازن رکھے اور چین اور امریکہ کے لیے تجربہ گا ہ بننے کی بجائے ریاستی مفاد کو ترجیح دے۔

ٹرمپ ایک خود پسند شخص ہیں جنھیں اپنی منوانے کا جنون ہے وہ ہر جگہ بالاتر اور نمایاں رہنے کے متمنی ہیں مگر اُن کی طبعیت میں تضاد بھی ہے۔ ایک طرف خود کو دنیا کے ایسے امن پسند اور صُلح جو کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کا بھارت و پاکستان کی جنگ بندی، ایران پر اسرائیلی حملے بند کرانے اور آزربائیجان و آرمینیا میں امن معاہدہ کرانا کارنامہ ہے دوسری طرف جب غزہ کے مظلومین کی نسل کشی کی بات ہو توبے نیازی، بے زاری اور لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے فیصلوں کا اختیار اسرائیل کو دے دیتے ہیں۔ یہ ناانصافی اُن کے امن پسند کردار کو دھندلاتی ہے۔ امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کے چکر میں وہ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا اُن سے اتفاق کرے لیکن دُہرے کردار سے امن کا نوبل نعام کا حصول شاید ممکن ہوجائے لیکن دنیا غیر جانبدار اور امن پسند کے طور پر شاید ہی تسلیم کرے۔

برکس میں شامل بھارت اور برازیل جیسے اہم ممالک امریکہ کا بطور خاص نشانہ ہیں۔ ٹرمپ نے اُن پر محصولات کی شرح سب سے زیادہ پچاس فیصد کردی ہے جو اِس اُبھرتے معاشی، تجارتی اور سفارتی بلاک سے ناپسندیدگی کا اِشارہ ہے۔ بظاہر امریکہ نہیں چاہتا کہ بھارت تیل کی درآمدات کے لیے روس پر انحصار بڑھائے مگر اِس کی وجہ وہ نہیں جو بتائی جارہی ہے کہ اِس طرح یوکرین پر حملے کرنے میں روس کی مالی مدد ہورہی ہے۔ دراصل چین سے بھارت کو دور رکھنا اور بھارت کا چین سے جلد تصادم کرانا ہے مگر رواں ماہ کی پاک بھارت جھڑپوں نے بھارتی دفاعی طاقت کا پول کھول دیا ہے جب چند گھنٹوں میں پاکستان نے فضائی اور زمینی برتری کا بھارتی غرور خاک میں ملا دیا۔

اِس تناظر میں چین سے موازنہ بنتا ہی نہیں لیکن چینی راہدری منصوبوں اور برکس فیصلوں سے خوفزدہ امریکہ کچھ دیکھنے اور سمجھنے پر تیار ہی نہیں وہ بھارت کو برکس سے الگ کرانے اور چینی منصوبوں کو بھارتی طاقت سے ختم کرانے کا آرزومند ہے۔ ایسا ہونے کا بظاہر کوئی امکان نہیں اور اگر بھارت ایسی کسی سازش میں آلہ کار بنتا ہے تو اِس کے نتیجے میں اُس کا سفارتی اور دفاعی کردار ہمیشہ کے لیے محدود ہونا یقینی ہے۔ رواں ماہ چین میں منعقد ہونے والے برکس سرابرہی اجلاس میں سات برس کے طویل وقفے کے بعد مودی کی شرکت پر رضامندی اسی طرف اِشارہ ہے کہ چین سے ٹکراؤ کی ہمت نہیں رکھتا بلکہ چینی ٹیکنالوجی سے مرعوب ہے۔

برکس روس، بھارت، چین، برازیل اور جنوبی افریقہ جیسے پانچ ممالک پر مشتمل ایسا اتحاد ہے جو دنیا کی آبادی کا 47فیصد کا مسکن ہیں جس کا گلوبل جی ڈی پی میں حصہ 36ہے۔ یہ ممالک تیل، گیس سمیت نہ صرف دیگر قیمتی معدنیات سے مالا مال ہیں بلکہ زرعی پیداوار میں بھی نمایاں ہیں دفاعی حوالے سے بھی طاقتور اور بیرونی جارحیت سے محفوظ ہیں۔ بھارت کا روس اور چین کے اِس منصوبے سے اتفاق ہے کہ امریکہ اور مغرب کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے ڈیجیٹل کرنسی، مصنوعی زہانت فائیوجی اسپیکٹرم اور تیل جیسی مصنوعات میں برکس کا حصہ بڑھایا جائے۔ یہ تنظیم ڈالر پر مبنی معاشی نظام کا متبادل چاہتی ہے اِس میں شامل ممالک چینی کرنسی یوآن، روسی کرنسی روبل اور بھارتی روپے میں تجارت بڑھارہے ہیں۔ توقع ہے کہ جلد ہی سعودی عرب، مصر، ایران اور یواے ای بھی اِس کا حصہ بن جائینگے جس سے معاشی، تجارتی اور سفارتی طاقت میں مزید اضافہ ہوگا جسے روکنے کے لیے امریکی قیادت پاکستان سے مدد چاہتی ہے اسی لیے تجارتی نوازشات کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھایا جانے لگا ہے۔

چینی کرنسی میں ادائیگیوں کا نظام تیز اور سستا ہے جس سے کئی ممالک متاثر ہوکر راغب ہونے لگے ہیں۔ پہلی بار سعودی عرب نے چینی کرنسی یوآن میں تیل کی ادائیگی کی طرف پیش رفت کی ہے۔ ڈالر میں زرِ مبادلہ کے ذخائر رکھنے کی بجائے دیگر کرنسیوں میں ذرِ مبادلہ رکھنے کی حوصلہ افزائی ہونے لگی ہے۔ جب سے برکس نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اِداروں (جن پر امریکہ کازیادہ اثرورسوخ ہے) کامتبادل سی آر اے بینک متعارف کرایا ہے جو برکس میں شامل ممالک کو مالی مشکلات کی صورت میں قرض دے گا، نے دنیا کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ یہ تبدیلی کی جانب ایسا اہم قدم ہے جو عالمی مالیاتی نظام پر ڈالر کی صورت میں امریکی اجارہ داری ختم کرنے کی بنیادبن سکتا ہے ایسے اقدامات سے ہی امریکہ عدم تحفظ کا شکار ہے اور چین و روس کی قیادت میں تشکیل پانے والی برکس جیسی تنظیم سے دنیا کو دور رکھنے کے لیے محصولات کاسہارہ لینے لگا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran