Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Hameed Ullah Bhatti/
  3. Trump Ka Aman Formula Aur Muslim Qayadat

Trump Ka Aman Formula Aur Muslim Qayadat

غزہ میں جنگ نہیں نسل کشی ہورہی ہے کیونکہ حماس کے پاس کوئی فضائی طاقت نہیں ہتھیار بھی ازکار رفتہ ہیں اور نفری بھی تربیت یافتہ نہیں نیز بھوک وپیاس سے نڈھال اور اِتنے مسائل کے باوجود اپنی شناخت کے تحفظ کی جبلت اُسے شکست تسلیم کرنے سے روکتی ہے وہ تمام تر بے سروسامانی کے باوجوداپنی بساط کے مطابق دفاع میں ثابت قدم ہے دوبرس سے اسرائیل کی طرف سے غزہ میں جاری نسل کشی نے دنیا کو ہلا کررکھ دیا ہے اسی بناپر امریکہ اور اسرائیل کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہے اسرائیلی سفاکانہ بمباری پر شدید ردِ عمل آنے سے ہی برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک بالآخر فلسطینی ریاست تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو صدر ٹرمپ جیسے مذہبی تعصب کا شکار شخص کو امن منصوبہ پیش کرنے کی طرف لائی ہے اِس منصوبے کی ابتدامیں چند اہم مسلم ممالک نے حمایت کی جسے اِس بناپر مسلم قیادت کی جلد بازی سمجھاجارہا ہے کہ امن منصوبے میں نہ صرف آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست بارے کوئی لائحہ عمل نہیں اور نہ ہی القدس شریف پر قبضہ ختم کرانے کی بابت کوئی واضح یقین دہانی ہے انھی وجوہات کی بناپر ایسے قیاسات کو تقویت ملتی ہے کہ اسرائیل سے دنیا کی بڑھتی نفرت کو کم کرنے کے لیے ہی امریکہ میدان میں آیا ہے جس کا مسلم قیادت نے ادراک نہ کیا اور جلد بازی میں حمایت سے اپنی ساکھ داؤ پر لگالی۔

فلسطین کا مسئلہ دراصل اسرائیل کا پیدا کردہ ہے اگروہ جارحانہ پالیسی اورتوسیع پاسندی ترک کردے تو مشرقِ وسطیٰ میں فوری طورپر امن قائم ہو سکتا ہے مگر اسرائیل کی توسیع پسندی نے فلسطین اتھارٹی کوچند ایک ایسے شہروں تک محدود کر دیا ہے جہاں غربت ا وربھوک و افلاس کا راج ہے جوہر حوالے سے اسرائیل کی محتاج ہے فلسطین کو اِس نہج تک لانے میں پی ایل او کی حماقتوں کابھی اہم کردار ہے اگر اوسلومعاہدے کے وقت یاسر عرفات جلدبازی نہ کرتے توآج فلسطینی اتھارٹی یوں بے بس ولاچار نہ ہوتی۔ جب حماس غزہ کی منتخب قیادت ہے تو امریکہ اور اسرائیل کااُسے دہشت گرد قرار دیناسمجھ سے بالاتر ہے ٹرمپ امن منصوبے میں فلسطینی ریاست بارے میں تو ابہام ہے مگر حماس کی قیادت کو غیر مسلح کرنے اور ملک بدرکرنے بارے غیر مُبہم وضاحت ہے جس سے اسرائیل نوازی آشکار ہوتی ہے حماس کے ہتھیار ڈالنے کے بعد اسرائیلی کوانخلا کاوقت دیناجانبداری کو عیاں کرتا ہے ا سرائیل کا قیام برطانیہ کی وجہ سے ممکن ہوا مگر اب یہ حالت ہے کہ خطے میں امریکی پالیسی کا تعین اسرائیل کرتا ہے ٹرمپ امن منصوبے میں ایک بین الا قوامی عبوری اِدارے کا تصور پیش کیا گیا ہے جس کی صدارت امریکی صدر کے پاس ہوگی جبکہ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئرکو اِس کاحصہ بنایا گیاہے علاوہ ازیں غزہ کی مستقبل میں دیکھ بھال کے لیے ٹرمپ نے اپنے صیہونی داماد جیرڈکشنر کو بھی اہم کردار تفویض کیا ہے یہ سب امن پسندوں کوچونکانے کا باعث ہے امن منصوبہ کسی سازش کاپیش خیمہ معلوم ہوتا ہے جسے مسلم امہ کو سمجھنا چاہیے۔

صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے آٹھ بڑے مسلم ممالک کی مشاورت سے امن منصوبہ پیش کیا جس کی پاکستان سمیت سب نے حمایت کی ہے مگرحمایتی امن منصوبے کے خدوخال سامنے آنے پراب پریشان لگتے ہےں اور اپنی لاتعلقی ظاہرکرر ہے ہیں قطر نے تحفظات کا ظہار کیا ہے پاکستان بھی اب فاصلہ اختیار کرتا نظر آتا ہے جبکہ حماس نے بھی امن منصوبہ رَد کر دیا ہے تواعتماد کا شکار امریکہ کوحالات کی سنگینی کاکچھ احساس ہواہے اور وہ دوست ممالک کو اعتماد میں لینے لگا ہے قطر کو دفاع کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جبکہ شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکے ساتھ ہونے کے دعویٰ پر اسحاق ڈار کو کہنا پڑا ہے کہ ہم کسی ابراہم ایکارڈ کا حصہ نہیں بننے جارہے اگر مسلم قیادت جلدبازی سے گریز کرتی تو شاید ٹرمپ ایسی جانبداری سے کام نہ لیتے اورنہ ہی آج مسلم قیادت عوامی حلقوں میں ہدفِ تنقید بن رہی ہوتی جلدبازی کاشاخسانہ ہے کہ امن منصوبے کی حمایت کی یقین دہانی کرانے والے قطر سمیت دو عرب ممالک اب مخمصے میں ہیں کہ کیسے حماس کو منصوبہ تسلیم کرنے پر رضا مند کریں اب تو یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی فوج کی واپسی نیتن یاہوکی خواہش کے مطابق ہونابہت مشکل ہے اسی لیے امن منصوبے میں بار بار ترامیم کرانے کی نوبت آئی مسلم قیادت کی طرف سے حمایت کے باوجود امن منصوبہ کا پایہ تکمیل کو پہنچنااِس لیے بھی مشکل ہے کہ اکثر مسلم ممالک کی قیادت عوامی اعتماد سے محروم ہے جوحمایت کے بعد اب تذبذب میں ہے جو اُسے کسی غیر معمولی فیصلے سے روکتی ہے۔

امن منصوبے میں حماس سے کہا گیا ہے کہ بہتر گھنٹوں میں زندہ یرغمالیوں کورہاکرے اور دودرجن کے قریب مردہ یرغمالیو ں کی باقیات اسرائیل کے حوالے کردے بعد گرفتار کیے گئے فلسطینیوں کواسرائیل رہا کرے گا ماضی کے تجربات شاہد ہیں کہ اسرائیل وعدے پورے نہیں کرتابلکہ من مرضی سے کام لیتا ہے اسی لیے تمام تر مشکلات کے باوجود حماس اب اسرائیل پر اعتماد کرنے میں ہچکچارہی ہے جنگ بندی کے ایام میں حماس کی طرف سے یرغمالیوں کی رہائی ہوتے ہی اسرائیل حملے کرتا رہا ہے جس کے سدِ باب کے حوالے سے جب مسلم قیادت پہلے کچھ نہیں کر سکی تو اب بھی ایسا امکانات کو رَد نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل امن، اصول، اخلاق یا انسانی ہمدردی کو خاطر میں لائے بغیر شقی القلبی سے کام لے گا اور مسلم قیادت عملی اقدامات کی بجائے محض زبانی کلامی مذمت تک محدود رہے گی لہٰذا بہتر یہ ہے کہ غزہ کو مزید قربانی کا بکرا بنانے سے گریز کیا جائے۔ امن معاہدے پر عمل کرنا یا جان چھڑانا دونوں صورتوں میں نیتن یاہو کے لیے بھی زیادہ خوشگوارصورتحال نہیں ہو سکتی جب وہ انتہائی دائیں بازو کی متعصب جماعت کے ووٹوں کی کمزور بیساکھی کے سہارے حکومت کررہے ہےں اِس صورت میں بہتر ہوگا کہ تمام فریقین کوکسی نئے امتحان میں ڈالنے کی بجائے انصاف سے کام لیاجائے۔

غیر جانبدار حلقے متفق ہیں کہ ٹرمپ امن منصوبے سے بھلے مشرقِ وسطیٰ میں امن نہ آئے اور قبضے میں لیے گئے علاقے پروشلم وگولان کی پہاڑیایوں سے فوجی انخلا نہ ہو نیز غزہ کا محاصرہ بدستور رہے لیکن اسرائیل کو تسلیم کرانے کا دیرینہ خواب پوراہوسکتاہے بہتر یہ ہے کہ اِس حقیقت کو مسلم قیادت سمجھے ایسا ہی منصوبہ عراق میں جب ناقابل قبول قرار پاچکا تو نیاتجربہ کرنادانشمندی نہیں ایسے جانبداری پر مبنی منصوبے کو تسلیم کرنے سے عرب بہار جیسی بیداری کی ایک نئی لہر جنم لینے کاخدشہ بھی بعید ازقیاس نہیں ہے ٹرمپ امن منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے مسلم قیادت تمام پہلوؤں کو مدِ نظر رکھے اور فلسطینیوں کے مفاد کا تحفظ یقین بنائے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا دوٹوک موقف رہا ہے کہ اسرائیل مسلم دنیاکے دل میں پیوست خنجر ہے تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہیں مگر دوریاستی حل کی حمایت دراصل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے اور یہی امن منصوبے کی آڑ میں ہوناہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran