Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Hameed Ullah Bhatti/
  3. Zehmat Se Nemat Tak

Zehmat Se Nemat Tak

ہر قدرتی آفت کے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں سنجیدہ اور زہین اقوام اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر قدرتی آفات کے نقصانات کم کرتے ہوئے فوائد حاصل کرتی ہیں تاکہ نہ صرف معاشی ترقی ہو بلکہ شہری بھی مشکلات کاشکار نہ ہوں مگر پاکستان میں قدرتی آفات کے نقصانات کم کرنے کے لیے طویل یا قلیل منصوبہ بندی کا ہمیشہ سے فقدان رہاہے اسی لیے زلزلے اور سیلابوں سے ملکی معاشی مشکلات بڑھتیں اور شہری مشکلات کے بھنور میں پھنستے رہتے ہیں پاکستان میں سیلاب کی قیامت خیزی جاری ہے جہاں جہاں سے سیلابی ریلے گزر ے ہیں وہاں پر انسانی آبادی کے انخلا کے باوجود زراعت اور پالتو جانوروں کا اِتنا نقصان ہوچکا ہے جس کے اثرات شاید کئی برسوں تک رہیں ابھی تک چناب، راوی، ستلج اور دریائے توی بپھرہوئے ہیں جس سے مزید نقصان کا خدشہ ہے پہلے کے پی کے، گلگت بلتستان، کشمیر میں بارشوں نے تباہی مچا ئی اب پنجاب کے میدانی علاقوں میں سیلاب سے زندگی اجیران ہے 1988کے بعد سے چناب، راوی، ستلج، بیاس اور دریائے توی میں ایسے ریلے نہیں دیکھے گئے اِس میں ظاہرہے موسمیاتی تبدیلیوں کا بڑا عمل دخل ہے اب سیلابی ریلے جنوبی پنجاب اور سندھ کی طرف رواں ہیں اور تباہی کاسوچ کرہی ہول آتے ہیں سندھ اور جہلم دریاؤں پر بنے تربیلا اور منگلہ ڈیموں نے سیلابی تباہ کاریاں کسی حد تک کم کیں سوچیں اگر یہ دوبڑے ڈیم بھی نہ ہوتے تو تباہی میں شایدکئی گنا اضافہ ہوجاتا سچ یہ ہے کہ قدرتی آفات کے نقصانات کم کرنے کے لیے ہمارے پاس وسائل ہیں مگر منصوبہ بندی نہیں اگر ملک میں مزید ڈیم بنانے کاکام ہنگامی بنیادوں پر شروع کر دیا جائے تو سیلابی تباہ کاریاں کم کرنے کے ساتھ معاشی و زرعی ترقی ممکن ہوسکتی ہے۔

عام خیال یہ ہے کہ حالیہ سیلاب دراصل بھارت کی آبی جارحیت ہے جس نے سیلاب جیسی صورتحال سے دوچارکرکے اہم سے مئی کی عبرتناک فوجی شکست کا بدلہ لیا ہے تسلیم کہ بھارت پہلے پانی ڈیموں میں روکتا اور پھر اچانک چھوڑ دیتا ہے جس سے دریاؤں اور ندی نالوں میں باربار طغیانی آرہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب ہمارے پاس وسائل موجود ہیں تو آبی جارحیت روکنے کادیرپا بندوبست کیوں نہیں کرتے؟ بھارت توہے ہی ہمارا دشمن، لہذا وہ توہمیں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچنانے کی کوشش کرے گا لیکن ہمارے دفاعی ماہرین کی طرح آبی ماہرین کیوں نہیں سوچتے؟ وہ کیوں اصل فرائض سے غافل ہیں کالاباغ ڈیم جیسامنصوبہ مکمل کرکے اربوں ڈالر کامیٹھا پانی سمندرمیں ضائع کرنے کی بجائے پینے اور زراعت کے لیے محفوظ کیا جاسکتاہے وزیرِ اعلیٰ کے پی کے نے اِس حوالے سے اپنی رضامندی دے دی اب اگر حکومت تھوڑی سی ہمت کرے اپنی اتحادی پیپلز پارٹی کے متعصب رہنماؤں کو قائل کرلے تو یہ منصوبہ مکمل کیاجا سکتا ہے قبل ازیں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یارولی بھی کہہ چکے کہ ہمارے تحفظات دور اور منصوبے کی افادیت پر قائل کر لیا جائے تو حمایت کر سکتے ہیں لہذا حکومت اور آبی ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ مزید غفلت چھوڑ کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے سیاسی ورائے عامہ ہموار کریں تاکہ سیلاب کوزحمت سے نعمت بنایا جا سکے۔

پاکستان میں جنگلات کی بے دردی سے کٹائی ہورہی ہے اور ماہرین کے بار بارانتباہ کے باوجود حکومت اِس حوالے سے کوئی نتیجہ خیز فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کاشکارہے اسی بناپر درختوں کی بے دریغ کٹائی کے عمل میں تعطل نہیں آسکا جس کی وجہ سے کے پی کے، گلگت بلتستان اور کشمیر کے وہ علاقے یا پہاڑجو کبھی ہر بھرے اور سرسبز ہوا کرتے تھے اب قدرتی حسن سے محروم ہوتے جارہے ہیں حالانکہ یہ جنگلات قدرتی آفات میں ڈھال کا کام کرتے ہیں یہ ڈھال ہٹنے سے کلاؤڈبرسٹ ہوئے لینڈ سلائیڈنگ بڑھی اور سیلابی تباہ کاریوں میں خوفناک اضافہ ہواستم ظریفی تو یہ کہ سینکڑوں انسانی جانی اور اربوں مالیت کے نقصان کے باوجود کشمیر، کے پی کے اور گلگت بلتستان ابھی تک بھی کوئی پالیسی نہیں بناسکے صرف وزیرِ اعلیٰ مریم نوازنے درخت فروخت کرنے اورکاٹنے پر پابندی لگائی ہے سوال یہ ہے کہ مریم نواز کی طرح دیگر وزرائے اعلیٰ ایسافیصلہ کرنے سے کیوں قاصر ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اُن کا مفاد درختوں کے کٹاؤ میں ہے؟

وطنِ عزیز میں ضرورت کے مطابق ایسا بندوبست نہیں جس سے سیلاب کی صورت میں دستیاب میٹھے پانی کو ذخیرہ کر سکیں اسی لیے ہر سال قیمتی پانی سمندر میں پھینکنا پڑتا ہے حالانکہ ملک کا زیرِ زمین پانی جس قدر خوفناک حد تک نیچے جا چکا ہے کاتقاضاہے کہ پانی کی گزرگاہوں کے قرب وجوار میں بڑے پیمانے پر ایسے پانی چوس کنویں بنا ئے جائیں جن سے زیرِ زمین پانی کی سطح بلند اور سیلاب کی تباہ کاریوں کم کرنے میں مددملے ملک میں پانی کے نئے ذخائر ڈیم کی صورت میں بنانااشدضروری ہے مگر بات یہ ہے کہ سنجیدہ اور زہین اقوام قدرتی آفات کے نقصانات کم کرتے ہوئے فوائد کشید کرتی ہیں اب پتہ نہیں ہمارے حکمرانوں کی کیا مجبوریاں ہیں؟ کہ وہ اِس حوالے سے مسلسل فرائض سے غفلت کے مرتکب ہیں

پاکستان میں زمینوں کی خرید وفروخت کا کاروبار کافی نفع بخش ہے لوگ جلد سے جلد امیر ہونے کے لیے اِس شعبے میں آتے ہیں کیونکہ بڑھتی آبادی کے حساب سے رہائشی سہولتیں ناکافی ہوچکیں مگر اِس چکر میں آبی گزرگاہوں میں بھی رہائشی منصوبے بنا دیے گئے جونہ صرف پانی روکنے کا موجب ہیں بلکہ بڑے پیمانے پراملاک کے نقصان کی اہم وجہ ہیں ایسی تعمیرات کو فی الفور روکناضروری ہے سیلابی پانی سے منہدم گھربے ترتیب تعمیرات کی تصدیق ہیں اب تو ملیریا، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور موسمی بخارجیسی بیماریوں کا خطرہ بھی سرپرہے اگر آبی گزرگاہیں بحال رکھی جاتیں تو ایسی نوبت ہر گز نہ آتی۔

ابھی لوگوں کو سیلابی کیفیت کا سامنا ہے اسی لیے آنے والے سخت حالات کاندازہ نہیں چاول، مکئی، سبزیوں اور چارے کی فصلوں کی تباہی سے خوراک کا بحران آناہے اِس مہنگائی اور بھوک و افلاس کے طوفان کو کیسے روکناہے؟ یہ سوچنا حکومت کافرض ہے کہ بے کار مصروفیات چھوڑ کر ایسی منصوبہ بندی کرے جس سے متوقع بحران کی شدت کم ہو اِسکے لیے بہتر ہے کہ ایران اور افغانستان سے غذائی اجناس اور سبزیاں درآمد کرنے پر غیر ضروری محصولات میں نرمی کی جائے تاکہ عام شہری زیادہ متاثر نہ ہو یادرہے کہ امسال پاکستان کو توقع کے مطابق سیلاب کے متاثرین کے لیے عالمی امدادبھی نہیں ملی اِس پر سوچنے اور خودانحصاری پر کام کی ضرورت ہے یہ تبھی ممکن ہے جب سیلابی پانی کو زحمت بننے سے روکنے کے ساتھ نعمت بنایا جائے سیلاب سے زمینوں کی ذرخیزی بڑھتی ہے اِس سے فائدہ کیسے اُٹھاناہے؟ اِس پہلو سے بھی زرعی ماہرین منصوبہ بندی کریں تاکہ جلد ازجلد خوراک کابحران ختم کرنے میں مددملے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran