منڈی بہاء الدین کی علمی وادبی تاریخ کا ذکر مجلہ"صوفی"کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، اس رسالے کا اجراجنوری 1909 عیسوی میں عمل میں آیا تھا جسے ملک محمدالدین اعوان نے اپنے پیر سید غلام حیدر شاہ جلالپوری کی یاد میں جاری کیا تھا۔ یہ مجلہ "صوفی"پنڈی بہاء الدین (پرانی پنڈی)سے جاری ہوا تھا جو منڈی بہاء الدین سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ملک محمد الدین اعوان نے "صوفی"اگرچہ ایک چھوٹے سے قصبے سے جاری کیا تھامگر معیار اور موضوع کی بدولت اس نے برصغیر پاک و ہندمیں بھرپور پذیرائی حاصل کی۔ پوری دنیا میں جہاں کہیں مسلمان آزادی کے لیے کو شاں ہوئے یا دنیا کے کسی کونے میں مسلمان مصیبت میں مبتلا نظر آئے، "صوفی" نے اپنے صفحات کے ذریعے ان کو اخلاقی مدد فراہم کی اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ "صوفی"نے برصغیر میں انگریزوں کے کردار پر گہری نگاہ رکھی، اس نے برصغیر میں انگریزوں کی مسلم مخالف پالیسیوں کا نہ صرف پردہ چاک کیا بلکہ ہر سطح پر اس کو للکارا۔ ماہنامہ "صوفی"کو اپنی اشاعت کے طویل دور میں برصغیر کے نامور قلم کاروں کی معاونت حاصل رہی، اکبر الٰہ آبادی، الطاف حسین حالی، نیاز فتح پوری، سید سلمان ندوی، غلام قادر گرامی، سیماب اکبر آبادی، عبدالحلیم شرر، نوح ناروی، قاضی حمید الدین، اختر جوناگڑھی، ناصر نذیر، فراق دہلوی، خواجہ حسن نظامی، علامہ اقبال، میر ولی اللہ، مولانا ظفر علی خان، عبد الحی فاروقی، جوش ملیح آبادی، حکیم احمد شجاع، مولانا حسرت موہانی، احمد ندیم قاسمی، سید جماعت علی شاہ، مو لانا عبد السلام ندوی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا اشرف علی تھانوی، منشی تلوک چند مرحوم، غلام احمد پرویز، مولانا عبد المجید سالک، سید عابد علی عابد، یوسف سلیم چشتی، محمد دین تاثیر، عبد الماجد دریا آبادی، حجاب امتیاز علی اور مولانا ابوالحسن ندوی کے نام نمایاں ہیں، جس مجلے کو خوش قسمتی سے ایسے مصنفین کا تعاون حاصل ہو اس کی کامیابی پر کوئی شک ہو سکتا ہے؟
میں جب بھی منڈی بہاء الدین میں کوئی ادبی تقریب دیکھتا ہوں، میرا دھیان ماضی کی جانب لوٹتا ہے، میں ان ہستیوں کو لازمی یاد کرتا ہوں جنھوں نے علمی و ادبی حوالے سے اس مٹی کو زرخیز بنایا، دائم اقبال دائم ہوں یا پھر مستنصر حسین تارڑ، احمد یار مرالوی، امرتا پریتم، حکیم افتخار فخر، سید آفتاب احمدشاہ، حکیم ربط عثمانی اور کیف عرفانی، ان ہستیوں کا تعلق اسی سرزمین سے ہے، تارڑ صاحب آج بھی بھرپور تخلیقی زندگی گزار رہے ہیں، باقی احباب تادم مرگ علم و ادب کے فروغ کے لیے کوشاں رہے، ادبی تقاریب اور مشاعروں میں ملک بھر سے اہل قلم اس شہر کو رونق بخشتے رہے، منیر نیازی، حفیظ جالندھی، قتیل شفائی، اقبال ساجد، احمد فراز، احمد ندیم قاسمی، اسلم کولسری، شہزاد احمد، افتخار عارف اور ڈاکٹر خورشید رضوی سمیت درجنوں شعرانے یہاں مشاعرے پڑھ رکھے ہیں۔ آج اگر اس شہر کی ادبی فضا اس قدر خوبصورت اور معطر ہے تو اس میں یقیناََ ان اہل قلم کا بنیادی کردار ہے جنھوں نے اپنے اپنے دور میں یہاں شاندار کام کیا۔ مجھے جب برادر ادریس قریشی، عادل چیمہ اور مرزا راشد نے حکم دیا کہ ہم منڈی بہاء الدین میں ایک ادبی میلہ منعقد کر رہے ہیں تو یقین جانیے میری خوشی کی انتہا نہیں تھی، یہاں اردو کانفرنسز کی بنیاد راقم نے رکھی اور دو شاندار کانفرنسیں کروائیں، پھرمحترم ضیغم مغیرہ نے اس روایت کو آگے بڑھایا اور دائرہ علم و ادب کے تحت دو مزید قومی کانفرنسیں کروائیں، مجلس فکرو فن اور حلقہ اربابِ ذوق کے زیر اہتمام تو آج بھی شاندار ادبی سرگرمیاں منعقد ہورہی ہیں۔
ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور صوفی سٹی کے اشتراک سے منعقد ہونے والے منڈی بہاء الدین لٹریری فیسٹیول کا بنیادی موضوع "معرکہ حق "تھا، پاک افواج نے بھارت کو منہ توڑجواب دے کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔ حکومت پاکستان نے اس برس آزادی کی تقریبات کو اس فتح سے منسوب کیا اور ملک بھر میں یوم آزادی کی تقریبات میں"معرکہ حق"کو یاد کیا جا رہا ہے۔ اس فیسٹیول میں کئی اہم سیشن تھے، تاریخ پر بات ہوئی، موسیقی پر سیشن تھا، بین االکلیاتی مقابلہ جات تھے اور سب سے آخری سیشن جو سب سے اہم تھا، وہ محفل مشاعرہ تھا۔ ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر فیصل سلیم، اسسٹنٹ کمشنر عدنان بشیر اور جی ایم صوفی سٹی برادر عثمان گجر نے ذاتی دل چسپی سے اس فیسٹیول کو اہلیان علاقہ کے لیے جیسے شاندار بنایا، وہ ناقابل فراموش ہے۔ منڈی بہاء الدین کی تاریخ میں اتنا شاندار میلہ اس سے پہلے شاید ہی کبھی ہوا ہو۔
یہاں کے اہل قلم اور صحافیوں کاایک دیرینہ مطالبہ آرٹس کونسل کے قیام کا ہے، ایک ایسا شہر جس کی علمی و ادبی تاریخ انتہائی شاندا رہے، وہاں کے قلم کاروں کے پاس ادبی تقاریب کے لیے کوئی ہال ہے نہ آڈیٹوریم، دوآبہ آرٹس کونسل کے قیام سے کم از کم یہاں کے لکھنے والوں کا ایک اہم مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ موجودہ ڈپٹی کمشنر جو انتہائی باذوق انسان ہیں، اگر اس معاملے میں اہل قلم کی مشاورت سے ایک کمیٹی تشکیل دیں اور فزیبلٹی تیار کروائیں تو ممکن ہے یہ اہم مسئلہ حل ہو جائے، اس سے قلم کار اور صحافی انھیں ہمیشہ دعائیں دیں گے۔