15 مئی انٹرنیشنل فیملی ڈے ہوتا ہے، راقم کو پاکستان ٹیلی ویژن کے مارننگ شو میں گفتگو کے لیے مدعو کیا گیا، موضوع تھا"پاکستان میں خاندانی نظام کی تباہی کی وجوہات"، موضوع جتنا شاندار تھا، اس پر بحث بھی شاندار ہوئی، پروگرام میں شریک مقررین نے موضوع کے حوالے سے مختلف پہلوئوں پر مکالمہ کیا، مشرق اور بالخصوص پاکستان میں تباہ ہوتے خاندانی نظام کو کیسے بچایا جائے اور نوجوانوں کو کس طرح بے راہ روی سے بچا کر انہیں فیملی کے ساتھ جوڑا جائے۔
زندگی کی چکا چوند میں ہم نے جس تیزی سے اپنی روایات اور اخلاقیات کو پس پشت ڈالا اور نام نہاد روشن خیالی اور ماڈرن ازم کے نام پر اپنی نسلوں کو جو نصاب پڑھایا، وہ اس معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر گیا۔ ہر طبقے، مسلک اور خاندان نے اپنے تئیں، ایسی رسموں کو پروان چڑھایا جنھوں نے معاشرے کی فرسودگی میں اضافہ کیا، وہ رسمیں جن کا ہمارے مذہب اور سماج سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، ہم نے خاندانی نظام کو ان رسموں کی بھینٹ چڑھا دیا۔
ہماری نئی نسل جسے ہم نے اپنے ساتھ جوڑنا تھا، جھوٹی رسموں اور روایات کی بدولت ہم نے اسے کود سے کوسوں دور کر دیا، آج جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری اولاد ہمارے اختیار میں نہیں یا ہمارے بچے خراب ہو گئے ہیں تو اس میں کہیں نہ کہیں ہم بھی ذمہ دار ہوتے ہیں، پہلے والدین "ڈی ٹریک" ہوتے ہیں اور پھر بچے۔
اداکارہ حمیرا اصغر کی افسوس ناک موت کے بعد یہ بحث مزید شدت اختیار کر رہی ہے کہ ہمارا خاندانی نظام اس قدر بنجر کیوں ہوا، قومی ٹی وی پر وقت کی قلت کے باعث جو باتیں نہیں کر سکا تھا، سوچا آج یہاں کر دوں کیوں کہ ان باتوں کا بہت گہرا تعلق ہماری نئی نسل سے ہے۔ آج جسے ہم جنریشن گیپ کہہ کر شو ر مچا رہے ہیں، یہ گیپ ایک دن میں پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے، وہ کہانی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
خاندانی نظام میں جہاں لوگ ایک دوسرے سے گہرے جذباتی اور خونی رشتے میں بندھے ہوتے ہیں، وہاں معاشرتی اقدار، روایات اور اخلاقیات بھی اس ڈھانچے کو طاقتور بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ ڈھانچہ اندرونی خلفشار، نظریاتی و اخلاقی اختلاف کی وجہ سے کمزور پڑ جائے تو نئی جنریشن اس سے بری طرح متاثر ہوتی ہے اور یہاں سے اس بے راہ روی کا آغاز ہوتا ہے جس کا انجام بھیانک موت ہوتی ہے یا پھر خودکشی اور نفسیاتی مسائل۔
یہ بے راہ روی جس میں انسان وقتی خوشی یا زندگی کی چکا چوند روشنی تلاش کرنے میں نکلتا ہے، ایک وقت آتا ہے اس زندگی کی انسان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ زندگی کی خوبصورتی اور رعنائی اس وقت تک درست ہوتی ہے جب تک اس سے آپ کا خاندانی نظام متاثر نہیں ہوتا اور جب آپ اپنی اولاد، خاندان، خونی رشتوں، اپنی روایات کو اپنے کیرئیر پر قربان کر دیتے ہیں تو بدلے میں آپ کو کیا حاصل ہونا ہے، اس کا فیصلہ آپ کے اختیار سے باہر ہو جاتا ہے۔
اب یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر والدین ہی اپنی اولاد کا کیرئیر اپنی جھوٹی انا، تکبر اوربغض کی بھینٹ چڑھا دیں، انھیں ایسی آگ میں جھونک دیں جن سے ان کا کوئی واسطہ ہی نہیں تو وہاں اولاد کو کیا کرنا چاہیے؟ یہ واقعی ایک تکلیف دہ صورت حال ہے جس سے نمٹنے کی فی زمانہ اشدضرورت ہے کیوں کہ مشرق اور بالخصوص پاکستان میں ایسے ہزاروں واقعات ریکارڈ ہوچکے جہاں بچے بالکل بے قصور تھے، انھیں اپنے والدین کے "کرموں" کی سزا بھگتنا پڑی، انھیں وہ دکھ بھی سہنا پڑے، جو ان کے بنتے نہیں تھے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بغاوت جنم لیتی ہے، جب نئی نسل کو یہ محسوس ہونا شروع ہو جائے کہ ہمیں تو وہ نصاب پڑھایا جا رہا ہے، جس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں تو وہ باغی ہو جاتے ہیں جنھیں ہمارے ہاں "بدتمیز"کہا جاتا ہے۔
بدتمیزی کا کہیں نہ کہیں تعلق ہمارے ان مسائل سے ہوتا ہے جو ہم نئی نسل پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے بعد ہی وہ خلا پیدا ہوتا ہے جسے پر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ خاندانی نظام کسی بھی معاشرے میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے مگر اسے مضبوط اوراسے دیرپا بنانے میں جہاں بچوں کا اہم کردار ہے، وہاں والدین کا بھی ہے اور میرے خیال سے والدین پر زیادہ بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیوں کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں، ان سے غلطیاں بھی ہوں گی اور بدتمیزیاں بھی، اگر والدین دل بڑا کریں گے تو ان غلطیوں کا ازالہ ممکن ہوگا ورنہ یہ غلطیاں والدین کے لیے درد سر بنا جاتی ہیں اور بچوں کے لیے موت کا باعث۔
ہم اپنی ناک بچانے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے، وہ ناک جو بعد از مرگ سب سے پہلے ڈی کمپوز ہوتی ہے۔ ہمارے والدین اپنی ناک پر اولاد بھی قربان کر دیتے ہیں اور خاندان کے خاندان بھی۔ ہم اپنی من گھڑت رسم و رواج کو اپنی اولاد اور خاندان پر ترجیح دیتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جب یہ سب ختم ہو جائے گا تو ہم کہاں ہوں گے؟
اداکارہ عائشہ خان اور حمیرا اصغر کی خاموش موت ہو یا کہ پروفیسر نیاز احمد، کرکٹر اور اداکارہ شیفالی کا کارڈ اریسٹ، ملتان کے نوجوان کی خودکشی ہو یا پھر فاونٹین ہائوس میں پڑے نوجوانوں کا پاگل پن، اس سب کے پیچھے ہمارے خاندانی نظام کی وہ کمزوریاں ہیں جو ہمیں آہستہ آہستہ موت کی جانب دھکیل رہی ہیں، یہ کمزوریاں ہمیں تنہا بھی کر رہی ہیں اور ہمیں درجنوں نفسیاتی بیماریوں کا شکار بھی۔
اگر اس سب کے باوجود ہمیں لگتا ہے کہ ہماری ناک بہت اہم ہے، ہمارا تکبر بہت اہم ہے، ہمارا بغض اور عداوت، ہمارے بچوں سے کہیں زیادہ ضروری ہے تو پھر ہمیں اپنا مستقبل کسی پاگل خانے میں دیکھنا چاہیے۔ ہمیں خودکشی اور تنہائی سے بچاؤ کی بیماریوں پر فوکس کرنا ہوگا، ہمیں نفسیاتی ڈاکٹرز سے بھی رجوع کر لینا چاہیے کیوں کہ وقت کا پہیہ کسی وقت بھی گھوم سکتا ہے۔