عرفان صادق کی شاعری پر بات کرنے سے قبل چند نامور اہل قلم کی آراء دیکھ لیں: بقول ڈاکٹر وزیر آغا: "بہت کم شاعر اس مقام پر پہنچتے ہیں جہاں سے وہ اشیاء کو نہیں دیکھ رہے ہوتے بلکہ اشیاء اور مظاہر اس کی آنکھیں پہن کر خود اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں"۔ بقول جیلانی کامران: "عرفان صادق استعاروں کی زبان میں گفتگو کرتا ہے، اس کی شاعری میں زندگی کے ہرے بھرے موسم ہیں، ان میں پھولوں کی رنگت بھی ہے اور پھولوں کی خوشبو بھی"۔
بقول احمد ندیم قاسمی: "عرفان صادق کے ہاں تازگی ہے، اس کی شاعری عمدہ تشبیہات، دلکش استعارات اور خوبصورت تراکیب کا حسین امتزاج ہے"۔ بقول ظفر اقبال: "عرفان صادق نے قلم پکڑنا سیکھ لیا ہے اور سچ پوچھیں تو شعر گوئی کی منزل میں سب سے مشکل مرحلہ یہی ہوتا ہے۔ عرفان صادق نے اپنی شاعری کا آغاز عین اس جگہ سے کیا ہے جہاں اب تک اردو شاعری پہنچ چکی ہے اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں"۔
بقول ڈاکٹر خورشید رضوی: "عرفان صادق کی غزل روایت سے پیوستہ ہے لیکن یہ پیوستگی فرسودگی سے عبارت نہیں بلکہ جدید احساس کی آئینہ دار ہے"۔ بقول مرتضیٰ برلاس"آخر کوئی بات تو ہوتی ہے کہ سینکڑوں ہم عمر معاصرین کے ہجوم میں کوئی آپ کی توجہ حاصل کر لیتا ہے، عرفان صادق جدید غزل کہنے والوں میں ایسا ہی ہے جس نے بہت کم عرصے میں اپنی شناخت بنائی ہے"۔
بقول ڈاکٹر خواجہ زکریا: "عرفان صادق کلاسیکی غزل سے شغف رکھنے کے باوجود کلاسیکی غزل کی بازگشت نہیں بنتا بلکہ مصرعوں کی ساخت، الفاظ و تراکیب کے انتخاب، بحروں اور زمینوں میں تجربات کی وجہ سے وہ نئی غزل کا ایک اہم نمائندہ دکھائی دیتا ہے"۔ بقول ڈاکٹر ناصر عباس نیر: "عرفان صادق کی غزل میں رائج لفظیات کو نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے کی شکل میں انفرادیت اور جدت موجود ہے"۔
قارئین! یہ چند دانش وروں کی آراء ہیں، ان کے علاوہ نذیر قیصرامجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، شہزاد احمد، اسلم کولسری ڈاکٹر ضیاء الحسن، اعزاز احمد آذر، اجمل نیازی اورعباس تابش سمیت درجنوں مستند شاعروں اور نقادوں نے عرفان صادق کے تخلیقی جہان کو سراہا، عرفان صادق کے ہاں اردو غزل جس نئے انداز اور اسلوب کے ساتھ نظر آ رہی ہے، اس کا اعتراف اردو کے تقریباًتمام اہم لکھنے والوں نے کیا۔
عرفان صادق نے کسی کی پیروی نہیں کی، نہ ہی انھوں نے مضامین میں اور نہ اسلوب بیان میں، انھوں نے استعاروں اورتشبیہات کو جس نئے رنگ میں برتا، اس کا اعتراف ادب کے ہر سنجیدہ قاری نے کیا۔ کم عمری میں شہرت کی بلندی پر پہنچے، یورپ و امریکہ سمیت دنیا کے تیس سے زائد ممالک میں سفر کیا، مشاعرے لوٹے اور اپنے فن کا لوہا منوایا، اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اپنے معاصرین میں سب سے پہلے بیرون ملک مشاعروں میں بلائے گئے۔
آپ کے شعری تلازمات اور تخلیقی جہان کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مسلسل سراہا جا رہاہے، آپ کی اردو شاعری کے ساتھ ساتھ پنجابی شاعری نے بھی علمی و ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کی، ایسے بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی شاعر دو زبانوں میں بیک وقت شعر کہہ رہا ہو اور دونوں زبانوں میں ندرت بیان موجود ہو۔ حمد و نعت ہو یا سلام و منقبت، نظم ہو یا پھر غزل، عرفان صادق کے ہاں شعری وفور اپنی انتہا کو پہنچا ہوا۔
میں نے گزشتہ ایک ہفتے میں عرفان صادق کے پانچ اردو اور ایک پنجابی شعری مجموعہ پڑھا، میں ہر صفحے پر جہانِ حیرت میں ڈوبتا چلا گیا، کیا شاندار امیجری ہے، کیا شاندار تلازمہ کاری ہے، کیا شاندار استعاراتی نظام ہے، اللہ اللہ۔ عرفان صادق کا مسئلہ یہ ہے کہ ان سے سرکار کی مدح سرائی نہیں ہوتی، یہ چاہتے تو دیگر کئی قلم کاروں کی طرح افسران بالا، بیوروکریسی اور سیاسی و ادبی اشرافیہ سے تعلق بناتے، ان کی خوشامد کرتے، ان کی شان میں قصیدے لکھتے، بیرون ملک سے آنے والے بے وزن اور غیر جنیوئن متشاعروں کے لیے دھڑا دھڑ شامیں مناتے اور یوں وہ مشاعروں کی دوڑ میں شامل رہتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا، شعر کو عبادت سمجھا اورعبادت میں بددیانتی اور شراکت داری ناقابلِ معافی جرم ہے۔
میں نے ایک دفعہ پوچھا کہ برادر آپ نے ایک عرصہ ادبی منظر نامے پر سکہ جمایا، اب آپ کی گوشہ نشینی سمجھ سے باہر ہے، آپ کی گفتگو نے مجھے دکھی کر دیا، عرفان صادق بھی درجنوں سنجیدہ شاعروں کی طرح ادبی دھڑے بندی اور مشاعروں کی آلودہ فضا سے پریشان نظر آئے، آپ نے کئی بار اس پریشانی کا ذکر کیا کہ ہمیں مل کر ادبی فضا کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، ایسے کرداروں اور نام نہاد استاد شاعروں کے خلاف باقاعدہ جہاد کی ضرورت ہے جنھوں نے پوری منصوبہ بندی سے ایسے گروہ کو ہم پر مسلط کیا جن کے پاس نہ شعر تھا اور نہ شعری تربیت، محض اس لیے ادبی فضا کو گندا کیا گیا کہ اپنا گینگ مضبوط ہو جائے، کس قدر تکلیف دہ رویہ ہے۔ آپ عرفان صادق کے شعری جہان کی قرات کریں، آپ جان کر حیران ہوں گے کہ کیسا شاندار تخلیق کار پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے مگر صد حیف ہمارے ادبی دھڑے بندی نے انھیں اس فجا سے مایوس کر دیا۔
میری خواہش تھی کہ ان کے درجنوں اشعار اور غزلیں یہاں لکھتا مگر سردست ایک غزل ملاحظہ:
کچھ نہ کچھ ہو جائے گارہتا ہے اکثر شک مجھے
چاٹتی رہتی ہے اندر سے یہی دیمک مجھے
غم زدہ کر دیتی ہے اکثر سرِ شامِ فراق
آندھیوں کی پھول کے رخسار پر دستک مجھے
کیا کہوں جانِ حیا نکلا ہوں جو تیرے بغیر
کس قدر جھلسا رہی ہے شام کی ٹھنڈک مجھے
ایسے لگتا ہے کہ بہتا ہے مری ہر سانس میں
جس طرح محسوس ہوتا ہے وہ اندر تک مجھے
اپنی تنہائی کے رنگوں کو سجانے کے لیے
کھیلنا پڑتا ہے ہر شب اک نیا ناٹک مجھے
عشق میں کیسے چراغوں کی طرح جلتا ہے دل
جو نہیں کرتا یقیں وہ دیکھ لے بے شک مجھے
میں تو آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں خوابوں کے نقوش
وہ سمجھتا ہے فقط اک درد کا گاہک مجھے