Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Aaghar Nadeem Sahar/
  3. Muhabbat Ka Daai

Muhabbat Ka Daai

ارشد اقبال نے جیسے شاندار زندگی گزاری، ایسے بہت کم لوگ گزارتے ہیں، وہ دوستوں کا دوست تھا اور بھائیوں کا بھائی، وہ دفتر میں ہوتا تو مرکزنگاہ ہوتا، وہ دفتر سے باہر ہوتا تو اس کمی ہر کوئی محسوس کرتا، اس سے رفقائے کار بھی خوش تھے اور طالب علم بھی۔ اس نے آج تک کسی سے غصے کیا اور نہ ناراض ہوا۔

اٹھائیس اکتوبر کی صبح، پونے دس بجے جب ارشد لاہور کی بے ہنگم ٹریفک کے باعث ہسپتال پہنچا تو وہاں عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا، سینکڑوں طالب علم ارشد کے لیے میو ہسپتال پہنچے، کوئی بلڈ ارینج کر رہا ہے اور کوئی وینٹی لیٹر کا، کوئی دوا کی پرچی لے کر فارمیسی دوڑ رہا ہے اور کوئی ڈاکٹرز کی منتیں کر رہا ہے، سب ارشد کو ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتے ہیں، سب ارشد کے لیے پریشان تھے، دکھی تھے، تکلیف میں تھے اور دعاگو تھے۔

میں نے اپنی آنکھوں سے درجنوں طالب علموں کو ارشد کے لیے روتے دیکھا، ارشد کے رفقائے کار کو سخت اذیت میں دیکھا، ارشد کی اپنی فیملی (بیوی، بچے، بھائی) تو پریشان تھی ہی، میں نے ارشد کی وہ فیملی بھی پریشان دیکھی جن کے ساتھ ارشد نے اچھا برتائو کیا تھا، وہ تھے ارشد کے کولیگز، ارشد کے دوست، جامعہ پنجاب کے وہ طالب علم جن کی ایک آواز پر ارشد دوڑتا چلا آتا۔ وہ ایک محبتی شخص تھا۔ اس نے جیسے لوگوں سے محبت کی، وہ فی زمانہ مفقود ہے۔ ارشد جس سمے وینٹی لیٹر پر زندگی موت کی کشمکش میں تھا، میں نے میو ہسپتال کے کوریڈور میں زمین پر بیٹھے درجنوں ایسے طالب علم دیکھے جنھوں نے ہاتھ اٹھا رکھے تھے اور ارشد کے لیے خدا سے گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہے تھے۔

دو نومبر، پھالیہ، منڈی بہاء الدین میں ہونے والی دو روزہ ادبی ورکشاپ میں شریک تھا، ناشتے کی میز پر پیارے ارشد کے انتقال کی خبر سنی تو دل تکلیف سے بھر گیا، "وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے"۔ ارشد پانچ دن وینٹی لیٹر پر زندگی وموت کی کشمکش میں مبتلا رہا، ان پانچ دنوں میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں تھاجب ارشد کے لیے میرے دل سے دعا نہ نکلی ہو، اوری اینٹل کالج سے وابستہ ہر شخص اسے اپنا فیملی ممبر سمجھتا تھا کیوں کہ ارشد سب کے کام آتا تھا، سب کے دکھ سکھ کا ساتھی۔ اس کے دل میں کینہ تھا اور نہ ہی اس کی ڈکشنری میں بغض کاکوئی لفظ، اس کے پاس محبت تھی اور وہ تمام عمر محبت نچھاور کرتا رہا۔ آج جب ارشد دنیا سے رخصت ہو چکا، یوں لگتا ہے کہ اوری اینٹل کالج اداس ہوگیا ہے، اورینٹل کالج کا شعبہ اردواور ہمارے پیارے ارشد، لازم و ملزوم لگتے تھے مگر ارشد کی وفات کے بعد "بس طے ہوا کہ لازم و ملزوم کچھ نہیں"۔

ارشد کے لیے ہرکوئی اداس ہے، ملک بھر میں پھیلے ہزاروں طالب علم، اردو کے اسکالرز، اساتذہ کرام اور محققین و دانشور، سب ارشد کے لیے دکھی ہیں، ارشد نے جیسے لوگوں سے ٹوٹ کر محبت کی، آج لوگ بھی اسے ٹوٹ کر یاد کر رہے ہیں۔ سینکڑوں طالب علموں کے بی ایس، ایم فل اورپی ایچ ڈی کے مقالات ارشد نے کمپوز کیے، کسی کو کوئی تکنیکی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ سب سے پہلے ارشد ہی کو آواز لگاتا، کسی کی ڈگری کا ایشو ہوتا تو اسے بھی ارشد ہی یاد آتا، کسی نے تحقیق و تنقید کے متعلق کوئی ذاتی کام کروانا ہوتا تو اسے بھی سب سے ارشد ہی کی ضرورت پیش آتی۔

ارشد ضرورت بھی تھا اور محبت بھی، وہ سب کا ہمراز بھی تھا، سب کا دوست ساتھی بھی، یوں لگتا ہے اب ارشد کے بعد اورینٹل کالج کا شعبہ اردو، طالب علموں کے لیے اجنبی ہو جائے گا کیوں کہ جیسے ارشد نے سب کا خیال رکھا، شاید ہی کوئی دوسرا رکھ سکے، شاید ہی کوئی دوسرا ارشد کی طرح سب کو عزت اور اہمیت دے سکے۔ ارشد بظاہر ایک سینئر کلرک تھا مگر سچ پوچھیں تو شعبہ اردو اسی کے دم سے چلتا تھا، وہ ہمہ وقت اساتذہ، طالب علموں اور دوستوں کے کاموں میں مصروف رہتا، نہ اسے چھٹی کی پروا تھی اور نہ ہی کسی معاوضے کی۔

ایک ہفتہ قبل میری اس سے بات ہوئی، میری ایک ڈاک شعبہ اردو کے دفتر پہنچی تو میں نے ارشد کو فون کیا کہ برادر یہ کتاب اپنے پاس رکھ لیں، میں کچھ دن تک وصول کر لوں گا، مجھے کہنا لگا کہ اگلے تین چار دن دفتر نہیں آئوں گا کیوں کہ گائوں جا رہا ہوں، واپسی پر ملاقات ہوگی اور پھر آخری ملاقات میو ہسپتال کے نیورو وارڈ میں ہوئی جہاں وہ وینٹی لیٹر پر خاموش پڑا، موت کو شکست دینے کی کوشش کر رہا تھامگر خدائے لم یزل کو کچھ اور ہی منظور تھا، وہ چار سے پانچ دن زندگی میں واپس لوٹنے کی کوشش کرتا رہا مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کہتے ہیں اچھے لوگوں کی ضرورت اوپر بھی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ارشد جیسے شفاف، مخلص اور عجز انکسار سے بھرے شخص کی ضرورت اوپر بھی تھی سو وہ رخصت ہوگیا اور اپنے پیچھے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو اداس کر گیا، اداسی بھی وہ کہ دل خون کے آنسو رورہا ہے، بقول کیفی اعظمی:

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

جیسے ارشد گیا ہے، ایسے بھری جوانی میں کون جاتا ہے، رئیس فروغ نے کہا تھا اچھے لوگوں میں اک برائی ہے، وہ جلدی چلے جاتے ہیں۔

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں

میں ارشد کے انتقال پر اس کے اہل خانہ، اورینٹل کالج کے اساتذہ کرام اور سٹاف کے ساتھ ساتھ ان تمام طال، ب علموں سے بھی تعزیت کرتا ہوں جو ارشد سے محبت کرتے ہیں اور جنھوں نے ارشد کو ہمیشہ فیملی ممبر سمجھا، خدا اس کے درجات بلند فرمائے، آمین۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran