Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Aaghar Nadeem Sahar/
  3. Nayab Nahi Kamyab Hain Hum

Nayab Nahi Kamyab Hain Hum

سید وقاص انجم جعفری انتہائی زیرک اور صاحب مطالعہ شخص ہیں۔ آپ الخدمت فائونڈیشن سے بطور جنرل سیکرٹری منسلک ہیں اور الخدمت کے فلاحی کاموں سے کون واقف نہیں۔ اس عظیم ترین فلاحی تنظیم کا نیٹ ورک پاکستان سمیت دنیا کے درجنوں ممالک میں پھیلا ہوا ہے، جب بھی امت مسلمہ پر کڑا وقت آیا، الخدمت فائونڈیشن نے ہاتھ بڑھایا اور اپنے مسلمان بھائیوں کا سہارا بنی۔

میری وقاص جعفری سے پہلی ملاقات بھی الخدمت فائونڈیشن کے کسی پروگرام میں ہوئی اور پھر یہ سرسری ملاقات کب گہری دوستی میں بدل گئی، معلوم ہی نہیں ہو سکا۔ میں تو اس دوستی کاسارا کریڈٹ وقاص بھائی کو ہی دیتا ہوں جو مجھے ہمیشہ اس حترام اور محبت سے ملے کہ مجھے وصی شاہ کا یہ مصرع یاد آتا ہے: "اس قدر ٹوٹ کے چاہو، مجھے پاگل کر دو"۔ اب یہاں چاہنا سے مراد ان کی طرف سے ملنے والی وہ عزت اور خلوص ہے جو فی زمانہ مفقود ہو چکا۔ وقاص بھائی کی گفتگو یا پھر علمی و ادبی مکالمہ اپنی جگہ اہم سہی مگر مجھے ان کے قہقہوں نے ہمیشہ متاثر کیا، میں جب بھی آپ کو یاد کرتا ہوں، میرے دماغ میں سب سے پہلے ان کا قہقہ اور خلوص بھری مسکراہٹ دستک دیتی ہے۔

ان کی تازہ کتاب"جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ"شائع ہوئی تو سب سے زیادہ خوشی مجھے ہوئی، اس خوشی کی وجہ وہ منتشر تحریریں تھی جو میں ایک عرصے سے مختلف پلیٹ فارم پہ پڑھتا آ رہا تھا مگر دل میں ایک خواہش تھی کہ کاش یہ تحاریریکجا ہو جائیں اور ہر باذوق قاری تک پہنچ جائیں، اللہ بھلا کرے بک کارنر والوں کا جنھوں نے یہ شاندار خاکے ہم تک پہنچا دیے۔ بقول وقاص انجم جعفری:

دل میں لیے ہوں یادِ رفیقانِ رفتگاں
بس رہ گیا ہے یہ سروسامانِ زندگی

وہ لوگ جن سے بزم سخن تھی سجی ہوئی
حاصل تھا جن کی ذات سے عرفانِ زندگی

یہ اشعار بنیادی طورپر اس کتاب کا تعارف ہیں جس پر گفتگو کی جسارت کر رہا ہوں، اس کتاب میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، حسن صہیب مراد، امجد اسلام امجد اور شاہد حمید سمیت دو درجن شخصیات کے خاکے موجود ہیں، یہ خاکے انتہائی علمی نوعیت کے ہیں کیوں کہ اس میں موجود شخصیات کی صرف ذاتی و جماعتی زندگی ہی ڈسکس نہیں کی گئی بلکہ ان کے علمی و ادبی کام کا بھی محاکمہ پیش کیا گیاہے۔ ان خاکوں کے توسط سے ہمارے سامنے ان شخصیات کا وہ روپ بھی کھل کر سامنے آتا ہے، جو اس سے قبل ہم تک نہیں پہنچا تھا۔

کتاب میں موجود سب سے پہلے خاکے کو ہی لے لیں، مجھے خاکہ نگار کی اس بات سے سو فیصد اتفاق ہے کہ ہم ایک پولارائزڈ معاشرے میں رہنے والے لوگ ہیں، ہم جس شدت پسندی اور تقسیم کی صورت حال سے دو چار ہیں ہمارے اندر سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے، یہ لوگ ہر اس بات اور رائے پر شدت سے قائم ہیں، جس کے بارے یہ مکمل طور پر لاعلم ہیں یعنی اگر آپ بنے بنائے سانچے کو محض اس لیے نہیں توڑنا چاہتے کہ کہیں آپ کی انا مجروح نہ ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ انتہائی سطحی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں بقول خاکہ نگار کم از کم ایک مرتبہ مودودیؒ کے کام کو سمجھنے اور معاشرے پر اس کے اطلاق کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے کردار پر سیر حاصل گفتگو، جو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے معماروں میں شمار ہوتا ہے، انتہائی حیران کن اور دعوت فکر دینے والی ہے۔

قاضی حسین احمدؒ ہوں یا پھر سید منور حسن، یہ دونوں شخصیات جماعت اسلامی میں اللہ کا خاص انعام تھیں، ان کے خطبات، ان کی باتیں اور ان کے مکالمے اس قدر جاندار اور علمی ہوتے کہ محفل میں بیٹھے لوگ وجد میں آجاتے، ان سے مصافحہ کرنے والے گھنٹوں اپنے ہاتھوں میں خوشبو محسوس کرتے رہتے، ایسے کردار شاید ہی دوبارہ جنم لیں، وقاص بھائی نے ان دونوں نابغوں کے خاکے جس احسن انداز میں لکھے، میں پڑھتے ہوئے فخر محسو س کر رہا تھا۔ سید منور حسن سے عشق کرنے والوں کا جذبہ میں نے ایک مرتبہ منڈی بہاء الدین کے ایک جلسے میں دیکھا تھا، سید صاحب اسٹیج سے اترنے لگے تو اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تاکہ اپنے کارکنان کا ہاتھ تھام کر نیچے اتر سکیں، اس دن میں نے اس شعر کی تعبیر خود دیکھی:

اس نے کہا عدیمؔ میرا ہاتھ تھامنا!
چاروں طرف سے ہاتھ نمودار ہو گئے

کتاب میں جس خوبصورتی سے ڈاکٹر حسن صہیب مراد، سید احسان اللہ شاہ اور احباب جمعیت کا خاکہ کھینچا گیا ہے، ہمارے ہاں تعلیمی اداروں نے خیر کا مقصد پس پشت ڈال کر پیسے اور سرمائے کو سامنے رکھ لیا ہے، ایسے میں حسن صہیب مراد بالکل مختلف سوچتے تھے، میری ان سے صرف ایک ملاقات تھی اور یہ ملاقات اتنی شاندار اور جاندار تھی کہ میں ان کی باتوں کی خوشبو آج بھی محسوس کر سکتا ہوں۔ وقاص بھائی نے جس خوبصورتی سے ان کی تصویر بنائی ہے، واقعی حیران کن ہے۔ اس کتاب کی سب سے خوبصورت تحریر اپنی ماں کے حوالے سے ہے، مائوں پر لکھی جانے والی تحاریر ویسے بھی عشق اور محبت کے جذبوں سے لبریز ہوتی ہیں مگر جب لکھنے والاماں سے انتہا کا عشق کرتا ہو، سوچیں اس کا اندازِ بیاں اور اسلوب کیسا ہوگا؟

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran