Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Aaghar Nadeem Sahar/
  3. Phir Chala Musafir, Afghanistan Ke Panch Safar

Phir Chala Musafir, Afghanistan Ke Panch Safar

افغانستان ہمیشہ سے برصغیر کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ایک طاقتورملک رہا ہے، اس کی زبان، تہذیب وثقافت، مذہب اور تجارت نے پورے خطے پر انتہائی اہم اثرات مرتب کیے، تین بڑی طاقتوں سے مقابلہ کرنا اور پھر انھیں شکست سے دوچار کرنا کوئی معمولی بات نہیں، افغانستان نے یہ کیا۔ 1914ء میں برطانوی سامراج نے انھیں اپنی کالونی بنانے کی کوشش کی، افغانی بہادروں نے بھرپور مزاحمت کی اور برطانوی خواب چکنا چور کر دیا، 1979ء میں روسی افواج نے مسلسل دس سال کوشش کی مگر انھیں بھی منہ کی کھانا پڑی، نائن الیون کے بعد امریکہ نے نیٹو فورسز کے ذریعے افغانستان پر چڑھائی کی، جنرل مشرف نے پاکستان سے اڈے فراہم کیے، امریکہ اپنے حمایتی گروپوں کی مدد سے بیس سال تک یہ جنگ لڑتا رہا، اس نے اپنے لاکھوں فوجی مروائے، اربوں ڈالر کا نقصان کیا اور بیس سال بعد یہ طاقتیں بھی ذلیل و خوار ہو کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئیں۔

یہ ہے افغانستان کی تاریخ، ایسے ملک کا سفر کرنا یا کتابی صورت میں اس بہادر قوم کا سفر نامہ پڑھنا، میرے لیے کسی بھی اعزاز سے کم نہیں تھا۔ الخدمت کے رضاکاروں نے جب ڈاکٹر مشتاق مانگٹ کے سفرنامہ افغانستان"پھر چلا مسافر"کی تقریب رونمائی میں دعوت دی اور گفتگو کرنے کا حکم دیا تو میں نے اسی لیے یہ دعوت خوشی سے قبول کی کہ اس تقریب کے بہانے مجھے ایک بہادر قوم کی تاریخ پڑھنے کا موقع مل جائے گا۔

یہ کتاب ان پانچ اسفار پر مشتمل ہے جو ڈاکٹر مشتاق مانگٹ نے مختلف اوقات میں افغانستان کے کیے، انھوں نے اپنے گہرے مشاہدے، تجربات اور مطالعے کی بدولت سفرنامے کی بجائے ایک مکمل تاریخی کتاب بنا دیا ہے، جس عمیق نظری سے انھوں نے افغانستان کے باشندوں، ان کی بودوباش اور ان کی تہذیب و ثقافت کو دیکھا، اس سے قبل ایسے مشاہدات بہت کم دیکھنے میں آئے۔

پاکستان نے ایک طویل عرصہ اس ملک سے تعلقات محض اس لیے مضبوط نہیں کیے کہ ہمارا "دوست"امریکہ ناراض نہ ہو جائے۔ آج بھی افغانستان کے باشندوں اور حکومت کو پاکستان سے بہت سے تحفظات ہیں، یہی صورت ایران کی ہے، پاکستان اگر چاہتا تو ان دونوں اسلامی ممالک سے بہت اچھے تعلقات قائم کرتا اور یہ ایک مضبوط بلاک سمجھا جاتا۔ ہم نے امریکہ کی خوش نودی کے لیے کتنے ہی دوست ممالک کو خود سے دور کر دیا۔

آپ ایران کی مثال لے لیں، تیل اور گیس کے ذخائر جن ممالک کے پاس سب سے زیادہ ہیں، ان میں ایک ایران ہے۔ مختلف حکومتوں نے ایران سے سستی گیس خریدنے کے کئی منصوبوں پر بات چیت کی، یہ منصوبے آج تک پورے نہیں ہو سکے، اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ اس منصوبے پر امریکہ اور سعودی عرب کو تحفظات تھے اور ان تحفظات کی خاطر ہم نے اپنی قوم کو مہنگائی کے طوفان میں لا کھڑا کیا۔ بے نظیر بھٹو نے 1995ء میں ایران سے سستی گیس کے ایک منصوبے پر بات آگے بڑھائی، 2008ء میں اسی منصوبے کے آگے بڑھانے کے لیے آصف علی ذرداری اور یوسف رضا گیلانی کی کوششیں کیں۔

آصف زرداری نے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے بھی سفارت کاری کی، چین کی حکومت نے بھی سعودی عرب سے بیک ڈور ڈپلومیسی کی، اس کے بعد ایران اور سعودی عرب کے حالات بہتر ہوئے۔ ایران گیس لائن معاہدہ آج تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا، ہم نے امریکہ کی خوشنودی کی وجہ سے بہت بڑی قربانی دی، اس قربانی سے ہمیں کیا حاصل ہوا، شاید کچھ بھی نہیں۔ آج اسرائیل اور ایران آمنے سامنے ہیں، پاکستان اور بھارت کا مسئلہ سیز فائر کے بعد ابھی تک حل طلب ہے، شام پر بھی سرائیلی غنڈہ گردی عروج پر ہے سو ایسے میں ہمارا سب سے "مخلص دوست"امریکہ کہاں کھڑا ہے، یہ فیصلہ کرنا ہوگا۔

میں واپس افغانستان کی طرف آتا ہوں، بھٹو دورِ حکومت میں افغانستان اور پاکستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے، دونوں ممالک کا میڈیا ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف رہا، وزیر اعظم ذولفقار رعلی بھٹو، آرمی چیف جنرل ٹکا خان اور گورنر سرحد جنرل نصیر اللہ بابرنے افغان ڈور پالیسی بنائی۔ بھٹونے چترال سے جنوبی وزیر ستان تک سرحدی علاقے کا دورہ کیا اور عام جلسوں میں سردار دائود اور عبد الولی خان کو گالی دیتے رہے۔ بھٹو کا دور حکومت بھی بہت تفصیل سے اس کتاب میں ڈسکس کیا گیا ہے۔

مجھے اس سفرنامے کے ذریعے افغانستان کے باشندوں کی بہادری کی داستانیں پڑھ رہا تھا، وہ افغانستان جہاں جنگ و جدل، جارحیت اور تباہی و بربادی کبھی ختم نہیں ہوئی، وہ کبھی برطانیہ سے برسرپیکار رہا تو کبھی روس اور امریکہ سے، اس نے کبھی بھی اپنے نظریات پر سمجھوتا نہیں کیا، وہ اپنی جنگ خود لڑتے رہے، وہ خود ہی گر کر سنبھلتے رہے مگر کبھی بھیک میں فتح نہیں مانگی۔ اس کتاب کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے تین ادوار میں افغانستان کی جغرافیائی صورت کے ساتھ ساتھ غزنی، نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی اوربرطانوی سامرج کی جارحیت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے، چوتھا دور اہم ہے کیوں کہ اس میں انقلابِ ثور اور کیمنسٹوں کے دور سے ملا ہیبت اللہ اور پھر ببرک کامل کی جبرل جلاوطنی پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔

افغانستان پر سوویت یونین کا حملہ اور اس کا پس منظر بھی اسی دور میں بیان ہوا ہے، امریکی امداد، افغان جہاد اور اسامہ بن لادن جیسے اہم موضوع بھی اسی باب کا حصہ ہیں۔ افغان جہاد میں جماعت اسلامی کا کردار بہت اہم رہا ہے، اس پر تنقید بھی ہوئی مگر جماعت نے جہاد میں انتہائی ذمہ داری سے اپنا کردار ادا کیا۔ مصنف نے جماعت اسلامی کی ان کوششوں کو بہت وضاحت سے بیان کیا ہے اور افغان جہاد کے بارے عوامی تحفظات کو دور کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کتاب پر کسی بھی طرح کا جانبداری کا الزام نہیں لگایا جا سکتا، انتہائی معتدل انداز میں پوری تحقیق کے بعد اس کتاب کو مکمل کیا گیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ کے طالب علموں کو ایک مرتبہ اس کتاب کا لازمی مطالعہ کرنا چاہیے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran