Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Aaghar Nadeem Sahar/
  3. Shayar, Performer Aur Mazah

Shayar, Performer Aur Mazah

مشاعروں کی بگڑتی صورت حال اور سینئرز شاعروں کے تشویش ناک رویے پر لکھے گئے پچھلے کالم"مشاعرے" کو سنجیدہ ادبی حلقوں میں غیر معمولی پذیرائی ملی، کالم پر گفتگو کرنے والوں نے مشاعروں کی تباہی کا ذمہ دار ان شاعروں کو بھی ٹھہرایا جن کی شاعری سوزوگداز، شعریت اور تشبیہات و استعارات سے تو مکمل عاری ہوتی ہے مگر وہ داد ہتھیانے کے لیے مشاعرے میں کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔

پھیکی شاعری ہونے کے باعث اداکاری اور گلوکاری پر اتر آتے ہیں اور اگران دو ہتھیاروں سے بھی کام نہ چلے توبھرے پنڈال میں لغو جملوں، مصرعوں اور حرکتوں سے عوام کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے چند مزاح نگاروں نے مزاحیہ شاعری کے نام پر مشاعروں کو جس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے، کیا کوئی شریف آدمی ان مزاح لکھنے والوں کو سمجھائے گا کہ مزاح وہ ہے جس میں انور مسعود آج بھی سرفہرست ہیں، ان کے بعد اس شعبے میں اس قدر بحران ہے کہ ہمارے دوست مزاح لکھتے وقت بیوی کی محبت سے باہر نکل ہی نہیں سکے اور بیوی کے لیے بھی بعض شاعروں نے تواس قدر غیر مہذب مصرعے اور شعر کہے ہیں کہ اللہ اللہ۔

ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے، لاہور کی ایک بڑی خواتین یونیورسٹی میں ہونے والے ایک مشاعرے کی روداد سنی، ایک مزاحیہ شاعر کے مصرعوں پر یونیورسٹی کی طالبات کر تبصرہ کرتے سنے تو دل ڈوب سا گیا، ہمارے شاعر نوجوانوں کو شاعری سے دور کر رہے ہیں یا نزدیک، اگر نوجوان طالبات کے سامنے ہم مشاعروں میں لغو گفتگو، بے ڈھنگے جملے اور پھیکے شعر سنائیں گے، اداکاری کے ساتھ آنکھوں سے بھی مصرعے پھینکنے کی کوشش کریں گے تو آپ خود سوچیں مشاعرے کی تہذیب کہاں جائے گی۔

میں مزاح کے خلاف ہوں نہ مشاعروں میں اداکاری کے، میرا تواختلاف یہ ہے کہ بڑی سطح پر ہونے والے مشاعرے فیملی ایونٹ ہوتے ہیں، وہاں شعر سے محبت کرنے والے اس لیے اکٹھے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو بتا سکیں کہ اردو خوشبودار زبان ہے اور شعر میں ہمیں سہولت ہوتی ہے کہ ہم تلخ بات بھی نہایت عمدہ پیرائے میں کر سکتے ہیں مگر یہاں تو صورت حال ہی مختلف ہے۔

مجھے ایک دوست کہنے لگے کہ ہندوستان کے ایک مشاعرے میں کسی مزاح نگار نے انتہائی لغو انداز میں مشاعرے میں پرفارم کرنے کی کوشش کی، سامنے بیٹھی مہذب اور شعر شناس فیملیز نے احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے مشاعرے سے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا، ایسے میں صاحب صدر کو بھی خیال آیا اور انھوں نے اداکاری کے جوہر دکھانے والے شاعر کو "لگام"ڈالی۔ مجھے یہ واقعہ سن کر خوشی ہوئی اور میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ شاید پاکستان میں بھی ایسی کوئی مثال موجود ہو جہاں سامعین نے شاعر کی طرف سے شاعری کی بے توقیری پر احتجاج کیا ہو، افسوس مجھے ایسا کوئی واقعہ نہیں ملا۔

میں پاکستان میں مشاعروں کی پژمردہ فضا سے دکھی ہوں مگر دکھی ہونے کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ میں مایوس ہوں، پاکستان میں اب بھی ایسے لوگ اور قلم کار موجود ہیں جو مشاعروں کی تباہی کو دیکھ کر متفکر ہیں، وہ اسے ٹھیک کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں، مشاعروں کے منتظمین کو چند کرداروں نے ہائی جیک کر رکھا ہے، کہیں سپانسرکا لالچ اور کہیں فہرست سازی کا مسئلہ۔

سرکاری و نجی جامعات میں ہونے والے مشاعروں کی فہرست وہ لوگ بناتے ہیں، جن کا جامعات اور تعلیم سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں، وہ محض اس لیے فہرست سازی میں پیش پیش ہوتے ہیں تاکہ اپنے "کسٹمرز"بناسکیں۔ یہی وہ فیکٹری سے جہاں سے متشاعروں اور متشاعرات کی ایک بڑی کھیپ تیار ہو رہی ہے، یہ کھیپ ادبی ماحول کے لیے موذی کینسر جیسی ہے، کسی بھی متشاعر کا نام مشاعرے میں اس لیے شامل کروانا کہ وہ اپنی یونیورسٹی میں ہونے والے مشاعرے میں میرا نام شامل کروائے گا، انتہائی بددیانتی اور ظلم ہے۔

مشاعروں کی ثقافت اور ماحول کو آلودہ کرنے میں جامعات کے سربراہان اور مشاعروں کے منتظمین کا بھی اتنا ہی کردار ہے، جتنا متشاعروں اور پرفارمرز کو لانچ کرنے والوں کا ہے، جب میزبان جانتے ہیں کہ فلاں شاعرجامعاتی نہیں بلکہ"جام آتی"ہے تو اسے مشاعروں میں مدعو ہی کیوں کیا جاتا ہے۔ ابھی سال پہلے کی بات ہے، پاکستان سے ایک مشہور نوجوان شاعر بیرونِ ملک میں مشاعرے پڑھنے گئے، موصوف جام لگاتے ہوئے بھول گئے کہ وہ پبلک میں بیٹھے ہیں، جب مشاعرہ پڑھنے مائیک پر آئے تو زبان بھی لڑکھڑا گئی اور دماغ بھی، شاعر صاحب کی اس حالت غیر پر سامعین کی طرف سے شدید رد عمل نے منتظمین کو شدید پریشان کر دیا۔

ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے ہاں بھی پیش آیا تھا، ایک شاعر جو شاعر کم اور پرفامر زیادہ ہیں، نے ایک مشاعرے میں انتہائی دھڑلے سے سامنے بیٹھی خواتین کے نام ایسا شعر کر دیا، جس کے بعد حال میں سکتہ طاری ہوگیا، سامعین کی طرف سے غم و غصے کے بعد یونیورسٹی کا سربراہ مائیک پر آیا اور سامعین کو تسلیاں دینے لگا کہ شاعر کا مقصد غلط نہیں تھا، حیرت کی بات یہ ہے کہ اگلے برس وہی شاعر، اسی یونیورسٹی میں دوبارہ مدعو تھا۔ اسی لیے میں نے عرض کی کہ منتظمین مشاعرہ بار بار انھیں لوگوں سے کیوں ڈستے ہیں، جب جانتے ہیں کہ پرفارمر اور متشاعر نے مشاعرے کے ماحول کو ہمیشہ تباہ کیا، تو اس روایت کو تبدیل کیوں نہیں کیا جاتا۔

اگر آپ کے پاس اچھا شعر ہے اور آپ پرفارم کرتے ہیں، کچھ سمجھ آتی ہے، انتہائی پھیکی، غیر مہذب اور شعریت سے خالی شاعری پر پرفام کرنا اور انتہائی ڈھٹائی سے سامعین سے داد ہتھیانا، کہاں کا انصاف ہے؟ مزاح لکھنے والے یا مشاعروں میں اداکاری و گلوکاری کے جوہر دکھانے والوں سے گزارش ہے کہ لازمی نہیں تالیاں بجانے والے سامعین کو آپ کا شعر پسند بھی آیاہو، بعض تالیاں احتجاجاً بھی بجائی جاتی ہیں تاکہ آپ ہوش کے ناخن لیں اور اسٹیج سے باعزت و باحفاظت نیچے اتر جائیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran