Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Aaghar Nadeem Sahar/
  3. Taleem Ka Muqadma

Taleem Ka Muqadma

کالم نگاری کی ڈیڑھ دہائی میں جس موضوع پر سب سے زیادہ آواز اٹھائی، وہ استاد کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں اور ظلم و زیادتی ہے، ہر سال یوم اساتذہ پر درجنوں تقاریب ہوتی ہیں، سیمینارز اور میڈیا ٹاک میں استاد کی عزت و احترام پر مکالمہ ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا اساتذہ کی تصاویر سے بھر جاتا ہے مگر اس سب کے باوجوداستاد ایک سستا ترین مزدور بن کر رہ گیا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کا دکھ اپنی جگہ، سرکاری اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ کی زبوں حالی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گورنمنٹ باقی اداروں اور ان پر مسلط اشرافیہ سے کبھی نالاں نظر نہیں آئی، اسے شکوہ ہمیشہ تعلیمی اداروں اور اساتذہ سے رہا اور یہاں سے ہی تعلیمی اداروں کو ٹھیکے پر دینے کا کلچر شروع ہوا۔

سرکاری سکولوں کو اس لیے آوٹ سورس کر دینا کہ یہ ٹھیک سے کام نہیں کر رہے، میری سمجھ سے باہر ہے، مجھے یہ ایک انتہائی بھونڈا جواز لگتا ہے اور اگر ہم کچھ دیر کے لیے مان بھی لیں کہ سرکاری تعلیمی اداروں پر عوام کا اعتماد نہیں رہا اور یہ ادارے ٹھیک سے کام نہیں کر رہے تودیگر درجنوں ملکی اداروں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا وہ ٹھیک سے کام کر رہے ہیں یاپھر ان پرعوام کا اعتمادباقی ہے؟

سرکاری سکولوں کا بوجھ سرکار سے اٹھ نہیں رہا تو ان اداروں کے بارے سرکار کا کیا خیال ہے جہاں کام کرنے والے ملازمین، افسران اور اشرافیہ کی تنخواہیں، مراعات اور شہ خرچیاں ہوش ربا ہیں، کیا وہ ادارے اور لوگ سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں؟ اگر سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ اس لیے دیا جانا ضروری ہے کہ ہم انھیں بہتر طور پر چلا سکیں اور اس میں جدت لا سکیں تو کیا باقی ادارے جدت کے متقاضی نہیں ہیں؟ سرکار کا نزلہ صرف تعلیمی اداروں پر ہی کیوں گرتا ہے؟

آپ معزز عدلیہ، الیکن کمیشن، واپڈا، نادرا اور تھانہ کلچر کا جائزہ لے لیں اور ایمان داری سے بتائیں کیا ان اداروں پر عوام اعتماد کر رہی ہے؟ کیا ان اداروں میں جدت اور بہتری کی ضرورت نہیں؟ کیا ان اداروں میں بیٹھے افسران کی تربیت کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے؟ کیا ان اداروں کی کریڈبلٹی پر سوالیہ نشان نہیں؟ اور اگر یہ سب کچھ ہے تو پھر صرف تعلیمی ادارے ہی آوٹ سورس کیوں؟ صرف اساتذہ کی پنشن ریٹائرمنٹ اور دیگر مراعات پر ہی سوال کیوں؟

آپ معزز عدلیہ کو ہی لے لیں، کیا یہ سو فیصد ٹھیک کام کر رہی ہیں؟ کیا عدلیہ کی جانب سے دیے جانے والے فیصلوں پر کبھی تنقید نہیں ہوئی؟ ، کیا چیف جسٹس صاحبان پر جانبداری کے الزام نہیں لگتے رہے؟ ، اگرہم نہ عدلیہ کو بند نہیں کیا، ججز کی مراعات میں کٹوتی نہیں کی تو پھر صرف تعلیمی ادارے ہی کیوں؟ اگر دیگر ادارے سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں تو صرف سکولوں کو بوجھ سمجھنا، اساتذہ کی تنخواہوں میں کٹ لگانا، ان شرائط سے انکار کر دینا جس بنیاد پر ان کی بھرتیاں ہوئی تھیں، یہ ظلم کے سوا کچھ نہیں اور اس ظلم کا ازالہ سرکار کوکرنا چاہیے۔

حیف صد حیف! ایک طرف ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونا چاہتے ہیں اور دوسری جانب تعلیم اور اس سے وابستہ افراد سے نفرت کرتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ باقی تمام سرکاری اداروں میں تنخواہیں بڑھتی ہیں، وہاں کام کرنے والے ملازمین اور بالخصوص اشرافیہ کی مراعات میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ قوم کو تعلیم یافتہ بنانے والے افراد کی مراعات کم کی جا رہی ہیں اور رونا یہ رویا جاتا ہے کہ ملک خسارے میں ہے، اگر ملک خسارے میں ہے تو ایوانوں میں بیٹھے عوامی امنگوں کی جگالی کرنے والوں کی تنخواہیں راتوں رات کس اصول کے تحت پانچ سو گنا تک بڑھائی گئیں؟

پانچ اکتوبر، عالمی یوم اساتذہ پر جب سوشل میڈٖیا اساتذہ کی تصاویر سے بھرا ہوا تھا، مجھے اس شعبے کی نج کاری اور اساتذہ کی تنخواہوں میں کٹوتی کا دکھ ستاتا رہا، میں خود بھی ایک استاد ہوں، میں نے زندگی کا ایک طویل حصہ اس شعبے کو دیا مگر جب میں اپنے ہی شعبے کی زبوں حالی اور نج کاری دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے، دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ اگر کوئی شعبہ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تو سرکار اسے قبولنے سے انکار کر دے، سرکاری کا تو بنیادی کام ہی یہ ہے کہ اداروں کی گڈ گورننس کے حوالے سے پالیسی سازی کرے، ان اداروں کو ٹریک پر لانے کے لیے دن رات محنت کرے جو ادارے سست روی کا شکار ہیں مگر یہاں تومعاملہ ہی الٹ ہے، جو ادارہ ٹھیک سے کام نہیں کرتا، اس کی نج کاری کر دی جاتی ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ سرکار کو اپنی ہی صلاحیتوں پر یقین نہیں ہے، اپنے ہی بھرتی کیے گئے افراد کی قابلیت پر بھروسہ نہیں ہے لہٰذا ادارے پرائیویٹ کرنا شروع کر دیے۔

مجھے اس سے قطعاً انکار نہیں کہ شعبہ تعلیم میں جدید اصلاحات کی ضرورت ہے، اسے دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے، اساتذہ کی ٹریننگ اور ان کے لیے جدید روڈ میپ بنانے کی ضرورت ہے مگر اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ اداروں اور افراد کی تربیت کی بجائے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیں۔ پی آئی اے کے ساتھ ہم نے یہی کچھ کیا، ہمارے سابق وزیر اعظم اگر پرائیویٹ ایئر لائن بنا کر کامیاب کر سکتے ہیں تو پی آئی اے پر کیوں نہیں محنت کر سکتے؟ ہمارے کئی سیاست دانوں نے پرائیوٹ تعلیمی ادارے بنائے اور کامیاب چلائے مگر وہ جب سرکار میں تھے، اس وقت سرکاری تعلیمی اداروں پر محنت کیوں نہیں کی؟

سرکاری اداروں کی مجموعی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے لہٰذا سرکاری اداروں کو بند کرنا یا ان کی نج کاری کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے، حل یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں بھرتیاں شفاف بنائی جائیں، ریٹائرڈ افسران کو ہی بار بار نوازنے کی بجائے نوجوانوں پر بھروسہ کیا جائے، ہمارے پاس سینکڑوں نہیں ہزاروں پی ایچ ڈیز ہیں، لاکھوں ایم فل بے روزگار ہیں، کروڑوں ایم اے سسٹم سے مایوس ہو چکے ہیں، انھیں موقع دیں، انھیں ملکی اداروں میں لائیں، ان کے جدید ویژن کو استعمال کریں تاکہ آپ دنیا کو جدید آنکھ سے دیکھ سکیں، نج کاری یا من پسند افراد کو بند بانٹ مسئلے کا حل نہیں ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran