بالآخر ہمشیر مرشد کی مرشد سے ملاقات ہوگئی۔ پی ٹی آئی نے کہا ہے وہ اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوگئی، اسے بڑی فتح ملی ہے کہ ایک مہینہ ملاقاتوں پر لگی پابندی ختم ہوگئی۔ اتنی بڑی فتح پر پارٹی کو مبارکباد ہو۔ ایسے میں زیادہ سیانوں کا مشورہ یاد آیا۔ کم سیانوں کا مشورہ ہوتا ہے کہ کامیابی کیلئے ہدف بڑا رکھنا چاہئے۔ کم سیانوں کا یہ مشورہ تجربے کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔ زیادہ سیانے زیادہ ٹھیک مشورہ دیتے ہیں کہ ہدف چھوٹا رکھنا چاہئے۔ وہ بھی پورا نہ ہو تو مزید چھوٹا کر دینا چاہئے اور پھر ہدف کو چھوٹا رکھنے کا عمل مسلسل جاری رکھنا چاہئے، کہ یقینی کامیابی حاصل ہو۔
زیادہ سیانوں کے مشورے پر ایک پہلے سے سیانی لومڑی نے عمل کیا اور کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ یہ سیانی لومڑی صبح دم جب سورج افق پر نمودار ہوا، بھٹ سے باہر آئی۔ اس نے اپنا لمبا، بہت ہی لمبا سایہ دیکھا تو کہا، اف میں کتنی بھوکی ہوں۔ اونٹ مار کے کھاں گی بہت بھوک مٹے گی۔ اونٹ کی تلاش میں چلی، دو گھنٹے تک چلتی رہی، سائے پر نظر پڑی تو بولی میرا خیال ہے اُونٹ مارنے کی ضرورت نہیں، ایک گائے یا بیل سے بھی کام چل جائے گا۔ چلتی رہی، دوپہر کو سایہ مزید سکڑ گیا۔ سائے کو دیکھا اور کہا کہ گائے بیل کی کیا ضرورت، میرا خیال ہے ایک خرگوش ہی کافی رہے گا۔
مرشداتی جماعت نے بھی سیانی لومڑی کی طرح اپنا ہدف چھوٹا کرتے رہنے کی روش پکڑی۔ ہدف تھا حقیقی آزادی، مرشد کو پھر سے وزیر اعظم بنانا اور کسی کو نہ چھوڑنا۔
ہدف چھوٹا ہوا اور طے پایا کہ حقیقی آزادی کو چھوڑو، مرشد کی گرفتاری روکو، مرشد کی گرفتاری روکنے کیلئے کئی دنوں تک زمان پارک میں معرکے بپا ہوتے رہے آخر مرشد پکڑے گئے۔ پھر ہدف تبدیل ہوا، یہ کہ مرشد کو چھڑایا جائے۔ پھر ہدف کا از سر نو تعین ہوا کہ مرشد کو جیل میں دیسی بکرے، مرغے ملتے رہنے چاہئیں، سوا دو سال بعد ہدف پھر بدلا اور وہ یہ کہ مرشد کی ملاقاتیں کُھلوائی جائیں۔ چنانچہ یقینی کامیابی ملی، ملاقات ہوگئی، اب مرشداتی پارٹی جشن فتح منا رہی ہے۔
دوسرے اہداف بھی بدلے۔ مثلاً ایک بڑا ہدف کسی کو نہیں چھوڑوں گا جسے بدل کر مجھے چھوڑ دو یا مجھے چھڑوا کر دیا گیا ہے۔
***
ہاں، یاد آیا۔ ایک معدنیاتی خواب لاک ڈان پاکستان کا تھا۔ اس پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی۔ کامیابی کا تناسب صفر فیصد نکلا۔ پھر اس ہدف کو التوا کے طاقچے میں رکھ دیا گیا۔ اب اتنے برسوں کے بعد یہ بھولا بسرا ہدف پھر سے نکالا گیا ہے، جھاڑ پونچھ کے بعد اسے بھی سمارٹ شکل دی گئی ہے اور اب اس کا نام ہے لاک ڈان کے پی۔
ابھی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا لیکن اعلان ہوتے ہی کے پی سے پنجاب اور بلوچستان آنے والے تمام راستے بند کر دیئے جائیں گے۔ یعنی کے پی کے کی ناکہ بندی کر دی جائے گی۔ سارا گھاٹا کے پی کو ہوگا، ساری مصیبت کے پی کے پہلے ہی سے مصیبت زدہ عوام پر آئے گی لیکن ہدف تو پھر ہدف ہے۔ اس ہدف سے اس دیہاتی نوجوان کا ہدف یاد آیا جو تھانیدار بننا چاہتا تھا۔ اس نے اپنا ہدف تھانیدار بننے سے پہلے ہی طے کر لیا تھا اور ماں کو بتا بھی دیا تھا۔ اس نے ماں سے کہا تھا، ماں، ماں، میں تھانیدار بنتے ہی سب سے پہلے تمہارا بھرکس نکالوں گا۔
***
پنجاب میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر تاریخی کریک ڈان جاری ہے۔ ایک روز پہلے لاہور میں انوکھے مناظر دیکھے گئے۔ سکول جانے والے بچے، جائے محنت پر جانے والے محنت کش سینکڑوں ہزاروں کے حساب سے ہتھکڑیاں لگا کر جیلوں میں ڈال دیئے گئے۔ جیل خانے بھر گئے۔ ایف آئی آرز کٹیں، چھ چھ ماہ قید کی خوشخبریاں سنائی گئیں۔
جرمانوں کی رقم اتنی زیادہ کر دی گئی ہے کہ لگتا ہے، اس سال کا سارا بجٹ ٹریفک جرمانوں کی رقم سے ہی تیار کیا جائے گا۔ مبارک ہو۔
***
اسلام آباد میں ایک نوعمر جج زادے نے اپنی بارہ کروڑ کی گاڑی سے کچل کر دو ملازم پیشہ خواتین کو قتل کر دیا۔ ان کے گھر اجڑ گئے۔
مرنے والی نوجوان خواتین کے لواحقین سے دلی ہمدردی ہے۔ خدا انہیں اس صدمے میں صبر عطا فرمائے۔ ان کیلئے مشورہ ہے کہ قانونی کارروائی کے جھنجھٹ میں مت پڑیں ورنہ وہی انجام ہوگا جو دو تین برس پہلے، اسی اسلام آباد میں ایک جج زادی کے ہاتھوں قتل ہونے والے دو نوجوانوں کے لواحقین کا ہوا تھا۔ وہ انصاف لینے کی ضد کر رہے تھے، پھر ان کا جو حشر ہوا، سب نے دیکھا۔ قاتل جج زادی ماورائے عدالت صاف بری ہوگئی۔ جان لینا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ملک اشرافیہ کے لئے ہے اور اشراف کو، اشراف زادوں کو اور اشراف زادیوں کو ہر معاملے میں انڈیمنٹی حاصل ہے۔
***
سرکاری دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے 15 برسوں میں صوبہ کے پی کو صرف دہشت گردی کی جنگ کی مد میں 700 ارب روپے دیئے گئے اور اب اس رقم کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کہاں گئی۔ کوئی آڈٹ نہیں ہے اور صرف یہی نہیں، وفاق سے براہ راست امداد، پن بجلی، تیل گیس کی رائلٹی کی مد میں بھی سیکڑوں ارب روپے دیئے گئے۔ اس کے باوجود صوبے میں امن و امان کی خرابی، پولیس، بے روز گاری، غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
اتنے ہزاروں ارب روپے کہاں گئے؟ سادہ سا جواب ہے جو اس مکالمے سے مل سکتا ہے کہ، کہاں گیا۔ جواب، کھچڑی میں اور کھچڑی کہاں گئی، جواب، یاروں پیاروں کے پیٹ میں۔
یاروں پیاروں کی فہرست میں، واضح رہے کہ، ٹی ٹی پی والے یعنی اپنے لوگ بھی شامل ہیں۔