Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Abu Nasr/
  3. Aap Ki Surat Achi Hai, Zuban Bhi Achi Ho To Kya Kehne

Aap Ki Surat Achi Hai, Zuban Bhi Achi Ho To Kya Kehne

دیکھیے، اچھی اُردو تو لکھی جاتی رہے گی اور اچھی اُردو بولی بھی جاتی رہے گی۔ درست اُردو لکھنے والے اپنے قلم سے دل کش و دل نشیں زبان کے موتی بکھیرتے رہیں گے۔ کوثر و تسنیم سے دُھلی اُردو زبان بولنے والوں کے لبوں سے رس بھری میٹھی مہکتی باتوں کے پھول بھی جھڑتے رہیں گے۔ اُردو کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ مسئلہ تو اُن معذور لوگوں کو پیش آ رہا ہے جو انگریزی کی ملاوٹ کیے بغیر اُردو کی دو سطریں لکھ سکتے ہیں نہ خالص اُردو کے دو فقرے بول سکتے ہیں۔ ایسے ہی خصوصی افراد کی خیر خواہی اور بھلائی کی خاطر اُردو کا یہ خادم خامہ فرسائی کیے جاتا ہے۔ خیر سے بہتوں کا بھلا بھی ہو رہا ہے۔ جو بھلے لوگ اُردو زبان کو اپنا ذریعۂ ابلاغ بنانے کے بعد یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اُن کی تحریر پُر کشش ہوجائے یا اُن کی گفتگو سامعین و ناظرین کے دلوں میں اُترتی چلی جائے، وہ اُردو کا مزاج جاننے اور اُردو کی ادائیں پہچاننے کی کوشش بھی کرنے لگے ہیں۔ آئے دن نِت نئے سوالات بھیجے جاتے ہیں اور بساط بھر اُن سوالات کے شافی و کافی جوابات ارسال کیے جاتے ہیں۔ چراغ سے چراغ جل رہا ہے۔ کرن سے کرن پھوٹ رہی ہے۔ کیا عجب کہ چند ہی برسوں میں ہمارے چمنِ ابلاغیات کے چاروں طرف چراغاں ہو جائے۔

بہت دن نہیں بیتے کہ ہمارے ملک کے ذرائع ابلاغ میں ہماری زبان ہی سے چراغاں ہوتا تھا۔ برقی نشریاتی اداروں سے ایسی زبان نشر ہوتی تھی جس کو سن کر لوگ اپنی زبان ٹھیک کرتے تھے۔ بڑے بڑے نام وَر ادیب، شاعر اور ماہرینِ لسان ہمارے نشریاتی اداروں سے وابستہ تھے۔ نشریات کے عنوانات اُردو میں ہوتے تھے۔ اصطلاحات اُردو کی استعمال کی جاتی تھیں۔ خبرنامہ، خاص خاص خبریں، اہم خبروں کی سرخیاں، مختصر خبریں، خبروں کی جھلکیاں، خبروں کا پس منظر، خبروں کا تجزیہ اور"مختصر، مختصر" وغیرہ شعبۂ خبر کی نشریات کے عنوانات ہوا کرتے تھے۔ جس چیز کو آج صرف 'Drama' کہا جاتا ہے، اُسے اِنھیں نشریاتی اداروں پر کھیل، تمثیل، تماشا یا خاکہ کہا جاتا تھا۔ سال میں ایک بار تمثیل نگاری، صدا کاری اور اداکاری کا انعامی مقابلہ ہوتا تھا۔ اس مقابلے کو "جشنِ تمثیل" کا نام دیا جاتا۔ سننے والے ان تمام اصطلاحات کو سنتے اور سر دھنتے۔ سب لوگ سب اصطلاحات کا مفہوم سمجھتے تھے۔ کوئی نہیں کہتا تھا کہ یہ لفظ تو ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

سمجھ سے باہر الفاظ کا استعمال اُس وقت شروع ہوا جب نشریاتی اداروں کا جمعہ بازار لگ گیا۔ نشریاتی اداروں کی کثرت قابلِ مذمت نہیں۔ کثرت سے مسابقت پیدا ہوتی ہے۔ مسابقت سے سامعین اور ناظرین کو تنوع، جدت کی لذت اور لطف حاصل ہوتا ہے۔ لوگوں کو انتخاب کا حق مل جاتا ہے۔ موازنہ اور محاکمہ کرنے کا موقع ملتا ہے کہ "یہ جنتِ نگاہ، وہ فردوسِ گوش ہے"۔ کاش ایسا ہی ہوا ہوتا۔ مگر ہوا یوں کہ جب بھانت بھانت کے نشریاتی ادارے آئے تو بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہوئے آئے۔ ان بولیوں میں سے کوئی بولی ہماری قومی زبان میں نہیں بولی گئی۔ سب کے سب دیسی اور بدیسی زبان کا ملغوبا ہمارے سامعین و ناظرین کے کانوں میں اُنڈیلنے لگے۔ ایک نسل کی نسل ایسی تیار ہوگئی جو محض اسی زبان کی عادی بنا دی گئی۔ یہ وہ نسل ہے جس کا شیریں سخنی سے کبھی سابقہ ہی نہیں پڑا، جس نے صوفی تبسم، قریش پُوراور عبید اللہ بیگ کی شگفتہ نشری گفتگو سنی ہی نہیں۔ جس کو شکیل احمد، انور بہزاد، وراثت مرزا، چشتی مجاہد، شائستہ زید، اظہر لودی، خالد حمید اور عشرت فاطمہ وغیرہ کے ٹکسالی لب و لہجے میں خبریں سننے کا لطف ہی حاصل نہیں ہوا۔ خبروں پر تبصرہ، سیاسی شخصیات سے مصاحبہ اور ماہرینِ فن مہمانوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرہاد زیدی، انور حسین، لئیق احمد اور ضیا محی الدین کا اندازِ نظامت دیکھنے کو نہیں ملا۔ ان نشریوں میں تہذیب تھی، شائستگی تھی، شُستہ زبان تھی اور معلومات کا دریا بہتا تھا۔ سامعین و ناظرین کے علم میں اضافہ ہوتا تھا۔ چیخ پُکار تھی، نہ چونچیں لڑائی جاتی تھیں۔ بیہودگی تھی نہ بد مزگی تھی۔ لڑائی جھگڑا تھا نہ گالی گلوچ تھی، نہ مار کُٹائی ہوتی دکھائی دیتی تھی۔ حالاتِ حاضرہ سے متعلق نشریات چوں چوں کا مربہ بنیں تو ملغوبا زبان کے رواج کے بعد ہی بنیں۔ صاحبو! ہر زبان اپنے اثرات بھی اپنے ساتھ لاتی ہے۔

اثرات اور تاثرات کا تعلق سماعت و بصارت کے تسلسل سے ہے۔ جو بولی تکرار کے ساتھ بولی یا لکھی جائے گی وہی لوگوں کی زبان پر چڑھ جائے گی اور اپنا اثر دکھائے گی۔ شائستہ زبان اختیار کی جائے توانداز و اطوار میں بھی شائستگی آجائے گی۔ یہ نہ کہیے کہ آج اس زبان کو کون سمجھے گا۔ آج جو زبان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اسے کون سمجھتا تھا؟ بار بار بولنے سے لوگوں نے آفات کو ڈِزاسٹر، (Disaster) سمجھنا اور بولنا شروع کیا، ورنہ عام لوگ تو سن سن کر آفاتِ ارضی اور آفاتِ سماوی کا فرق بھی بہ آسانی سمجھ لیا کرتے تھے۔

کون سی آفت آ جائے گی اگر اُردو نشریات میں فقروں کے فقرے انگریزی میں نہ بولے جائیں، یعنی اُردو کے مخملیں جملوں میں انگریزی الفاظ کے ٹاٹ کا پیوند نہ ٹانکا جائے۔ اگر یہ تحریر اُن خواتین و حضرات تک پہنچے (یا پہنچا دی جائے) جنھیں اُردو نشریات میں بولنے کے لیے بُلا کر بٹھایا گیا ہے، تو اُن سے بصد ادب کچھ عرض کر دیا جائے۔ عرض یہ ہے کہ آپ کی شکل اچھی ہے، آپ کی صورت اچھی ہے، آپ کا لباس اچھا ہے، آپ کی ہر ادا اچھی ہے، لیکن آپ کی اُردو اچھی نہیں۔ آپ کے بولنے سے آپ کی بھد اُڑتی ہے۔ آپ کے فقروں کا مذاق بنتا ہے اور مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ آپ کی سنجیدہ گفتگو میں بھی اِن جملوں جیسا مسخرا پن پایا جاتا ہے کہ

رین واز فالنگ چھمّا چھم
لیگ ہمارا پھسلا، گر پڑے ہم

اس سے آپ کا تمسخر بنتا ہے۔ یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ آپ میں اُردو بولنے کی اہلیت نہیں۔ کوئی اُردو نشریہ چلانے کی صلاحیت نہیں۔ خواہ آپ کی شہرت کتنی ہی دُور دُور تک پہنچ گئی ہو، آپ کی عزت نہیں۔ عزت حُسنِ کلام سے ملتی ہے۔ زبان دل کش ہو تو شخصیت بھی دل کش ہو جاتی ہے۔ لہٰذا طرح طرح کے عذر تراشنے کی بجائے اپنی اِس کمی اور کوتاہی کا ازالہ کیجیے۔ اپنے اندر اُردو نشریات کو چلانے کی صلاحیت پیدا کیجیے۔ اُردو نشریات کے لیے اپنی اہلیت ثابت کیجیے۔ اپنے آپ کو نا اہل نہ بنائے رکھیے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں، بہت آسان بات ہے۔

بات بس اتنی سی ہے کہ "آپ کا پوائنٹ آگیا" کہنے کی بجائے "آپ کا موقف آگیا" کہا کیجیے۔ ایسا کہنے کی کوشش میں ان شاء اللہ آپ کو کوئی جسمانی یا روحانی تکلیف پیش نہیں آئے گی۔ اکثر آپ گھبرا گھبرا کر کہتے ہیں کہ "مجھے ایک بریک لینے کے لیے کہا جا رہا ہے، مجھے ایک بریک لینے کے لیے کہا جا رہا ہے" تو اس کی جگہ آپ بڑے سکون سے کہہ سکتے ہیں کہ "مجھے وقفہ کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے"۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ "واپس آتے ہیں ایک بریک کے بعد Stay with us" تو آدھے تیتر آدھے بٹیر قسم کی یہ مضحکہ خیز بولی بڑی عجیب سی لگتی ہے۔ آخر یہ کہنے میں آپ کو کیا مشکل پیش آتی ہے کہ "واپس آتے ہیں ایک وقفے کے بعد، ہمارے ساتھ رہیے"۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ اُردو خبروں کا کوئی خاص حصہ مثلاًموسم اور کھیل وغیرہ کی خبریں یا بین الاوقوامی خبریں پیش کرتے ہوئے "This segment is brought to you by.. " جیسے انگریزی جملے کی غیر ضروری پیوند کاری کرکے بولنا آپ کو کس وجہ سے اچھا لگتا ہے؟ اس کی جگہ یوں کہنا یقیناََ آپ کے منہ سے اچھا لگے گا کہ "خبروں کے اس حصے کے لیے ہم سے تعاون کیا ہے، " وغیرہ وغیرہ۔

ہمیں معلوم ہے کہ عادتیں آسانی سے نہیں بدلتیں۔ تبدیلی یکلخت نہیں آ جاتی۔ مگر کسی بھی کام کا آغاز کرنے کے لیے پہلا قدم اُٹھانا ضروری ہوتا ہے۔ پہلا قدم اُٹھ جائے تو منزل کی طرف قدم بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ آج سے ایک ایک لفظ ٹھیک کرنے کی ابتدا کیجیے، بہت جلد آپ کو اچھا بولنے اور اچھا لکھنے کا سلیقہ آجائے گا۔

کاغذ پر اُلجھاتے رہیے حرفوں کی زنجیر
آتے آتے آ جائے گا لکھنے کا انداز

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran