اُس روز ہم گھر بیٹھے، صبح کی نشریات میں خبر خواں خاتون سے ہر نصف گھنٹے بعد یہ خبر سُن سُن کر (مجبوراً اپناہی) سَر دُھن رہے تھے: "آج پورے ملک میں یومِ آزادی کا دن بڑے جوش و خروش سے منایا جارہا ہے"۔
کہ اتنے میں کراچی سے پروفیسر سلیم مغل کا فون آگیا۔ پروفیسر صاحب کا فون "یومِ آزادی کے دن" کی مبارک باد دینے کے لیے نہیں، اُلہنہ دینے کے لیے آیا تھا۔ کہنے لگے: "حاطب بھائی! کل ہماری اور آپ کی مادرِ علمی (جامعہ کراچی) میں یومِ آزادی کے سلسلے کی ایک تقریب تھی۔ اس تقریب کے ہر ہر مرحلے پر، خوب خوب انگریزی بولی گئی۔ میری باری آئی تو میں نے پہلے احتجاج کیا، پھر تقریر کی۔ بھائی اس کھلے تضاد پر بھی کچھ لکھیے"۔
جو لکھیے تو اب اور کیا بات لکھیے؟ کہ صاحب! اب تو ہر بات ہی تماشا بن گئی ہے۔ ہرتماشا بے سوچے سمجھے کیا جارہا ہے۔ ہم بھی بیٹھے، منہ باندھے " تماشائے اہلِ سخن" دیکھتے رہتے ہیں۔ ہمارے بچوں کے منہ سے اُن کی زبان کیا چھینی گئی، اُن کی سوچنے، سمجھنے کی صلاحیتیں بھی اُن سے سلب کرلی گئیں۔ سوچیے تو سہی کہ اب بھلا وہ کس زبان میں سوچیں کہ آزادی، کسے کہتے ہیں؟ سنہ سینتالیس میں ہم نے کس سے آزادی، حاصل کی؟ یا حاصل کرنا چاہی؟ اور بھلا ہم نے آزادی، حاصل کرنے کی ضرورت ہی آخر کیوں محسوس کی؟
عزیزو! ضرورت یوں محسوس کی کہ ہم ہر طرح کے جبر سے آزاد فضا میں سانس لینا چاہتے تھے۔ ہم اپنے ذہن سے سوچنے کی آزادی چاہتے تھے۔ اپنی زبان میں اپنا کاروبارِ حیات سرانجام دینا چاہتے تھے۔ اپنے عقاید کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ اپنے معاشرے میں اپنی شریعت، اپنی تہذیب، اپنی اقدار، اپنے تمدن اور اپنی ثقافت کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتے تھے۔ ہم ایسا آزاد وطن چاہتے تھے جہاں سب کچھ ہمارا اپنا ہو۔ ہم پر پرایا دباؤ نہ ہو۔ ہمارے بچے نہ صرف جسمانی اور سیاسی لحاظ سے آزاد ہوں بلکہ ذہنی اور فکری معاملات میں بھی غیروں کی فکرکے غلام نہ ہوں۔ تحریکِ آزادی کے دوران میں بھی ہمارے حریت پسند رہنماؤں، ہمارے جاں بازوں اور ہمارے شہیدوں نے حریتِ فکر اور حریتِ عمل کا مظاہرہ کرکے دکھایا۔ مولانا محمد علی جوہرؔ کی رحلت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بقول اصغرگونڈوی:
بنا لیتا ہے موجِ خونِ دل سے اِک چمن اپنا
وہ پابندِ قفس جو فطرتاً آزاد ہوتا ہے
کسی آزاد قوم کی زبان بدل دیجیے، سب کچھ بدل جائے گا۔ یہ بات ایک بدیہی حقیقت نہ ہوتی تو سنہ 1813ء میں انگریز برصغیر کی تعلیمی زبان نہ بدلتے۔ جاپان نے جنگِ عظیم میں شکست کھانے کے بعد دستاویزِ سقوط میں اپنی صرف ایک شرط داخل کروائی۔ شرط یہ تھی کہ جاپان کا تعلیمی نظام جس طرح سے چل رہا ہے، اسی طرح چلتا رہے گا۔ آج آپ اپنی اٹھہترسالہ انگریزی خوانی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ترقی، کا موازنہ جاپان کی تعلیمی ترقی سے کرلیجے۔ ساتھ ہی برصغیر میں برپا ہونے والے لسانی انقلاب، کاایک جائزہ بھی لے لیجے۔
1813ء میں برطانوی پارلیمان نے ہندوستان میں تعلیمی حکمتِ عملی کے تعین کے لیے ایک قانون منظور کیا، جو" چارٹر ایکٹ" کہلاتا ہے۔ اِس قانون کی رُو سے طے پایا کہ"ذریعۂ تعلیم کے طورپر انگریزی زبان کو اختیار کیا جائے گا"۔
7 مارچ 1835ء کو لارڈ میکالے کی سفارشات کی تعمیل میں، برطانوی پارلیمان کے اندر ہندوستان کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی جو، Bentincks Resolutionکہلاتی ہے۔ اِس قرارداد میں طے کیا گیا کہ "تعلیم کا اصل مقصد یورپی ادب اور یورپی سائنس کا فروغ ہوگا۔ ذریعۂ تعلیم انگریزی ہوگا۔ سرکاری خزانے کی شعبۂ تعلیم کے لیے مختص کی جانے والی تمام رقوم صرف اِسی تعلیم پر خرچ ہوں گی"۔
1882ء میں"انڈین ایجوکیشن کمیشن" قائم ہوا جس کی سفارشات پر عمل درآمد کے نتیجے میں برصغیر کا تمام تر تعلیمی نظام بدیسی حکومت کی گرفت میں آگیا۔ مُسلم اکثریت نے انگریزی ذریعۂ تعلیم، کا مقاطعہ کردیا۔ محض انگریزی زبان سیکھنے پر مسلمانوں کوکوئی اعتراض نہ تھا۔ بلکہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے تو یہ فتویٰ بھی دیا تھاکہ: "انگریزی زبان سیکھنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں"۔
مسلمانوں کا اعتراض یہ تھا کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم، اُن کے بچوں کو اِسلام اور اسلامی ثقافت سے دُور لے جارہا ہے۔ اُن کی زبان و تہذیب اور اُن کے تمدن کو موت کے گھاٹ اُتار رہا ہے۔ یہ بات بعد کو دُرست ثابت ہوئی۔ انگریزی میں دی جانے والی تعلیم کے اثرات پر اکبرؔ اِلٰہ آبادی کی ایک طویل نظم سے چند اشعار کا انتخاب آپ کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔ اِس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ اکبرؔ کی دُوربیں نگاہوں نے کس طرح اپنے ہی زمانے میں انگریزی ذریعۂ تعلیم کے نتیجے میں تشکیل پانے والا، ہمارا زمانہ دیکھ لیا تھا۔ اکبرؔ کا کہنا تھا:
یہ موجودہ طریقے راہیِ ملکِ عدم ہوں گے
نئی تہذیب ہوگی اور نئے ساماں بہم ہوں گے
نہ خاتونوں میں رہ جائے گی پردے کی یہ پابندی
نہ گھونگھٹ اِس طرح سے حاجبِ روئے صنم ہوں گے
نہ پیدا ہوگی خطِّ نسخ سے شانِ ادب آگیں
نہ نستعلیق حرف اِس طور سے زیبِ رقم ہوں گے
عقاید پر قیامت آئے گی ترمیمِ ملّت سے
نیا کعبہ بنے گا، مغربی پُتلے صنم ہوں گے
ہماری اصطلاحوں سے زباں نا آشنا ہوگی
لُغاتِ مغربی بازار کی بھاشا سے ضم ہوں گے
گذشتہ عظمتوں کے تذکرے بھی رہ نہ جائیں گے
کتابوں ہی میں دفن افسانۂ جاہ و حِشم ہوں گے
کسی کو اِس تغیر کا نہ حِس ہوگا نہ غم ہوگا
ہوئے جس ساز سے پیدا اسی کے زیر و بم ہوں گے
تُمھیں اِس اِنقلابِ دہر کا کیا غم ہے اے اکبرؔ
بہت نزدیک ہیں وہ دن نہ تم ہو گے نہ ہم ہوں گے
صاحبو! ہر زبان اپنی تہذیب ساتھ لاتی ہے۔ انگریزی ذریعۂ تعلیم نے ہماری نژادِ نو پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ اب انگریزی کا سہارا لیے بغیر باہم بات چیت بھی ممکن نہیں۔ اپنے افکار، نظریات، علوم اور علمی اصطلاحات سے توکیا، ہمارے بچے اب اُن کتابوں کے ناموں سے بھی ناآشنا ہیں، جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کا ایمان متزلزل ہے۔ اُن میں کردار کی بلندی باقی نہیں رہی۔ اُن کے دِل ارتداد کی طرف مائل ہورہے ہیں اور وہ خود دیارِ غیر کی طرف۔ اُن کے اندراپنی قوم کی ترقی کے لیے کوئی جوش و ولولہ ہے، نہ دینی حمیّت، نہ قومی جذبہ۔ اُنھیں اپنی کوئی چیز اچھی ہی نہیں لگتی۔ وہ اغیار کی ہرادا پر فریفتہ ہیں۔ اُن کے دِلوں پر صرف اُنھیں کی عظمت کے نقوش ثبت ہیں۔ بھلا وہ اپنے سرمایۂ علوم وفنون پر کیسے فخر کرسکتے ہیں؟ ، لوجی! بات مکمل نہیں ہو سکی۔ کالم کا ورق تمام ہوگیا۔