ادبی تقریب تھی۔ تقریب میں کچھ نشستیں خواتین کے لیے مخصوص تھیں۔ چند مردانِ بے خبر آئے اور اُنھیں مخصوص نشستوں پرجا بیٹھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خواتین کے لیے نشستیں کم پڑ گئیں۔ کچھ دیر بعد تقریب کے نظامت کار نے دیکھا کہ کچھ خواتین دروازے سے لگی دیوار سے لگ کر کھڑی ہیں۔ اُنھوں نے بلند گو پر اعلان کیا: "مرد حضرات پنڈال کے دائیں جانب کی نشستوں پر تشریف لے جائیں"۔
اتفاق سے ہمارے پہلو میں جو حضرت تشریف فرما تھے، وہ مردِ ناقد نکلے۔ اعلان سنتے ہی بھڑک گئے۔ بھڑک چکے تو فرمایا: "یہ مرد حضرات کیا ہوتا ہے؟ حضرات، تو مردوں ہی کو کہا جاتا ہے، خواتین کو نہیں۔ پھر مرد حضرات، کہنا چہ معنی دارد؟"
عرض کیا: "اس سوال کا نہایت دلچسپ اور خواتین کے لیے نہایت مرد مار جواب ہمارے مرشدِ ظرافت مرحوم مشتاق احمد یوسفی دے چکے ہیں۔ مفہوم اُن کے کہے کا یہ تھا کہ مرد حضرات، محض اس وجہ سے کہنا پڑتاہے کہ بعض خواتین بھی بڑی حضرت ہوتی ہیں"۔
حضرت یہ سن کر ہنس پڑے۔ ہم نے اللہ کا شکر کیا۔ تقریب بدمزگی سے بچ گئی۔ ورنہ آج نظامت کار کی تو خیر نہیں تھی۔
خیر تو ہماری بھی نہیں رہی۔ پوچھنے لگے:
"حضرت! آخر اِس لفظ حضرت، کے کیا معنی ہوتے ہیں؟"
تقریب کے اگلے مقرر تقریر سَرا ہوچکے تھے۔ اُن کی سمت اشارہ کرکے کہا: " تقریب کے بعد بتائیں گے۔ جواب طویل ہے"۔
تقریب کے بعد وہ ہمیں کھوجتے ہی رہ گئے۔ اُن کو معنی کے کھوج میں سرگرداں چھوڑکر ہم سرک لیے تھے۔ دراصل ہوا یوں تھا کہ برسوں سے بچھڑے ہوئے ایک دوست ہمیں کھوج کر پکڑ لے گئے۔ اب آج فرصت ملی ہے تو ہم بذریعۂ کالمِ ہٰذا حضرت کو حضرت، کے معنی بتا رہے ہیں اور اس میں کیا شبہہ ہے کہ تقریب کے بعد ہی بتا رہے ہیں۔
آپ نے لفظ حضر، سن رکھا ہوگا (ح، اورض، دونوں پر زبر ہے) اس کے معنی ہیں موجودگی، حاضری اورقیام۔ سفر کی ضد ہے۔ اقبالؔ کہتے ہیں:
"تسکینِ مسافر نہ سفر میں نہ حضر میں"
قیام کی نسبت سے حضر، کے معنی شہر، مقاماتِ مسکونہ یا آبادی کے بھی ہیں۔ پاکستان کے ایک شہر حضرو، کا نام بھی غالباً اسی نسبت سے رکھا گیا ہوگا۔ حضر، ہی سے لفظ حاضر، بنا ہے۔ حاضر، کا مطلب موجود، تیار، آمادہ اور سامنے ہے۔
حاضر کرنا، سامنے لانا یا موجود کرنا ہے۔ حاضری، کا مطلب ہے موجودگی۔ حاضر ہونے یا موجود ہونے کے معنوں میں ماحضر، بھی مستعمل رہا ہے۔ ماحضر، کے لفظی معنی ہیں جو کچھ حاضر ہے یا جو کچھ (بالخصوص جو کھانا) موجود ہے۔ میزبان حضرات، مہمان حضرات کو پیش کیے جانے والے کھانے کو انکسار کے طور پر ماحضر، بولتے ہیں۔ دعوت ناموں میں بھی یہی لکھا جاتا تھا کہ
"تشریف لائیے اور ماحضر تناول فرمائیے"۔
ایک بڑے ادیب کو اُن کے ایک سادہ لوح اور کم علم معتقد نے کسی سے یہی فقرہ لکھوا کر دعوت پر بلا لیا۔ دعوت کے بعد ادیب صاحب اُس غریب کے سر ہوگئے کہ
"آپ نے اتنا بہت کچھ کھلادیا مگر ماحضر، تو کھلایا ہی نہیں"۔
بے چارا معتقد سٹپٹا کر رہ گیا۔
حَضَر، ہی سے حضرت، کا وجود ہے۔ حضرت، کے لفظی معنی ہیں جو شخص حاضر ہو یا جو موجود ہو۔ جو نزدیک ہویاجو قریب ہو۔ حضرت، کی جمع حضرات، ہے۔ حضرات، سے مراد تمام موجودگان اور تمام حاضرین ہوتے ہیں۔ مرد، عورت، بوڑھے، بچے، جوان جو بھی حاضرین میں ہوں سب کو حضرات، کہہ کر مخاطب کیا جا سکتا ہے۔ غالباً انگریزی طرزِ تخاطب "Ladies and gentlemen" سے متاثر اور مرعوب ہوکر ہمارے ہاں بھی "خواتین و حضرات" کہا جانے لگا ہے۔ اب کہا جانے لگا ہے تو کہا جانے دیجے۔
حضرت عبیرؔ ابوذری نے اپنے اس شعر میں حاضرینِ مجلس ہی کے معنوں میں لفظ حضرات، استعمال کیا ہے:
اجلاس کا عنوان ہے "اخلاص و مروّت"
بد گوئی میں مصروف ہیں حضرات مسلسل
لفظ حضرت، کا اُردو میں استعمال کثیرالمعانی ہے۔ تعظیماً بھی استعمال ہوتا ہے اور طنزاً بھی۔ یوں تو جو بھی محفل میں حاضر ہو اُس کو حضرت، کہہ کر مخاطب کیا جا سکتا ہے، مگر یہ لفظ احترام کا ہے۔ کسی کو حضرت، کہہ کر پکارنا، اُس کی تعظیم کرنا ہے۔ تعظیم کے لیے اُردو میں مقدس اور معزز شخصیات کے ناموں کے ساتھ حضرت، لگانے کا رواج ہے۔ انبیا علیہم السلام، صحابہ کرامؓ، اولیا اللہ اور صوفیائے عظام کے ناموں سے قبل احتراماً حضرت، لگایا جاتا ہے۔ حضرت، خواتین کے احترام کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت مریمؑ، حضرت خدیجہؓ اور حضرت رابعہ بصریؒ۔ مرید حضرات اپنے پیر حضرات کو اُن کی عدم موجودگی میں بھی حضرت صاحب، کہتے ہیں۔ چچا غالب ؔکو نصیحت کرنے کے لیے جو بزرگ آیا چاہتے تھے، اُن کا احترام کرتے ہوئے چچا کہتے ہیں:
"حضرتِ ناصح گر آئیں دیدہ و دل فرشِ راہ!"
تعظیم کے لیے حضرت سلامت، بولنا بھی قدیم درباری انداز ہے، آج بھی بولا جاتا ہے۔ غالبؔ تو اپنی تعظیم آپ بھی کرتے تھے:
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اِک روز مرنا ہے، حضرت سلامت!
طنزاً لفظ حضرت، شریر، بدذات، چالاک اور چلتا پرزہ ہونے کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ مولانا ماہرؔالقادری کا ایک مقطع دیکھیے:
ماہرؔ کی سادہ باتوں سے اللہ بچاتا ہی رکھے
خود تو یہ بڑے ہی حضرت ہیں، اوروں کو نصیحت کرتے ہیں
حَضَر، ہی سے مشتق ایک اور لفظ ہے حضور۔ اس کا مطلب بھی حاضر، موجود، روبرو، سامنے اور منہ در منہ ہے۔ اُردو میں حضور، بھی کلمۂ تعظیمی ہے۔ جنابِ عالی کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ طنزیہ بھی استعمال کر لیا جاتاہے، جیسے پروفیسر اقبالؔ عظیم نے اپنے ناقدین سے گلہ کیا کہ
"حضور! آپ نے اقبالؔ کو غلط سمجھا"
اسی طرح امیرؔ مینائی کہتے ہیں:
آنکھیں ملائیں آپ تو کچھ حالِ دل کہوں
پہروں مزاج ہی نہیں ملتا حضور کا
مسلمان چوں کہ ناگزیر ضرورت کے سوا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلّم کا اسمِ ذات بار بار زبان پر لانا بے ادبی تصور کرتے ہیں، چناں چہ آپﷺ کے ذکر میں اکثر صرف القاب استعمال کیے جاتے ہیں۔ اِنھیں القاب میں سے ایک لقب حضور، بھی ہے، جس پر امتیاز کے لیے "صلی اللہ علیہ وسلّم" کا علامتی ص، بنا دیا جاتا ہے۔ مثلاً: "حضورﷺ نے فرمایا، "
حضوری، کا مطلب حاضری، قربت اورموجودگی ہے۔ یہ دُوری کی ضد ہے۔ نماز میں پوری توجہ اللہ رب العالمین کی طرف مرکوز رکھنے کو بھی حضوری، کہا جاتا ہے۔ اقبالؔ کو موجودہ دور کے مسلمانوں سے شکایت تھی کہ
"تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور"
حضر سے بننے والے الفاظ کی فہرست بہت طویل ہے۔ جو الفاظ رہ گئے اُن سے معذرت۔ محاضرات، استحضار اور مستحضر جیسے الفاظ تو شاید صرف اہلِ علم ہی استعمال کرتے ہوں، مگراُردو میں کثرت سے استعمال ہونے والا ایک لفظ محضر، بھی ہے۔ محضر، کے معنی ہیں دستخط شدہ دستاویزجو موقعے پر پیش کی جائے یاحاضر کی جائے (حکم نامہ، درخواست یا فردِ جرم) محبوب علی خان آصفؔ کا مشہور شعر ہے، جس کی تضمین میں فیضؔ صاحب نے بھی غزل کہی اور غزل کے آخر میں اس شعر کو نقل کیا:
لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی