Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Abu Nasr/
  3. Hindostan Mein Motor Car Ijad Na Hone Ki Wajah

Hindostan Mein Motor Car Ijad Na Hone Ki Wajah

ہماری قوم میں خوبیاں تو خوب سی ہیں۔ پَر ایک خوبی ایسی ہے جو آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے۔ وہ خوبی یہ ہے کہ ہماری قوم کا ہر شخص مصلح ہے۔ جو ذرّہ جس جگہ ہے، وہیں آفتاب ہے۔ یوں توہر اصلاح طلب قومی مسئلے پر قوم کی قوم بقولِ اقبالؔ "ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا" بیٹھی رہتی ہے۔ لیکن جوں ہی کوئی شخص کسی قومی خرابی کی اصلاح کے لیے اُٹھتا ہے، قوم کی قوم خود اُسی شخص کی اصلاح کرنے کے لیے ہڑبڑا کر اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اور کسی کی اصلاح ہو یا نہ ہو، اصلاح کرنے والے کی خوب اچھی طرح اصلاح ہو جاتی ہے۔ یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ اچھی بات ہے۔ قوم کے کسی ایک فرد کی بھی اصلاح ہو جائے تو اسے غنیمت جانیے۔ ورنہ فی زمانِنا اپنی اصلاح کرتا ہی کون ہے؟ سب دوسروں کی اصلاح کے درپے رہتے ہیں، ہماری طرح۔

پانچ برس ہونے کو آتے ہیں۔ ہم بھی غلطی ہائے مضامین، کے دریائے تُند و تیز میں اصلاحِ زبان کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اس دریا میں ہمیں دھکا کس نے دیا تھا؟ سب جانتے ہیں۔ دھکا دینے والے یہ بھی جانتے تھے کہ جسے اِس دریا میں دھکیلا جا رہا ہے وہ زبان کا ماہر ہے نہ اس کی گہرائیوں کا شناور۔ ہاتھ پاؤں مارے گا تو تیرنا آہی جائے گا۔ سو کالم نگار نے بسم اللہ مجرٖھا و مُرسٰھا پڑھ کر اس سلسلے کے اولین کالم میں، جو جمعہ 27نومبر 2020ء کو اِنھیں صفحات پر شائع ہوا تھا، دھکا دینے والوں کے ساتھ ساتھ قارئین کو بھی بتا دیا تھا کہ

"اس سے قبل انھیں صفحات پر ہمارے اُستادِ محترم اطہر ہاشمی مرحوم اس قوم کے ہر اہلِ زبان کو متنبہ کیا کرتے تھے کہ "خبر لیجے زباں بگڑی"۔ تنبیہ الغافلین کے ساتھ اپنی اُستادانہ مہارت سے زبان بگاڑنے والوں کی خبر بھی لیا کرتے تھے۔ ہم میں اُن جیسی استادانہ صلاحیتیں تو نہیں ہیں، تاہم طالب علمانہ صلاحیتیں استادوں نے (ہمیں)کُوٹ کُوٹ کر ہم میں بھر دی ہیں۔ سو، ہم اپنی بساط بھر کوشش کریں گے کہ اپنا حاصل مطالعہ یہاں پیش کر دیا کریں۔ کوئی سہو، کوئی تسامح، کوئی غلطی ہوئی تو الحمدللہ ہمیں ٹوکنے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں"۔

آخری فقرے میں پیش کیا جانے والا خیال سَو فی صد درست نکلا۔ کالم شائع ہونا شروع ہوئے تو علمائے کرام، ماہرین لسانیات اور ماہرین ابلاغیات نے حوصلہ بھی بڑھایا اور غلطیوں پر گرفت بھی کی۔ اُردو زبان کے ماہرین اب دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل چکے ہیں۔ کالم نگار کی خوش نصیبی ہے کہ اس کا کالم ان اہلِ دنیا میں سے اکثر کی نظر سے گزرتا ہے۔ بعض اساتذہ نہایت دقتِ نظر سے جائزہ لیتے ہیں اور معمولی سے معمولی فرو گزاشت کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ جن خواتین و حضرات کی زبان کی اصلاح کے لیے یہ کالم شائع کیے جاتے ہیں، نہیں معلوم کہ اُن میں سے کتنوں کی اصلاح ہوئی، مگر الحمدللہ ان کالموں کا سب سے زیادہ فائدہ خود ہمیں پہنچا ہے کہ ہماری ہر غلطی کی فی الفور اصلاح ہوجاتی ہے اور اب تک ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے سب اساتذہ مستعدو متحرک و فعال رہتے ہیں کہ (بقول کلیم عاجزؔ)

ہر ایک قدم پر ہم اس آوارہ قدم کو
ہاں دیکھ کے چل، دیکھ کے چل کہتے رہیں گے

پچھلے کالم میں پوسا، کے معنی جاننے کی کوشش میں تابعِ موضوع اور تابعِ مہمل کا ذکر آیا تھا۔ اس ضمن میں اسلام آباد ماڈل کالج فار بوائز ایف ایٹ فور، اسلام آباد کے استاد مولانا منیب الرحمٰن لکھتے ہیں:

"ماشاء اللہ مضمون دلچسپ اور معلومات افزا ہے۔ البتہ ذرا یہ بات قابل غور ہے کہ یہاں موضوع مہمل، کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے یعنی اس کے معنی ہوں گے با معنی۔ جب کہ مہمل کے معنی ہیں بے معنی۔ علمائے لغت کے ہاں لفظ کی دو قسمیں ہیں موضوع اور مہمل۔

موضوع بامعنی لفظ۔

مہمل بے معنی لفظ۔

لہذاتابع موضوع کی تعریف یہ ہوگی کہ ایسا تابع لفظ جو معنی دار ہو۔ جیسے جان پہچان اور تابع مہمل کی تعریف یوں ہوں گی کہ ایسا تابع جو بے معنی ہو جیسے پالا پوسا۔ "

ہم استادِ محترم کے شکر گزار ہیں۔ جس طرح اُنھوں نے اپنے آخری فقرے میں مثال دی ہے، اُسی طرح ہم بھی پوسا، کو تابعِ مُہمل ہی جانتے تھے۔ فرہنگِ آصفیہ میں بھی پوسنا، کے معنی یوں ہی بتائے گئے ہیں:

"فعلِ متعدی۔ دیکھو پالنا۔ اُردو میں اکثر پالنے کے ساتھ مستعمل ہے"۔

البتہ نوراللغات میں پوسنا کا معنی پرورش کرنا اور دودھ پلانا، بھی درج ہے اور یہ کہ"یہ لفظ اُردو میں پالنا کے ساتھ مستعمل ہے"۔

جامعۃ العربیہ احسن العلوم کے جناب فضل احمد کریم قریشی نے پوسا، کے بامعنی ہونے کے متعلق اس شک کا شبہہ ظاہر کیا ہے کہ

"ہوسکتا ہے کہ لفظ پوسا، پشتو زبان سے آ دھمکا ہو پشتو میں ایک لفظ تپوس ہے جس کا مطلب ہے جس کے متعلق پوچھا جائے"۔

مگر پوسا، کے بامعنی لفظ ہونے کے بارے میں جامعہ ملک عبدالعزیز، رابغ (سعودی عرب) میں کلیۃ العلوم وا لآداب کے استاذ پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم صاحب نے مکمل علمی تحقیق کے ساتھ ہماری اور ہمارے قارئین کی رہنمائی فرمائی ہے۔ آپ لکھتے ہیں:

"پالنے پوسنے میں دونوں مفردات بامعنی ہیں۔ دونوں کی اصل سنسکرت ہے۔

پالنے میں اصلاً پھیلانے بچھانے توسیع دینے کا مفہوم ہے۔ اس کا رشتہ گھاس پھوس بھوسا وغیرہ سے ہے۔

جب دھان یا گندم کی گھاس خشک ہو جائے تو اسے پوال، کہتے ہیں۔ پوال کو بچھا کر بستر بنا لیتے تھے اور اس پر بچے کو لٹایا، سلایا جاتا تھا: پوالنا = پالنا۔ تو پالنے، کا مطلب لٹانا، سلانا ہوا۔ جس جھولے نما بستر میں بچے کو لٹاتے ہیں اس کو بھی پالنا، کہتے ہیں۔ ایسی سواری جس میں مسافر لیٹ جاتا تھا اور [لیٹے ہی لیٹے] جیتے جی کہاروں کے چار کاندھوں پر سفر کرتا تھا، اسےپالکی، کہتے تھے۔

جو لوگ ایسا کرنے پر بجائے شرمندہ ہونے کے فخر محسوس کریں، ان میں موٹر کار جیسی ایجادات کا داعیہ پیدا ہونا ناممکن تھا۔

خیر، پالنا پرورش کے معنی میں استعمالا جاتا ہے۔ لیکن اس کا بنیادی رشتہ گھاس پوال سے ہے اور اس میں لٹانے، سلانے، پچکارنے، روتے کو چپ کرانے وغیرہ کے مفاہیم لیے جاتے ہیں۔ پالنا، پیلنا، پالن، پالکی، پلنگ وغیرہ سب اسی قبیل سے ہیں۔

پوسنا، سے بھی پرورش مراد لیا جاتا ہے۔ سنسکرت میں اس کے معنی بڑھانے کے ہیں۔ بچوں کو کھلایا پلایا جاتا ہے کہ ان کے جسم کو مضبوطی ملے۔ لمبائی اور جسامت میں اضافہ ہو۔ اسی کو پوسنا، کہتے ہیں۔ آج بھی ہندی میں غذائیت کے لئے پوشن، لکھا جاتا ہے۔ کھانے پینے والی ڈبہ بند چیزوں پر غذائیت سے متعلق معلومات کے لئے یہی لفظ مستعمل ہے"۔

ڈاکٹر محمد سلیم صاحب کا وطنِ اصلی الٰہ آباد ہے۔ تعلیم و تعلم کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ آپ سنسکرت سمیت کئی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ پاکستان میں راقم سمیت بہت سے لوگ سنسکرت سے واقف نہیں۔ اسی وجہ سے ہم جیسے پوستی، لوگ پوسا، کو مہمل بلکہ تابعِ مُہمل گردانتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد سلیم صاحب کا شکریہ کہ اُنھوں نے ہمیں غذائے سنسکرتیہ سے پوسا۔

ڈاکٹر صاحب کی تحریر سے نہ صرف یہ معلوم ہوگیا کہ کھلانے پلانے، کو پوسنا کہا جاتا ہے، بلکہ یہ بھی پتا چلا کہ اصلاً لِٹانے، سُلانے کو پالنا، کہتے ہیں۔ بچوں کو پالتے ہوئے اُن کو پالنے، (یعنی جھولے) میں جو لٹادیا جاتا ہے، اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کو پوت کے پاؤں پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran