Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Abu Nasr/
  3. Hum Karen Baat Daleelon Se To Rad Hoti Hai

Hum Karen Baat Daleelon Se To Rad Hoti Hai

ممتاز محقق، مصنف اور مؤلف محترم محمد راشد شیخ نے ہمارا پچھلا کالم پڑھ کر مولانا عبدالمتین منیری کے ہاتھ اکبرؔ الٰہ آبادی کے وہ چاروں مصرعے ہمیں بھجوا دیے ہیں، جن میں سے فقط دو ہی ہمارے پاس باقی رہ گئے تھے۔

کیا تماشا ہے۔ بھٹکل (بھارت) والے مولانا عبدالمتین منیری متحدہ عرب امارات میں ہوتے ہیں۔ محمد راشد شیخ صاحب کراچی میں مقیم ہیں اورہم اسلام آباد میں مصروفِ خطا و نسیان ہیں۔ پیغام رسانی اگر ہمارے جلیل القدر عالم، ادیب اور ادیب گر مولانا عبد المتین منیری مد ظلہ، العالی نے نہ کی ہوتی تو ہم راشد بھائی سے ضرور کہتے کہ

"واہ صاحب واہ! چڑیوں ہاتھ سندیسے، کاگوں ہاتھ سلام؟"

راشدشیخ صاحب اکبرؔ پر سند ہیں۔ "مجموعۂ مکاتیبِ اکبرؔ" سمیت اُن کی 21 سے زائد تالیفات و تصنیفات ہیں۔ ہم شیخ صاحب کے ممنون ہیں کہ اُنھوں نے ہمارا کالم توجہ سے پڑھا اور ہمارے حافظے کی تصحیح فرمائی۔ پچھلے کالم میں ہم نے اس قطعے کے صرف دو مصرعے پیش کیے تھے۔ پہلا مصرع اور آخری۔ مگر اب راشد بھائی سے کیا کہیں؟ اکبرؔ ہوتے تو ہم الٰہ آباد جا کر اُن سے بصدعقیدت واحترام کہتے:

"مولوی صاحب! سچ پوچھیے تو اس قطعے میں بس یہی دو مصرعے کام کے ہیں، باقی بھرتی کے"۔

لیجے اکبرؔ کا قطعہ آپ بھی سن لیجے اور آپ بھی لطف اندوز ہو لیجے، مگرمحمد راشد شیخ صاحب کے شکریے کے ساتھ۔ ہمارے سرکاری حکام، بالخصوص عوام پراندھا دھند محصولات عائد کرنے والے صاحبانِ اختیار حکام یہ قطعہ ضروربالضرور پڑھیں:

نقشوں کو تم نہ جانچو، لوگوں سے مل کے دیکھو
کیا ہو رہا ہے آخر کیسی گزر رہی ہے

دل میں خوشی بہت ہے یا رنج اور تردُّد
کیا چیز جی رہی ہے، کیا چیز مر رہی ہے

تیسرے مصرعے میں لفظ تردُّد، استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ پڑھ کر عزیزم عزیزالرحمٰن سلّمہ تردُّد میں پڑ گئے کہ

"یہ کون سا لفظ ہے اور اس کے کیا معنی ہیں؟"

عرض کیا: "میرے عزیز! اس مصرعے میں تردُّد، کے معنی سوچ، فکر، اندیشہ، تشویش اورپریشانی کے ہیں۔ مگر اس لفظ کے اور بھی کئی معانی ہیں"۔

شاید اُنھیں مزید معانی معلوم کرنے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اتنا ہی سن کر سر ہلاتے ہوئے اور ہتھیلی پر دھرے فون پر نظریں جماتے ہوئے تیزی سے چل دیے۔ جانتے تھے کہ اب خاصی طویل تدریس ہوگی۔ اُردو کے محض ایک لفظ کے معنی جاننے میں وقت کیوں ضائع کیا جائے؟ کیوں نہ اتنی دیر میں دنیا جہان کو دیکھ لیا جائے۔ (سارے جہاں کا جائزہ، اپنے جہاں سے بے خبر)

صاحبو! اب معنی جاننے کا تردُّد کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ اپنے الفاظ کے معانی جانے بغیر بے معنی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے زندگی کی ہر سرگرمی بے معنی ہوتی جا رہی ہے۔ یہی نہیں، جائزہ لیجے توبحیثتِ قوم ہم بالکل ہی بے معنی زندگی بسر کیے جا رہے ہیں۔

تردُّد، کے مزید معنی تذبذب، پس وپیش، اُدھیڑبُن اور انتظام و انصرام و اہتمام میں سرگرداں وغیرہ وغیرہ ہیں۔ ناسخؔ کہتے ہیں:

جگر بُھنتا ہے اِک سُو، اِک طرف کو زخم پکتے ہیں
تردُّد خانۂ دل میں ہے غم کی میہمانی کا

میہمانی، پر خیال آیا کہ صاحب! اگر آپ کسی کے گھر مہمان جائیں اور صاحبِ خانہ آپ کی ضیافت کا اہتمام کرنے میں تن، من، دھن سے مگن ہو جائیں َاورپھر ایسے میں اگر آپ انتہائی سادگی و معصومیت سے فرمائیں کہ "سرکار! کچھ زیادہ تردُّد نہ کیجیے گا"۔

تو یہ سنتے ہی میزبان مزید تردُّد میں پڑ جائے گا کہ"یا اللہ! اب ایسا اور کیا اہتمام کروں کہ حضرت کے سامنے عزت رہ جائے"۔

تردُّد، کا اصل مفہوم کسی معاملے میں شک و شبہے میں پڑجانا، ہے۔ بلا شبہ، شک و شبہے میں پڑنے کے بعد ہی فکر، تشویش اور پریشانی وغیرہ لاحق ہوتی ہے کہکہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ مگر اس وقت تو ہمیں تردُّد، یہ ہے کہ آخر تردُّد، ہوا کیسے؟

اُردو میں کثرت سے استعمال ہونے والا ایک لفظ ہے ردّ۔ رد کرنے، کامطلب ہے پھیرنا، واپس کرنا، لوٹانا، قبول نہ کرنا، اعتراض لگانا، نہ ماننا اور نامنظور کردینا۔ مظفرؔ وارثی مرحوم کو گلہ تھا:

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اُس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے

جو چیز رد کر دی جائے وہ مردود، ہوجاتی ہے۔ ابلیس کو بھی بارگاہِ الٰہی سے رد کر دیا گیا تھا، سو وہ شیطانِ مردود، ہوا۔ رد کے ساتھ کد، قدح اور لفظ بدل بھی جوڑ دیا جاتا ہے۔ ردّ و بدل، کا مطلب ہے اُلٹ پلٹ کردینا یعنی کچھ چیزیں دفع کردینا، کچھ تبدیل کر دینا۔ مثلاً:

"یہود و نصاریٰ نے الہامی کتب میں ردّ و بدل کرد یا"۔

ردّ وکد یاردّ و قدح، کا مطلب ہے مزاحمت و مذمت، بحث و تکرار یا حجت بازی۔ قدح، میں دال ساکن ہے۔ بھک منگوں اور گداؤں نے اپنے بھلے مانس ہونے کا ثبوت دینے کوصدا لگائی کہ "جودے اُس کا بھلا، جو نہ دے اُس کا بھی بھلا"۔ مگر ذوقؔ کی بھلمنساہٹ دیکھیے کہ درِ محبوب سے جو کچھ ملے بس اُسی کو بھلا سمجھ کر قبول کرلینے پر تیار ہیں اوربحث و تکرار یا حجت بازی سے گریزاں۔ کہتے ہیں:

دشنام دو کہ بوسہ، خوشی پر ہے آپ کی
رکھتے فقیر کام نہیں ردّ و کد سے ہیں

رد کی ہوئی چیزیں ردّی، کہلاتی ہیں۔ اسی وجہ سے ناقص اور خراب چیز کو بھی ردّی چیز، کہا جاتا ہے۔ ردّی کر دینا، کا مطلب ہے بے کار اور ناکارہ کر دینا۔ ناقص اور ناقابلِ استعمال کاغذ بھی ردّی، کہلاتا ہے اورردّی کے بھاؤ، بیچ دیا جاتا ہے۔ ہمیں تو یہ بھیتردُّد ہے کہ

"نئی نسل اُردو پڑھنے کے قابل نہ رہی تو ہمارا سارا علمی و ادبی ذخیرہ ردّی کا ڈھیر بن جائے گا"۔

جو شخص دینِ حق کو قبول کر لینے کے بعد دین سے پِھر جائے، پرانی روش پر پلٹ جائے، اپنے سابقہ باطل طور طریقوں کی طرف لوٹ جائے، حق کو رد کردے اور حق سے منحرف ہو جائے تو اصطلاحاً ایسے شخص کو مُرتد، کہتے ہیں اور اس عمل کو ارتداد، کہا جاتا ہے۔

کسی دعوے، کسی نظریے یا کسی بات کو جھٹلانے اور باطل قرار دینے (یعنی اِبطال) کے عمل کو تردید، کہا جاتا ہے۔ چچا غالبؔ کی طرح، کسی کتاب کے رد میں کوئی کتاب لکھنا بھی اُس کتاب کی تردید، کہلاتا ہے۔ عقیدۂ تثلیث جیسے باطل عقیدے کو جرأت سے رد کرنے کے ضمن میں اکبرؔ کو شیخ سے شکوہ تھا کہ

شیخ تثلیث کی تردید تو کرتے نہیں کچھ
گھر میں بیٹھے ہوئے والتّین، پڑھا کرتے ہیں

تثلیث اور تین (3) کی رعایت سے شیخ صاحب کی تلاوت کا محور محض سورۂ التّین، کو قرار دینے کا نکتہ اکبرؔ ہی کے ذہنِ رسا میں آ سکتا تھا۔ ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ تثلیث کی تائیدپر تُلے رہتے ہیں، "مذہبی ہم آہنگی" کے نام پر۔ کہتے ہیں کہ سارے مذہب سچے ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran