Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Abu Nasr/
  3. Izhar Kuch Hua Bhi To Ibham Reh Gaye

Izhar Kuch Hua Bhi To Ibham Reh Gaye

عیدِ قرباں کے قریب آتے ہی افواجِ پاکستان کے ترجمان نے صحافیوں کا اجلاس بلایا اور اُس سے خوب خطاب کیا۔ تمام ذرائع ابلاغ پر تقریباً ہفتے بھر اس خطاب کا چرچا رہا۔ ہر شخص نے اپنی اپنی بساط بھر اس خطبے کے مختلف نکات سے خیر کے پہلو نکالے۔ خیر اسی میں ہے کہ خیر کے پہلو نکالے جائیں۔ جو لوگ خیر کی باتوں سے بھی شر کے پہلو نکال لاتے ہیں وہی شرپسند کہلاتے ہیں۔ خیر سے اُس خطاب میں خیر کا ایک پہلو ہم نے بھی نکال لیا۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل احمد شریف نے اپنی گفتگو میں جتنی بار بھی اِبہام، کا لفظ ادا کیا، بالکل درست تلفظ کے ساتھ ادا کیا، جب کہ اب درست تلفظ سے کوئی لفظ ادا کرنے کی ادا بے رواج ہوچکی ہے۔

بولتے ہوئے اور بالخصوص ذرائع اِبلاغ پر بولتے ہوئے، جب کوئی شخص درست تلفظ سے بولنے کا اہتمام کرتا ہے تو اُس کے طرزِ بیان کی دل کشی اور اُس کی شیریں بیانی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا درست تلفظ سیکھیے اور ذہن نشین کرلیجے کہ اِنعام، اِکرام، اِفہام، اِظہار، اِبلاغ اور اِبہام سب کے الف پہ زیر ہے۔ خطبہ و خطاب ہی میں نہیں، عام بول چال میں بھی اسی طرح بولا کیجیے۔ آپ کے بول میٹھے ہوجائیں گے۔ ورنہ اگر بغل میں بیٹھے کسی بقراط نے کسی غلط تلفظ پر ٹوک کر درست تلفظ پوچھ لیا تو بغلیں جھانکنی پڑ جائیں گی۔

ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی نہ جانے کب سے ہماری بائیں بغل کے اوپر سے جھانک جھانک کر ہمارا یہ لکھا چپکے چپکے پڑھ رہے تھے۔ آخر چپکے نہ رہ سکے، بول ہی پڑے: "میاں! قومی ذرائع ابلاغ پر قومی زبان کا جو حشر نشر کیا جارہا ہے، اس پر پابندی لگانے کی اُپائے کسی کو کیوں نہیں بتاتے؟"

ہم نے چونک کر چہرہ پھیرا۔ پشت کی طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ چچا دانت چِیارے کھڑے ہیں۔ ہم نے دانت کچکچا کر پوچھا: "چچا! چینلوں پر چاؤں چاؤں کرنے والوں کی زبانوں سے زبان کا جو حشر ہورہا ہے اُس کو نشر کرنے پرکون پابندی لگا سکتا ہے؟"

فرمایا: "وہی۔ بھئی دیکھونا، کسی کا چہرہ دکھانے اور نام زبان پر لانے پر پابندی لگ جائے تو چینلوں پر چَیں چَیں کرنے والوں کی زبان تالو سے لگ جاتی ہے۔ تصویر دکھانے کا تو خیر تصور بھی نہیں کرسکتے۔ لیکن بہ امر مجبوری اگر نام لینا پڑ جائے تو نکاح ٹوٹ جانے سے ڈرتی ہوئی بھولی بیبیوں کی طرح، مشہور بغدادی کہانی ابوالقاسم کے جوتے، والے ابوالقاسم کی کنیت کا اُردو ترجمہ کرکے کام چلا لیتے ہیں۔ پس اگر ملک و قوم کے تمام مقدّسین و مقدّسات کا دفاع کرنے والے صرف ایک بار کہہ دیں کہ خبردار! قومی ذرائع ابلاغ پرکسی نے قومی زبان کی بے حرمتی کی تو اُس کا بھی "وہی" حشر کیا جائے گا۔ پھر دیکھنا، بلکہ چشمِ تصور سے ایک ایک اینکر کو دیکھنا، کہ کیسے ہل ہل کر قومی زبان کے قواعد یاد کرتے دکھائی دیں گے"۔

صاحب! ہم نے بڑی مشکل سے چچا کو رُخصت بالخیر، ہونے پر آمادہ کیا کہ خیر اسی میں تھی۔

حسنِ اتفاق کہیے یا سُوءِ اتفاق، مگرعجیب اتفاق ہے کہ آج کل ہماری سیاست و صحافت میں لفظ اِبہام، کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ یارانِ اِبہام نے اس لفظ کے تلفظ میں بھی اِبہام پیدا کردیا ہے۔ نام وَر سیاست دان ہوں یا پیشہ وَر صحافی، اکثر لوگ اِبہام کا تلفظ الف پر زبر کے ساتھ کررہے ہیں۔ کیا عجب، کسی نے کہہ دیا ہو کہ"میاں! اِبہام ہی پیدا کرنا چاہتے ہو تو زبرکے ساتھ بولو، زبردست اِبہام پیدا ہوگا"۔

اِبہام کا مطلب ہے عدم وضاحت۔ عدم تعین۔ کسی بات کا مفہوم واضح نہ ہونا۔ کسی چیز کو شک و شبہے میں رکھنا یا کوئی ایسی بات کہنا کہ جس سے ایک نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے کئی نتائج نکالے جا سکتے ہوں۔ انگریزی میں یہی کام، Ambiguity پیدا کرکے کیا جاتا ہے۔

جس بات سے اِبہام پیدا ہوجائے وہ بات مبہم کہلاتی ہے۔ مبہم بات کرنے سے پورا مدعا ظاہر نہیں ہوتا۔ باصرؔ کاظمی کو صدمہ ہے کہ

ہم کامیاب ہو کے بھی ناکام رہ گئے
اظہار کچھ ہوا بھی تو اِبہام رہ گئے

جب کہ شکیبؔ جلالی اپنے محبوب کے رویوں کو دیکھ دیکھ کر رونا پیٹنا مچائے ہوئے ہیں کہ آخر اس گڑبڑ قسم کے تعلق کو کیا نام دیں؟

کبھی اُلفت سی جھلکتی ہے، کبھی نفرت سی
اے تعلق تِرے اِبہام پہ رونا آیا

مصطفی خان شیفتہؔ کی جس غزل کا یہ مصرع ضرب المثل بنا ہوا ہے"بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا"، اُسی غزل میں فرماتے ہیں:

اے اہلِ نظر ذرّے میں پوشیدہ ہے خورشید
اِیضاح سے حاصل بجز اِبہام نہ ہوگا

اِیضاح، کا مطلب ہے وضاحت کرنا۔ یہ اِبہام کی ضد ہے۔ ضد میں آکر اس لفظ نے بھی اپنے الف کو زیر ہی لگایا ہے۔

عربی میں اِبہام، کا مطلب انگوٹھا ہے۔ اہلِ عرب انگوٹھا دکھا کر اِبہام کا اظہار کرتے ہوں گے، مگر اہلِ غرب آج کل انگوٹھا دکھا کر کسی بات کا یقین دلانے یا کسی بات کی تائید کرنے کا اظہار کرتے ہیں۔ سچ ہے مشرق اور مغرب ایک ہو سکتے نہیں۔ انگوٹھا دکھانا OK، کہنے کی علامت بھی ہے یعنی اِبہام دور ہوگیا، بات سمجھ میں آگئی، حکم کی تعمیل ہوگی۔ قدیم رومن دورمیں انگوٹھا اوپر(Thumbs Up)کرکے دکھانا موت کی علامت ہوتا تھا اور انگوٹھا نیچے (Thumbs Down) کرکے دکھانا زندگی کی۔ مگر اب سب کچھ اُلٹ گیا ہے۔

ہم اُلٹے، بات اُلٹی، یار اُلٹا۔ اب انگوٹھا نیچے کرکے دکھانا غصے اور ناپسندیدگی کی علامت قرار پایا ہے اور اوپر کرکے دکھانا پسندیدگی کی۔ یوں تو ہمارے کالموں تلے بھی سماجی ذرائع ابلاغ پر بہت سے لوگ اپنے اوپری انگوٹھے کا نشان ثبت کرجاتے ہیں، مگر وطنِ عزیز اور اس کے مضافات میں انگوٹھا دائیں بائیں ہلاتے ہوئے ہی دکھایا جاتا ہے۔ اسے ٹھینگا دکھانا، کہتے ہیں۔ یہ حرکت کسی کو چڑانے یا تضحیک و حقارت کے ساتھ صاف انکار کرنے کے لیے کی جاتی ہے کہ "میاں! ہم سے تمھیں کچھ نہیں ملنے والا"۔

اِبہام کی اصل بہیمہ، ہے۔ گائے، بھینس، بھیڑ، بکری یا دیگر چوپائے، جن میں اظہار کی طاقت یا قوتِ گویائی نہیں ہوتی، جو اپنی بات کی کھل کر وضاحت نہیں کر سکتے۔ اسی وجہ سے گونگے شخص کو ابہم، کہا جاتا ہے۔ بہیمہ کی جمع بہائم ہے۔ مولانا حالیؔ اپنی مشہور مسدس "مدوجزرِ اسلام" میں دینِ اسلام کا تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں:

وہ دیں جس نے اعدا کو اخواں بنایا
وحوش اور بہائم کو انساں بنایا

وحوش، وحشی کی جمع ہے۔ اس کا مطلب ہے جنگلی۔ سناہے جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے۔ جہاں وحوش اور بہائم پُر امن بقائے باہمی کے ساتھ بہیمانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ شاید اسی پُر امن قسم کی باہمی بہیمیت کو دیکھ کر لاقانونیت اور بے آئینی سے تنگ آئے ہوئے لوگ تمنا کرنے لگے ہیں کہ "کاش! جدید شہروں میں بھی جنگل کا قانون نافذ ہو جائے"۔ مگر اس تمنا میں بھی اِبہام ہے۔ یہ بات واضح نہیں کہ آپ کو جنگل کے کس حصے کے بہائم کی بہیمیت پسند ہے؟ شیرانِ غاب کے غاروں کی یا بزدل گیدڑوں کے بھٹ کی؟ سناہے گیدڑوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے۔ مگر کیا یہ بہتر نہیں کہ تمام تجربات سے گزر لینے کے بعد اب ہم ایک بار پھر انسان بن جائیں اور اُسی دین کے قوانین اپنائیں کہ جس نے:

وحوش اور بہائم کو انساں بنایا

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran