ہم کہاں کے دانا ہیں؟ کس ہنر میں یکتا ہیں؟ اس پر بھی ملک کے ہنر مندوں کی غلطی ہائے مضامین، پکڑتے پھرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہماری غلطیاں پکڑ نے کو باقی سب لپکتے ہیں۔ قارئین جانتے ہیں کہ ان کالموں میں ورقی و برقی ذرائع ابلاغ پر کی جانے والی غلطیوں کی نشان دہی ہنسی ہنسی میں کی جاتی ہے، اس توقع پر کہ ہمارے ماہرین ابلاغیات خوشی خوشی غلطیاں ٹھیک کر لیں گے۔ مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ جن کے لیے یہ کالم لکھے جاتے ہیں، بس وہی نہیں پڑھتے۔ سو آج ہم بے ہنسے کچھ پچھلی باتیں دُہرائے دیتے ہیں اور دُعا کرتے ہیں کہ کاش یہ کالم وہ بھی پڑھ لیں جن کے لیے لکھا جا تا ہے۔
صاحبو! اپنی نشریات میں گھڑی گھڑی کمرشل بریک، لگانے والوں سے ہم کچھ نہیں مانگتے بس یہ چاہتے ہیں کہ ہماری اُردو صحافت اور اُردو کے نشریاتی اداروں کا وقار اور معیاربلند ہو جائے۔ خاصی پستی میں چلے گئے ہیں۔
اُردو صحافت کا آغاز ہوا تو نام وَر ادیبوں، اِنشا پردازوں اور صاحبانِ علم نے اس پیشے کو وقار بخشا۔ مولوی محمد باقر دہلوی، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالماجد دریا بادی، مولانا ظفر علی خان، مولانا ابوالجلال ندوی، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، خواجہ حسن نظامی، ملا واحدی، دیوان سنگھ مفتون، شاہد احمد دہلوی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا غلام رسول مہر، مولانا ماہرالقادری، مولانا نصراللہ خان عزیز، عبدالمجید سالک اور چراغ حسن حسرت جیسے صاحبانِ علم و فضل سمیت بہت سے ادبا و شعرا اُردو صحافت کو آبرومندانہ مقام دلانے کا سبب بنے۔ ماضی قریب میں بھی فیض احمد فیض، شورش کاشمیری، احمد ندیم قاسمی، ابراہیم جلیس، محمود شام، الطاف حسن قریشی اور محمد صلاح الدین سمیت بہت سے انشا پردازوں، ادیبوں اور شاعروں کے نام ہمیں اس شعبے میں ملتے ہیں۔
نشری و برقی صحافت سے زیڈ اے بخاری، اسلم اظہر، صوفی تبسم، سلیم احمد، قمر جمیل، نصراللہ خاں، اطہر نفیس، رئیس فروغ اور ضیاء محی الدین کے علاوہ عبیداللہ بیگ، قریش پور اور افتخار عارف جیسے بڑے بڑے نام وابستہ رہے ہیں۔ پھر جب صحافت نے صنعت کا درجہ حاصل کرلیا تو صحافیانہ تجارت، کوتو خوب فروغ ہوا، مگر صحافت پستی میں چلی گئی۔
شعبۂ ابلاغیات کو صنعت کا درجہ مل جانالائقِ نفرین نہیں، قابلِ تحسین ہے۔ اس فن کی ترقی و پیش قدمی کی علامت ہے۔ لیکن مادّی ترقی کے ساتھ ساتھ اگر معیار بھی بلند ہوجاتا تو بڑے فخر کی بات ہوتی۔ معیاربلند ہونا تو دور رہا، اُردوذرائع ابلاغ اخلاقی پستی اور فکری زوال کا شکار ہو گئے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اب پاکستانی ابلاغیات کے مشمولات محض مغربی ابلاغیات کی نقالی تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ زبان و بیان پر انگریزی کا غلبہ ہے۔ ہمارے صحافیوں کاہماری زبان اور ادب سے ناتا ٹوٹ چکا ہے۔ اپنی زبان سے ناتا ٹوٹ جانا اپنی تہذیب سے ناتا ٹوٹ جانے کے مترادف ہے۔
چوں کہ پاکستان میں ابلاغ کی زبان اُردو ہے، چناں چہ مارے باندھے اُردو ہی لکھنے اور اُردو ہی بولنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اُردو کے قواعد و انشا کی خلاف ورزیوں کا ہر طرف طومار ہے۔ تقریباً ہرقاعدے کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ کچھ نمایاں غلطیاں تو ایسی ہیں جن کی بھرمار اُردوزبان سے واجبی واقفیت رکھنے والے کو بھی کھٹکتی ہے۔ اپنے ذرائع ابلاغ سے دل کش علمی و ادبی زبان کی توقع فی الحال عبث ہے۔ فی الوقت یہ اپنی غلطیوں بھری زبان کی اصلاح ہی کرلیں تو اُمیدکی جاسکے گی کہ ایک نہ ایک دن شُستہ، شائستہ، مہذب اور معیاری زبان کی منزل تک بھی جا پہنچیں گے۔ اسی امید کے ساتھ، ذرائع ابلاغ سے سرزد ہونے والی چندعام غلطیاں اور اُن کی تصحیح یہاں ایک بار پھر پیش کی جاتی ہے۔
اُردو قواعد کے مطابق لفظ "عوام" اسمِ جمع مذکر ہے۔ مگر ہمارے مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ میں عوام، کو واحد مؤنث استعمال کیا جا رہا ہے۔ "عوام چاہتی ہے" جیسے فقرے لکھنا اور بولنا عام ہے۔ ذرائع ابلاغ کے اثرات قارئین اور ناظرین کی زبان پر بھی پڑتے ہیں اور پڑے ہیں۔ بار بار بتایا جا چکا ہے کہ صحیح جملہ یوں ہوگا: "عوام چاہتے ہیں"۔ مگر عوام چاہتی ہی نہیں، کہ یہ غلطی درست کر لے۔
محاورے کے مطابق قدم، اُٹھایا جاتا ہے اور اِقدام، کیا جاتا ہے۔ اِقدام کا مطلب ہے پیش قدمی یا آگے بڑھنا۔ اس کی ضد رجعت اور پسپائی ہے۔ جب کہ اخبارات اور نشریات میں اس قسم کے فقرے تحریر کیے اور بولے جا رہے ہیں کہ
"حکومت جرائم کے خاتمے کے لیے اقدامات اُٹھا رہی ہے"۔ (مگر اقدامات کو اُٹھائے اُٹھائے پھرنے سے بھلا کیا ہوگا؟)
اس جملے کو یوں لکھنا اور بولنا چاہیے: "حکومت جرائم کے خاتمے کے لیے اِقدامات کر رہی ہے"۔
"اشیائے خورد و نوش" کی مہنگائی کا اکثر ذکر ہوتا ہے۔ حالاں کہ "خورد" کا مطلب ہے "کھاگیا" (آں دفتر را گاؤ خورد،) یہاں درست لفظ خور، ہوگا، جس کا مطلب خوراک، ہے۔ پساشیائے خورد- و- نوش، نہیں، "اشیائے خور- و- نوش" لکھنا اور بولنا چاہیے۔
"حکومت کے اس فیصلے کی سمجھ نہیں آئی"۔
اس قسم کے فقرے لکھنے اور بولنے کا رواج چل پڑا ہے، جب کہ درست محاورہ "سمجھ میں آنا" یا "سمجھ میں نہ آنا" ہے۔ لہٰذا یوں کہیے یا یوں لکھیے کہ "حکومت کا یہ فیصلہ سمجھ میں نہیں آیا"۔
ناسمجھی کا ایک اور بوجھ جو ہمارے ذرائع ابلاغ اُٹھائے اُٹھائے پھررہے ہیں، وہ ہے لفظ فریقین، کے معنی سے لا علمی۔ ہم سمجھا سمجھا کر تھک گئے کہ جس طرح والدین، سے مراد صرف دو ہستیاں ہیں، حرمین، سے مراد صرف دو مقاماتِ مقدسہ ہیں اور نعلین، کا مطلب فقط دوجوتے ہیں، اسی طرح فریقین، بھی بس دو ہی فریق ہوتے ہیں۔ مگرخبریں سنیے تویہ فقرہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ
"عدالت نے دونوں فریقین کو طلب کر لیا ہے۔ " (کہیں لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ اکیلے ایک ہی فریقین، کو بلایاگیا ہے۔)
اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جب کسی مقدمے کے فریق دو سے زائد ہوں اور سب کی ساتھ پیشی ہو توخبر دی جاتی ہے:
"عدالت نے تمام فریقین، کو طلب کر لیا ہے"۔
ہر فقرے میں "نہ ہی" لکھنے کی وبا بھی پھیل گئی ہے۔ نہ، کے ساتھ ہی، لانا غلط مقام پر لانا ہے۔ مثلاً ایک اداریے کا یہ فقرہ دیکھیے:
"اُنھوں نے نہ اس خبر کی تصدیق کی نہ ہی تردید کر سکے"۔
اول تو دو مرتبہ نہ، لکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ قواعد کے خلاف ہے۔ دوم ہی، کو تردید، کے بعد آنا چاہیے، کیوں کہ ہی، حرفِ حصر ہے تخصیص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں خاص طور پر یہ بتانا مقصود تھا کہ تصدیق تو کی نہیں، تردید بھی، نہ کر سکے۔ درست جملہ یوں ہوگا:
"اُنھوں نے اس خبر کی تصدیق کی نہ تردید ہی کر سکے"۔
حروفِ ربط یا حروفِ جار (نے، کو، میں، پر، سے، تک وغیرہ) اپنے متعلقہ مقام پر نہ لگانے کی وجہ سے بھی عبارت کا حسن متاثر ہوتا ہے، جملے میں روانی نہیں رہتی، پڑھنے اور سمجھنے میں دشواری ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک خبر کے متن کا یہ فقرہ ملاحظہ فرمائیے:
"وزیر اعظم جوسعودی عرب کے دورے پر تھے نے کہا کہ۔۔ "
"تھے نے" کی بجائے "وزیر اعظم نے" ہونا چاہیے۔ لہٰذا"نے" وزیراعظم کے ساتھ لگے گا، "تھے"کے ساتھ نہیں۔ درست خبر یوں بنے گی:
"وزیر اعظم نے، جوسعودی عرب کے دورے پر تھے، کہا کہ۔۔ "
یہ فقط چند نمونے ہیں۔ قواعد و انشا کی اغلاط کا ایک بحرِ بے کراں ہے جو ہمارے ذرائع ابلاغ میں رواں ہے۔ بازار میں اُردو قواعد و انشا پر بہت سی کتابیں دستیاب ہیں۔ مگر لکھنے والے پڑھتے ہی نہیں۔ کتاب کیا پڑھیں گے؟ صفحے بھر کا کالم نہیں پڑھتے۔