خواجہ صاحب خوش تھے کہ وہ خراب کام نہیں کر رہے ہیں۔ فیس بُک پر بیٹھے اور بے فِیس لیے فقط تنقید کر رہے ہیں۔ کس پر تنقید کر رہے ہیں؟ ارے صاحب کس پر نہیں کر رہے ہیں؟ ناوک نے اُن کے، صید نہ چھوڑا زمانے میں۔ کون ہے جو اُن کی تنقید کے تیر کا شکار نہ ہوا ہو۔ وہ ایسے شکاری ہیں جس کومعاشرے میں ہر طرف فقط اپنا شکار یعنی خرابی ہی خرابی نظر آتی ہے اور بقول اُن کے خرابیوں کی نشان دہی کرنا کوئی خراب کام نہیں۔ مگر وہ خرابیوں کی صرف نشان دہی نہیں کرتے۔ اپنے خیال میں خراب لوگوں کو بھی نشان زد کرکے نشانے پر رکھ لیتے ہیں۔
یہ خراب، کا لفظ بھی خوب ہے۔ اس لفظ کے خوب سارے معانی ہیں۔ مگرخوبی کا کوئی لفظ اس کے کسی معنی میں نہیں۔ خراب، کا مطلب ہے بُرا، بدکار، بگڑا ہوا، ضائع اور تباہ شدہ۔ لہٰذا خراب کرنے، کے بہت خراب خراب معنی ہیں۔ ان میں سے کچھ معانی ملاحظہ ہوں: ویران کرنا، تباہ کرنا، ڈھا دینا، برباد کرنا، غیر آباد کردینا، ضائع کرنا، پھاڑ دینا، سُوراخ کردینا، بگاڑ دینااور عصمت دری کرنا۔ اسی طرح خراب ہونا، کے معنی ہیں برباد ہوجانا، اُجڑ جانا، منتشر اورپریشان ہو جانایا مفت کی زحمت میں مبتلا ہو جانا۔ کوئی چیز کسی وجہ سے اپنا کام نہ کر رہی ہو اور کوئی شخص یا کوئی گروہ اپنا فرض کماحقہ، سر انجام نہ دے رہا ہو تو ایسی صورت میں بھی لفظ خراب، ہی خوب کام آتا ہے، مثلاً گاڑی خراب ہے، مشین خراب ہے، مستری خراب ہے، دماغ خراب ہے، نظام خراب ہے اور حکومت خراب ہے، وغیرہ وغیرہ۔
خراب تو کوئی بھی چیز ہوسکتی ہے، نیت ہو، طبیعت ہویا حال۔ صداؔ انبالوی محبوب کے نہ آنے پر خراب ہوئے تو صدا لگاتے پھرے:
آئے نہیں تو نہ سہی، یہ تو پتا چلے
نیت خراب ہے کہ طبیعت خراب ہے
نہیں معلوم کہ شاعر کی نیت کس پر خراب ہوئی تھی۔ مگرخیر، یہ تو پتا چل گیا کہ جس پرنیت خراب ہوئی تھی اُس کی طبیعت خراب ہوگئی۔
خراب حال، کا مطلب ہے خستہ حال یا پریشاں حال۔ وہ شخص جس کو اپنے حال کی بے حالی کا کوئی احساس ہو نہ کوئی پروا۔ زاہد کو پرائے پھٹے میں ٹانگ اڑاتے دیکھ کر شیخ ابراہیم ذوقؔ نے زاہد کے کام میں بھی اپنی ٹانگ اَڑادی۔ شیخ صاحب فرماتے ہیں:
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو
جواباً زاہد نے بھی دوسرا مصرع دُہرا دیا ہوگا۔
(نبیڑنا، یعنی نمٹانا، تمام کرنا، مکمل کرنا، پورا کرنا، گزارنا اور بسر کرنا)
جو جگہ تباہ ہوجائے، برباد ہو جائے، ویران ہوجائے، اُجاڑہوجائے یا کھنڈر بن جائے، وہ جگہ خرابہ، کہلاتی ہے۔ شہرِ دلّی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جو بھی گزرا ہے اُس نے لُوٹا ہے۔ دہلی کا ایک نام جہان آباد، بھی تھا۔ سو، دلّی کی تباہی پر میرؔکا دل بھی خاصا خراب ہوا:
اب خرابہ ہوا جہان آباد
ورنہ ہر اِک قدم پہ یاں گھر تھا
خراب کرنے، کو تخریب کہا جاتا ہے۔ لفظ تخریب میں کرنے، کا مفہوم شامل ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ پر تخریب کاری، کی جو ترکیب استعمال کی جاتی ہے وہ درست نہیں۔ تخریب کہہ دینا کافی ہے۔ کاری، لگانے کا زیادہ شوق ہو تو خراب کاری، کہہ لیا کیجیے۔ تخریب کار، کی جگہ بھی خراب کار، کہنا احسن ہوگا۔ ہاں، تخریبی سرگرمیاں، کہنے میں کوئی حرج نہیں، ان میں مُلوث ہونے میں البتہ حرج ہے۔
خراب کرنے، اُجاڑنے یا بگاڑنے والی چیز کومُخرِّب، کہا جاتا ہے(میم پر پیش، خ پر زبر، رے پر تشدید اوررے تلے زیر)۔ ایک تلفظ میم پر پیش، خ ساکن اور ر، کے نیچے زیر کے ساتھ، بغیر تشدید کے، بھی ہے(مُخ رِب) یعنی خراب کرنے والا یا خراب کرنے والی۔ اخلاق کو خراب کرنے والی چیزوں کو مخرِّبِ اخلاق، کہنا چاہیے، رے کے نیچے زیر لگا کر۔ رے پر زبر کے ساتھ مُخرَّب بولا جائے تو اس کا مطلب ہوگا خراب شدہ، تباہ شدہ یا بگڑا ہوا، یعنی وہ چیز جو خراب کر دی گئی ہے یا بگاڑ دی گئی ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ پر مُخرِّب اخلاق، (اخلاق بگاڑنے والی شے کے معنوں میں) بولتے ہوئے اکثر رے، پر زبر لگا کر بول دیا جاتا ہے۔ تلفظ کی اس خرابی کو ٹھیک کر لینا چاہیے۔
خانہ خراب، جیسے الفاظ بھی آپ کو اکثر سننے پڑتے ہوں گے۔ لغوی لحاظ سے خانہ خراب، کے معنی ہیں جس کا گھر اُجڑ گیا ہو۔ مگر یہ ترکیب زیادہ تر کوسنے یا گالی دینے کے کام آ رہی ہے، جیسے "ہوت تیرا خانہ خراب! "۔ میرؔ صاحب اپنے محبوب کے کوچے میں فقیرانہ آئے صدا کر چلے، تو اُن کی صدا سن کر اُن کے محبوب نے بھی اُن کو یہی گالی دی:
میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے
خراب کی جمع خرابات، ہے۔ مجازاً یہ لفظ شراب خانے اور جوئے خانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے شرابی اور جواری کو خراباتی، کہا جاتا ہے۔ جون ایلیا کا ایک شعر ہے اور یہ شعر ایک مشاعرے میں اُن کی زبان سے ہم نے اسی طرح سنا تھا:
تو خراباتیوں کی فکر نہ کر
لڑکھڑاتے چلے گئے ہوں گے
مگر بعض جگہوں پر مصرعِ اولیٰ کی خرابی یوں دیکھی کہ "فکر اپنے شرابیوں کی نہ کر"۔ ممکن ہے کہ جون بھائی نے یہ خرابی خود کر لی ہو۔
خرابی کہاں نہیں ہوتی۔ مگر خرابی جہاں بھی ہو درست کی جاتی ہے۔ دُرستی کے طریقے سُجھائے جاتے ہیں۔ خرابی اُچھالتے رہنے سے دل بھی خراب ہوتا ہے اور دماغ بھی۔ علاوہ ازیں اس طرح خرابی کا دائرہ بڑھ جاتا ہے۔ ذرا سی خرابی پورے میں پھیل جاتی ہے۔ دُور دُور تک پہنچ جاتی ہے۔ مگر صاحبو! ، صرف خرابیوں کی نشان دہی کو تنقید، نہیں کہا جاسکتا۔ تنقیص، البتہ کہا جاسکتا ہے۔
تنقید کی اصل نَقَدَ، ہے۔ اس کے معنی ہیں چونچ مارنا۔ پرندے زمین پر چونچ کیوں مارتے ہیں؟ اپنا رزق تلاش کرنے کے لیے۔ چناں چہ چونچ مار کروہ خار و خس الگ کر دیتے ہیں اور دانہ دُنکا چُگ لیتے ہیں۔ یہی عمل تنقید، کہلاتا ہے۔ گویا تنقید کا مطلب یہ ہوا کہ خرابیوں کو پرے کر دیجے اور خوبیوں کو چُن لیجے۔ یہ نہیں کہ خوبیاں چُن چُن کرپرے کیجیے اور خرابیاں اُچھالتے پھریے۔
خواجہ صاحب جیسے لوگوں کی اکثریت سماجی ذرائع ابلاغ پر جس شغل میں مصروف ہے، وہ یقیناََ تنقید نہیں تنقیص، ہے۔ کسی کو بُرا بھلا کہنا، کسی میں عیب تلاش کرنا، کسی کی بُرائیاں کھوجنا، کسی پر اعتراض کرنا، کسی کے نقائص اور کسی کی خرابیاں بیان کرنا کوئی اچھا کام نہیں۔
خوبیاں تلاش کیجیے۔ خوبیاں بیان کریں گے تو خوبیاں پروان چڑھیں گی۔ تنقید کے نام پر محض خرابیاں اُچھالتے پھریں گے تو معاشرے بھر میں خرابیاں ہی اُچھلتی نظر آئیں گی۔ حالاں کہ ہماری اُمت میں آج بھی بہت سی خوبیاں ایسی ہیں جودوسروں کو نصیب نہیں۔
صحت مند ذہن معاشرے کو صحت مند دیکھنا چاہتا ہے۔ معاشرے میں حفظانِ صحت کے طور طریقے عام کرتا ہے۔ بیمار ذہن فقط بیماریاں بیان کرتا ہے۔ بیمار ذہن کو صحت مند لوگ بھی بیمارہی لگتے ہیں۔ ایسا ذہن صحت مندانہ سرگرمیوں میں بھی کوئی نہ کوئی بیماری کھوج نکالتا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر بعض لوگوں کی ترسیلات اور تبصرے پڑھ کر آدمی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ
نیت خراب ہے کہ طبیعت خراب ہے