Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Abu Nasr/
  3. Shabash, Tum Bhi Khoob Main Mekh Nikalte Ho

Shabash, Tum Bhi Khoob Main Mekh Nikalte Ho

خوض، کے معانی پر غور کرتے کرتے یہ کالم نگار اپنے پچھلے کالم میں لکھ بیٹھا تھا کہ خوض، کے ایک معنی مین میکھ نکالنا بھی ہیں۔ اس پر لوگ لگے مین میخ، نکالنے۔ راولپنڈی سے محترمہ تابندہ شاہد نے لکھا: "مین میکھ کو میں نے پہلی بار پڑھا، ہے۔ ورنہ سننے اور بولنے میں ہمیشہ مین میخ ہی سنا اور کہا"۔

اُستاد اعجاز عبید نے پوری تحریر پر تبصرہ فرماتے فرماتے فرمائش بھی کرڈالی: "اس عمدہ مضمون نے میرے ذہن میں بھی ایک سوال پیدا کردیا۔ مین میکھ یا مین میخ؟ اس پر تحقیق کی فرمائش بھی ہے"۔

جدہ سعودی عرب سے سید شہاب الدین صاحب کے ذہن میں بھی محولہ کالم پڑھ کر یہی سوال آیا: "اصل میں کیا ہے؟ مین میکھ یا مین میخ؟ ہم نے اکثر میخ ہی پڑھا ہے، جس کے معنی کیل کے ہیں"۔

دیگر کئی قارئین بھی اس پھیر میں پڑگئے کہ آیندہ وہ مین میخ نکالا کریں یا مین میکھ؟ تو اب دیکھیے ہم کیا نکالتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ مین میکھ، کی ترکیب ہندی ترکیب ہے، فارسی نہیں۔ یہاں مین، بروزنِ تین بولا جائے گا۔ اس کے ساتھ لگے ہوئے لفظ میکھ، کا تلفظ مے کھ، ہے۔ میکھ کا تعلق فارسی کے لفظ میخ، (تلفظ: می خ) سے ہرگز نہیں۔ فارسی میں مِیخ، کا مفہوم کیل، کانٹا، سوئی یا کھونٹی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُردو بولنے والوں نے میکھ، ہی کا تلفظ تبدیل کرکے اپنے طور پر اسے میخ، (مے خ) بولنا شروع کردیا جو رواج پا گیا۔ بس پھر کیا تھا، مہذب اور چقطع مقطع لوگ مین میکھ، نکالنے کی جگہ مین میخ، نکالنے لگے۔ لفظ بدل گیا، کرتوت نہیں بدلے۔

مین اور میکھ، دونوں الفاظ کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ مین، سنسکرت میں مچھلی، کو کہتے ہیں۔ یہ آسمان کے بارہویں بُرج کا نام ہے جس کی شکل مچھلی سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ اسے عربی میں حوت، کہتے ہیں اور انگریزی میں اس کا نام، Pisces ہے۔ مگر یہ بُرج کیا ہے؟

بُرج کے لفظی معنی قلعہ، محل اور گنبدکے ہیں۔ فصیل پر بنے ہوئے گنبد کو بھی بُرج کہا جاتا ہے۔ ہمارے شہر لاہور میں چار بُرجوں والی چوبُرجی، آج بھی پائی جاتی ہے، گو کہ اس کے گنبد غائب ہوچکے ہیں۔ قدیم علمِ فلکیات یا نجومیوں اور ستارہ شناسوں کی اصطلاح میں بُرج سے مراد ستاروں کے جھرمٹ ہیں۔ مجمع النجوم۔ ان جھرمٹوں کے نام اُن خیالی شبیہوں پر رکھ دیے گئے ہیں جو انھیں دیکھتے وقت بظاہر نظر آتی ہیں۔ یعنی حقیقتاً توآسمان پر مچھلی، بچھو، دنبہ، شیر اور ترازو نہیں ہوتے، مگر ستارہ شناسوں کو یہ جھرمٹ ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ اس لحاظ سے آسمان کو بارہ بروج میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کی سورۃ البروج کی پہلی آیت میں بھی بُرجوں والے آسمان کی قسم کھائی گئی ہے۔ مگر یہاں بُروج سے مراد وہ مضبوط آسمانی قلعے ہیں جن پر فرشتے متعین رہتے ہیں اور ملاءِ اعلیٰ کی طرف بڑھنے والے شیطانوں کو شہابِ ثاقب مارکر بھگا دیتے ہیں۔ یعنی شیاطین کو ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا۔ لہٰذا جنات یا شیاطین کی مجال نہیں کہ وہ غیب کی خبر لا سکیں یا آسمانی رازوں کی سُن گُن لے سکیں۔ نجومی لوگ جو غیب کی باتیں بتاتے ہیں وہ اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں۔ لگ گیا تو تیر، نہ لگا تو تُکّا۔

میکھ، سنسکرت میں مینڈھے یا دُنبے کو کہتے ہیں۔ ہندی میں اس کا تلفظ میش، بھی کیا جاتا ہے۔ میکھ، بھی ایک آسمانی بُرج کا نام ہے۔ یہ آسمان کا پہلا بُرج ہے۔ اس کی شکل مینڈھے سے مشابہ ہے۔ اسے عربی میں حمل اور انگریزی میں، Aries کہتے ہیں۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ نجومی اور ستارہ شناس اِنھیں بُرجوں کے نام لے لے کر قسمت کا حال بھی بتاتے ہیں اور فال بھی نکالتے ہیں۔ دُور کی کوڑی ہی نہیں، غیب کی کوڑی بھی لے آتے ہیں۔ تو اصلاً مین میکھ نکالنے کا مفہوم بات بات پر مین اور میکھ، سے مستقبل کا حال معلوم کرنا اور ہرکام سے پہلے ستاروں کی چال سے فال نکالنا تھا۔ شبھ گھڑی کون سی ہے؟ اِس گھڑی ہم یہ کام کریں یا نہ کریں؟ اور جس گھڑی ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں وہ اچھی گھڑی ہے یا بُری گھڑی؟ گھڑی گھڑی اچھی گھڑی یا بُری گھڑی جاننے کی کوشش کرنا ہی مین میکھ نکالنا تھا۔

ہندوؤں کے ہاں آج بھی شادی بیاہ کی تاریخ طے کرتے وقت یا دیگر اہم مواقع پر جیوتشی بلا کر اُس سے فال نکلوائی جاتی ہے۔ بات بات پر شگون لیا جاتا ہے۔ ہندی میں اس عمل کو شُگن بِچارنا یا شُگن کرنا بولا جاتا ہے۔ نجومی شگنیا، کہلاتا ہے۔ بہت سی چیزوں سے بہت سا شگون ہمارے ہاں بھی بہت سے لوگ آج تک لیتے ہیں۔ جانوروں کے چلنے اور پرندوں کے بولنے سے شگون لے لیا جاتا ہے۔ مثلاً کالی بلی راستہ کاٹ گئی تو سمجھیے کہ آپ جس کام سے جا رہے تھے وہ کام خراب ہوا (بلی کا کام بنا؟ یا وہ بھی بگڑ گیا؟ اس باب میں راوی خاموش ہے)۔ گھر کی دیوار پر بیٹھ کر کوئی کوا کائیں کائیں کرگیا تو یہ جانیے کہ وہ اپنی بولی ٹھولی میں آپ کے گھر مہمانوں کی آمد کی اطلاع دے گیا ہے۔ بہادر شاہ ظفرؔ نے بھی اپنے ایک شعر میں یہی شگون لیا ہے:

وہ آتے کب ہیں؟ مگر ہم نے اُن کے آنے کا
شگون سُن کے کچھ آوازِ زاغ لے تو لیا

اسی طرح ایک اور شاعر نے (جس کا نام ہم بھول گئے اوراس کا شعر یاد رہ گیا) اسی شگون پر ایمان کا اظہار یوں کیا ہے:

گھر کی دیوار پہ کوّے نہیں اچھے لگتے
مفلسی میں یہ تماشے نہیں اچھے لگتے

تو صاحب اسی قسم کی باتوں کو بات کو بات بات پر مین میکھ نکالنا کہا جاتا تھا۔

مسلمان مکمل ایمان رکھتے ہیں کہ خیر اور شر صرف اور صرف اللہ رب العزت کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اللہ کے سوا کسی ہستی، کسی شے یا کسی گھڑی کے اختیار میں نہیں کہ وہ کسی کو یا خود اپنے آپ کو کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکے۔ اسی وجہ سے مسلمان اپنے فیصلہ کُن مواقع پر استخارہ، کرتے ہیں یعنی اللہ سے خیر طلب کرتے ہیں، کیوں کہ خیر اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور اُسی کے اختیار میں ہے۔ کسی ستارہ شناس یا کسی ستارے کو کیا خبر کہ کسی معاملے میں اللہ کی مرضی، مشیت اور ارادہ کیا ہے؟ اقبالؔ کہتے ہیں:

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں

ستاروں سے اپنی تقدیر وابستہ کر رکھنے کا وہم خود ہمارے ہاں بھی اس قدر سرایت کرچکا ہے کہ ہمارے لوگ اپنی ہر دختر، کو نیک اختر، بتانا ضروری سمجھتے ہیں۔ اختر، ستارے کو کہتے ہیں اور نیک اختر، وہ ہے جس کے ستارے اچھے ہوں۔ مراد اچھی قسمت یا اچھی تقدیر سے ہے۔ بالخصوص شادی بیاہ کے دعوت ناموں میں بڑے فخر سے بتایا جاتا ہے کہ "ہماری دختر نیک اختر کی شادی فلاں تاریخ کو فلاں شخص سے ہورہی ہے"۔ تعجب ہے کہ ہر دختر نیک اختر، ہی بتائی جاتی ہے۔ ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کسی نے اپنی دخترِ بداختر، کی شادی کسی اور بد اختر، سے کردی ہو۔ حالاں کہ ہوتی ہی ہوگی۔ ہمارے بھائی اختر عباس شادیوں کے موضوع پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہی یہ گتھی سلجھا سکتے ہیں۔

صاحبو! یہ تو تھا مین میکھ، کا پس منظر۔ مگراُردو قواعدکی رُو سے مین میکھ نکالنا، ایک فعلِ متعدی ہے۔ کسی متعدی مرض کی طرح ایک سے دوسرے کو لگ جاتا ہے۔ محاورے میں اس کا مفہوم نکتہ چینی کرنا، عیب نکالنا، خُردہ گیری کرنا، فی نکالنا، وہم ڈالنا، خواہ مخواہ اعتراض کرنا اور بے کار حجت کرنا یعنی بے بات کی بات پر بحث کرنا وغیرہ وغیرہ ہے۔

ہمارے لکھتے لکھتے ہی ہمارے کندھے پر سے جھانک جھانک کر پورا کالم پڑھ جانے کے بعد ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی نے چہک کر داد دی:

"شاباش! تم بھی خوب مین میکھ نکالتے ہو"۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran