شہر لاہور سے محترم ضیاء حسین رقم طراز ہیں: "گزشتہ دنوں مجھے ایک خاکہ لکھتے ہوئے لفظ 'Commitment' کا موزوں اُردو متبادل نہ ملا تو میں نے یہی لفظ جوں کا توں استعمال کر لیا۔ مجھے اس کا اُردو متبادل بتا دیں، مہربانی ہوگی۔ میں نے کچھ اس طرح لکھا کہ فلاں آدمی فلاں کام سر انجام دینے کے لیے اتنا Committed تھا کہ اُس نے اوروں سے کی ہوئی Commitmentکی کوئی پروا نہ کی"۔
ہے یوں کہ آج کل ورقی، برقی اور سماجی ذرائع ابلاغ پر ملغوبا زبان، کا غلبہ ہے۔ اس زبان کے اثرات دیگر تحریروں اور عام بول چال پر بھی ہیں۔ لغت کہتی ہے کہ ملغوبا، اُس شے کو کہتے ہیں جو مختلف چیزوں سے مل کر گاڑھی ہوگئی ہو۔ خس و خاشاک یا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور الّم غلّم چیزوں کے مجموعے کو بھی ملغوبا، کہا جاتا ہے۔ گودڑ گادڑ، چیتھڑوں اور ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوجانے والی اشیا بھی ملغوبا، بن جاتی ہیں۔ سو، اُردو زبان میں انگریزی کے نامطلوب الفاظ کی بھرمار کرکے اُردو کی بجائے ایک ملغوبا زبان، لکھی اور بولی جا رہی ہے۔
حوصلہ افزا بات ہے کہ بہت سے لوگ اس ملغوبا زبان، سے نجات پانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں صحافی بھی ہیں، اساتذہ بھی ہیں اور ادیب بھی۔ قومی زبان کی بحالی کی طرف اُٹھنے والا یہ پہلا قدم ہے۔ ضیاء صاحب نے اچھا کیا جو یہ سوال کر دیا۔ اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔ اب ایسے سوالات کثرت سے کیے جانے لگے ہیں۔ مگر محض متبادل لفظ جان لینا ملغوبا زبان، کے مسئلے کا حل نہیں۔ ایک نامطلوب انگریزی لفظ سے نجات پائیے توجھٹ دوسرا اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ کس کس کا گلہ کیجیے کس کس کو روئیے؟ توپھر آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ لوگ کچھ لکھنا چاہیں یا کچھ کہنا چاہیں تو منہ سے یا قلم سے اُسی ملغوبا زبان، کا فقرہ نکلتا ہے، جس سے وہ نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نجات کے لیے اُس فقرے میں موجود انگریزی الفاظ کے متبادل کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ اب یہاں دو مختلف زبانوں کے مزاج کا ملغوبا بن جاتا ہے۔ انگریزی کا مزاج الگ ہے، اُردو کا مزاج الگ۔ مثلاً انگریزی لفظ 'Commitment' کے کئی معنی ہیں۔ ہر معنی کے لیے اُردو میں ایک الگ لفظ ہے۔ سپردگی، وابستگی، حوالگی، وفا داری، وعدہ اور ذمے داری وغیرہ۔ اس کا ایک مطلب ارتکاب، بھی ہے۔ خودکُشی کا ارتکاب کیا جاتا ہے(To commit suicide) اب بتائیے کہ ضیاء صاحب کے اس اُردو فقرے میں 'Commitment' کا کون سا متبادل دونوں جگہ استعمال ہو سکتا ہے؟ محض متبادل پر گزارہ کرنا ہو تو محولہ فقرہ شاید یوں بنے گا: "فلاں آدمی کی فلاں کام سر انجام دینے سے ایسی وابستگی تھی کہ اُس نے دوسروں سے کیے ہوئے وعدوں کی کوئی پروا نہ کی"۔
لیجے صاحب! ممدوح کی خوبی بیان کرنے کے پھیر میں اُس کے اندر وعدہ خلافی کے ارتکاب کی خامی پیدا کرنی پڑگئی۔ خاکہ نگار کی یہ خواہش یقیناََ نہیں ہوگی۔ پھر کیا کریں؟ کریں یہ کہ ملغوبا زبان، میں سوچنے کی بجائے اُردو زبان میں سوچیے۔ مسئلے کا حل نکل آئے گا۔
ہمارے ہاں بابائے اُردو مولوی عبدالحق سمیت بہت سے ایسے لوگ گزرے ہیں جنھیں اپنے کام سے اتنا والہانہ عشق تھا (یا اپنے نصب العین سے اس قدر مخلص تھے) کہ زندگی کے دیگر معاملات سے بے پروا رہے۔ رئیس فروغؔ (دادا)کے اس شعر کو بہت فروغ ملا کہ
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
اُردو میں سوچیے تو اسی بات کو شاید یوں بھی لکھا جا سکے: "اُنھیں اپنے اس کام کی ایسی دُھن تھی کہ دوسرے کاموں کے لیے اُن کے پاس وقت نہ تھا"۔
سماجی ذرائع ابلاغ پر ملغوبا زبان، کے اثرات زیادہ نظر آتے ہیں۔ مثلاً: "آج میں یہ اسٹوری آپ سے شیئر کر رہا ہوں"۔
جو لوگ ملغوبا زبان، استعمال نہیں کرنا چاہتے، وہ نامطلوب انگریزی الفاظ کے متبادل کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ کامیاب لوٹتے ہیں اور اسی فقرے کو یوں لکھتے یا بولتے ہیں کہ"آج میں اس کہانی کا آپ سے اشتراک کر رہا ہوں"۔
بات وہیں کی وہیں رہی۔ یعنی فقرے کی ساخت تو ملغوبا زبان، ہی کی رہی۔ بس اسے متبادل اُردو الفاظ میں پیش کر دیا گیا۔ اُردو میں سوچا تو اقبالؔ کا ایک مصرع یاد آیا: "قصۂ درد سُناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم"۔ پس محولہ بالا فقرہ اگر اُردو کے مزاج میں ڈھال کر بولا یا لکھا جائے تو شاید کچھ اس طرح کا ہو جائے کہ"آج میں یہ قصہ آپ کو سنارہا ہوں"۔ یا "آج میں یہ قصہ آپ کے لیے تحریر کر رہا ہوں"۔
اس طرح کے اور فقرے بھی سماجی ذرائع ابلاغ پر اسی کڈھب انداز میں ذوق اور وجدان کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔
"میں اس حسین وادی کی تصویر کا آپ سے سانجھا کر رہا ہوں"۔ وہی متبادل الفاظ تلاش کرنے کی جستجو۔
یا "اس وڈیو کلپ کا آپ سے بٹوارا کیا جا رہا ہے"۔
یا "میں اس گروپ میں اپنی غزل کی شراکت کرنا چاہتا ہوں"۔
ارے صاحب! ملغوبا زبان سے کام نہ لیجے۔ اُردو زبان سے مزاج آشنائی کیجیے۔ پھر شاید اس طرح کے فقرے اپنی بہار دکھائیں:
"میں اس حسین وادی کی تصویر اپنے ناظرین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں"۔
"یہ بصریہ آپ کی بصارتوں کی نذر ہے"۔
"اس محفل میں اپنی غزل عرض کرنا چاہتا ہوں"۔ وغیرہ وغیرہ (عرض کرنے کا مطلب بھی پیش کرنا ہی ہے)
شاید آپ محسوس کریں کہ جو فقرے اُردو کے مزاج کے مطابق تحریر کیے گئے ہیں اُن میں روانی ہے، مٹھاس ہے، دل کَشی ہے۔ یہ فقرے نگاہوں اور سماعتوں کو بھلے لگتے ہیں۔ مفہوم وہی رہتا ہے جو ملغوبا زبان، یا اس کے متبادل الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حاصلِ کلام یہ کہ اُردو میں لکھتے ہوئے یا اُردو میں خطاب کرتے ہوئے اگر اُردو ہی میں سوچیں، ملغوبا زبان، کے متبادل نہ کھوجتے پھریں تو اُردو کی شیرینی سے سجے سجائے فقرے وجود میں آجائیں گے۔ اصطلاح سازی میں بھی اسی اُصول کو سامنے رکھا جائے گا۔
محض لفظی ترجمہ کیجیے تو 'Mouse' کو اُردو میں چوہا یا چوہیا کہنا پڑے گا، جو اُردو کی نفاستِ طبع کو ناگوار ہوگا۔ پہلے یہ دیکھیے کہ اس آلے کا مقصد کیا ہے؟ اشارہ کرنا۔ تو کیوں نہ اِسے مُشار، کہا جائے۔ مُشار کا مطلب ہے اشارہ کرنے والا۔ مُشار کا لفظ نامانوس یا مشکل محسوس ہو تو محض اشارہ، کہہ لیجے۔ چوک چوراہوں پر گاڑیوں کے اِزدحام کو ٹھہرانے اور رواں کے لیے جو 'Signal' نصب کیے جاتے ہیں، اُنھیں ہمارے راولپنڈی/ اسلام آباد میں ہر شخص اشارہ، ہی کہتا ہے۔ اپنے کرانچی، کے بابوؤں کی طرح سنگل، کوئی نہیں کہتا۔ "اشارہ بند ہوگیا"۔ "اشارہ کھل گیا"۔ "پچھلا اشارہ"۔ "اگلا اشارہ"۔ اُن کا اشارہ جان سے پیارا۔
آج کل ہر سماجی ذریعۂ ابلاغ پر لوگ اپنی اپنی چیزیں 'Post'کرتے ہیں۔ شاید اس کا متبادل لفظ کسی کو اب تک نہیں مل سکا۔ ملے بھی کیسے؟ انگریزی کے اس لفظ کے اُردو میں اتنے متبادل ہیں کہ خدا کی پناہ۔ خطوط یا دیگر اشیا بھیجنے کا عمل۔ اشتہار دینا۔ تقرری کرنا۔ بطورِ سابقہ بعد یا پیچھے کے عمل کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ کھمبا، ستون، کھونٹا، بَلّی اور بانس بھی'Post' ہے۔ چسپاں، کرنے کے معنوں میں بھی 'Post' بولا جاتا ہے۔ انگریزی- اُردو ڈکشنری کھولیے تو اور بھی کئی متبادل مل جائیں گے۔ مگر آپ ذرا اُردو میں سوچیے کہ اس عمل کو آپ کیا کہیں گے؟ اس عاجز کی رائے میں تو یہ مراسلہ، یا ترسیل، ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟