پچھلے کالم میں بات اَدھوری رہ گئی تھی۔ پوری بات یہ ہے کہ برصغیر میں ذریعۂ تعلیم بدل جانے کے اثرات ہر شعبۂ حیات پر پڑے۔ فقط درس گاہوں میں نقل کا رجحان عام نہیں ہوا، زندگی کے تمام معاملات میں لوگ محض نقّال بن کر رہ گئے۔ پیچھے دیکھ اور آگے چل۔ نقّالی کہاں نہیں؟ عدالت کی زبان انگریزی، لہٰذا عدالتی اُمور میں انگریزوں کی نقّالی۔ دفاتر کی زبان انگریزی، لہٰذا دفتری اُمور میں انگریزوں کی نقّالی اور قانون سازی کی زبان انگریزی، لہٰذا پارلیمانی اُمور میں انگریزوں کی نقّالی، وغیرہ وغیرہ۔ نقّال خواہ کتنی ہی عمدہ نقّالی کیوں نہ کرنے لگے، رہے گا نقّال کا نقّال۔ جب تک محض نقّال رہے گا، تب تک تحقیق کرسکے گا، نہ ایجاد کرسکے گا، نہ پیشوائی و پیش قدمی۔
پیش قدمی کیسے ہو؟ اِقدام کرنے والے ہی مرعوب ہیں۔ کسی قوم کی اشرافیہ محض سیاسی غلام ہو تو یہ غلامی اِس قدر تباہ کُن نہیں ہوتی، جس قدر ہلاکت خیز اُس کی ذہنی غلامی اور فکری مرعوبیت ہوجاتی ہے۔ اشرافیہ کی ذہنی غلامی پوری قوم کو اُس وقت تک تباہی و بربادی سے دوچارکیے رکھتی ہے جب تک وہ فکری محکومیت و مرعوبیت میں مبتلا رہتی ہے۔ ذہنی وفکری غلامی کی بیڑیوں میں سے سخت ترین شکنجہ اُسی زنجیرکا ہے جس نے ہماری نسلوں سے اُن کی زبان چھین لی ہے۔ اپنے دماغ سے سوچنے کی اور ذہنی آزادی کے ساتھ تدبّرو تفکر کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔ اسی ذہنی مرعوبیت کے باعث ہماری قومی حکمتِ عملی تشکیل دینے والوں کے اذہان مکمل ماؤف ہوچکے ہیں۔ ماؤف ذہنوں کو انگریزی کے سوا کوئی چارہ نظر ہی نہیں آتا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے الفاظ میں اقبالؔ کا یہ شکوہ دُہراتا نظر آتا ہے:
نہ اُٹھّا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گِلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی
نہیں اُٹّھا تو اِس میں نئی نسل کا یا نوجوانوں کا کیا قصور؟ ہمارے بچے زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے؟ ، ہماری کِشتِ ویراں میں کاشت کے لیے، ذریعۂ تعلیم کے طور پر، سات سمندر پار کی ایک اجنبی زبان کا پودا لاکرلگادیا گیا، جو ہماری مٹی کی نمی اور ہماری زمین کی زرخیزی کے باوجود ہمارے مطلوبہ برگ و بار نہیں لاسکتا۔ یہ اِس زمین کا پودا ہے ہی نہیں، کتنی ہی آب پاشی کرلو، رہے گا کھڑنک کا کھڑنک۔
اب ذرا وطنِ عزیز میں اس شجرکاری کا تماشا دیکھیے۔ 2009ء میں "قومی تعلیمی حکمتِ عملی" کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ ذریعۂ تعلیم کے طور پر ابتدائی جماعتوں ہی سے بچوں پر انگریزی کو مسلّط کیا جائے گا۔ یہ اُسی فیصلے کی نقّالی تھی جو دو سَو برس قبل کمپنی بہادُر کی استعماری حکومت نے اپنے غلاموں کی قسمت کے فیصلے کے طور پر لکھا تھا۔ انگریزی ذریعۂ تعلیم کے سبب حصولِ تعلیم کی سرگرمی ہمارے بچوں کے لیے ایک پُرلطف اور مسرت آمیز مشغلے کے بجائے ایک ذہنی اذیّت بن گئی۔ اسی باعث حصولِ تعلیم سے بھاگنے والوں کی شرح میں اضافہ ہوا۔
دُنیا بھر کے ماہرینِ تعلیم کا اجماع ہے کہ قومی زبان سے زیادہ مؤثر ذریعۂ تعلیم غیر زبان نہیں ہوسکتی۔ وہ تمام ممالک جو سیاسی، معاشی اور عسکری اعتبار سے دُنیاکے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک میں شمار کیے جاتے ہیں، اپنے بچوں کو اپنی ہی زبان میں تعلیم دیتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان، چین، روس، کوریا اور اِسرائیل۔
یہاں اِسرائیل کا ذکر ذرا دلچسپ اور سبق آموز ہوگا۔ یہود نے فراموشی کے عمیق غاروں میں دفن ہوجانے والی ایک مُردہ زبان عبرانی کو اُس کی قبر سے نکال کر زندہ کردیا۔ 1948ء ہی میں، یعنی اسرائیل کے قیام ہی کے وقت، عبرانی کو اِسرائیل کی سرکاری زبان بنادیا گیا۔ 1953ء میں اِسرائیلی پارلیمان نے قانون سازی کرکے اپنی قدیم "مجلسِ عبرانی زبان"(Hebrew Language Council) کو جو عبرانی زبان کے اِحیا کے لیے دسمبر 1890ء میں قائم کی گئی تھی، " عبرانی اکادمی" کا درجہ دے دیا۔ یہ اکادمی عبرانی زبان سے متعلق تمام اُمور میں ایک مقتدر اِدارے اور مختارِکُل کی حیثیت رکھتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ آج اِسرائیل میں سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت تمام علوم کی تعلیم عبرانی زبان میں دی جاتی ہے۔ بالخصوص سائنسی تحقیق کے شعبے میں اسرائیل کا شمار صفِ اوّل کی اقوام میں کیا جاتا ہے۔ 1966ء میں ایک عبرانی ادیب شمائیل یوسف ایگنن کو ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ 2004ء میں علمِ کیمیا کا نوبیل انعام دو اِسرائیلی کیمیا دانوں ہارون سی چینووَر اور آورم ہرشکو کو دیاگیا۔ آج بلحاظِ آبادی فلسفے کے ڈاکٹروں کی سب سے زیادہ تعداد اِسرائیل میں پائی جاتی ہے۔ مُردہ زبان میں پی ایچ ڈی۔
مُردہ زبان کو زندہ کرنے میں اسرائیلیوں کو ویسی ہی دشواریوں سے گزرنا پڑا جیسے کوئی شخص کسی اجنبی زبان کے جملے کسی معاون کتاب سے پڑھ پڑھ کر بولنے کی کوشش میں گزرتا ہے۔ پہلے عبرانی الفاظ جمع کیے گئے، پھر لغت نگاری کی گئی۔ اِس کے بعد اِصطلاح سازی کا مرحلہ آیا۔ نئی چیزوں کے لیے نئے الفاظ وضع کیے گئے۔ رسم الخط میں ترامیم واضافے کا کام ہوا۔ قواعد، ہجے، تلفظ، رموزِ اوقاف اور صرف ونحو وغیرہ کے اُصول تحریر کیے گئے اور عبرانی تقویم بنائی گئی۔ ہوتے ہوتے آج کی وہ جدید عبرانی تیار ہوگئی جو اسرائیل میں نافذ ہے۔
اُردوکو بھی پاکستان میں نافذ ہونے والے تمام دساتیر میں قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ دستور1956ء کی دفعہ 214 میں انگریزی کی جگہ قومی زبان اُردو کے نفاذ کے لیے بیس برس (یعنی 1976ء تک) کا عرصہ مقرر کیا گیا۔ طے کیا گیا کہ دس سال بعد (یعنی 1966ء میں) قومی زبان کے نفاذ کی سفارشات مدوّن کرنے کے لیے ایک کمیشن مقررکیا جائے گا۔ مگر یہ دستور 1958ء میں ایوب خان کے مارشل لا نے منسوخ کردیا۔ ایوب خان نے 1962ء میں اپنا دستور نافذ کیا۔ دستور1962ء کی دفعہ 215 میں اعلان کیا گیا کہ 1972ء میں ایک کمیشن مقرر کیا جائے گا جو انگریزی کی جگہ اُردو کے نفاذ کے لیے سفارشات مرتب کرے گا۔ مارچ 1969ء میں یحییٰ خان کے مارشل لا نے یہ دستور بھی منسوخ کردیا۔ 1970ء میں ملک کے پہلے انتخابات ہوئے۔ منتخب ہونے والی دستور ساز اسمبلی نے 1973ء میں ایک متفقہ دستور منظور کیا جو آج بھی مؤثر ہے۔ دستور 1973ء کی دفعہ 251 کی شِق (1) میں کہا گیا ہے کہ "پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے اور یومِ آغاز کے پندرہ برس کے اندر اندر (یعنی 14؍ اگست 1988ء تک) اِس کو سرکاری اور دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کرلیے جائیں گے"۔
دفعہ 251 کی شق (2) میں کہا گیا ہے کہ"شِق (1) کے مطابق انگریزی زبان اُس وقت تک سرکاری اغراض ومقاصد کے لیے استعمال کی جاسکے گی جب تک کہ اس کے اُردو سے تبدیل کرنے کے لیے انتظامات نہ ہوجائیں"۔
1979ء میں "مقتدرہ قومی زبان" کے نام سے پاکستان میں پہلا ادارہ قائم کیا گیا جس کا کام دستور ی تقاضوں کے تحت اُردو زبان کے نفاذ کی تیاری کرنا تھا۔ 1983ء تک اس اِدارے نے اپنا کام مکمل کرلیا تھا اور اپنی سفارشات حکومت کو پیش کردی تھیں۔ تاہم وہ سفارشات آج بھی محض سفارشات، ہیں۔ 8 ستمبر 2015ء کو عدالتِ عظمیٰ پاکستان نے بھی اپنے ایک فیصلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حکم دیا کہ وہ آئین کی خلاف ورزی نہ کریں اور اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر اختیار کریں۔ مگراب تک تمام حکومتوں نے قومی زبان کے نفاذ کے آئینی حکم کی تعمیل کے فرض سے مجرمانہ غفلت برتی ہے۔
تو کیا قومی زبان کے ساتھ یہ سلوک ہمیشہ ہوتا رہے گا؟ ہرگز نہیں! ہر رعونت کو زوال آتا ہے۔ ہر عروج کو پستی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ اس کائنات کے خالق کا قانون ہے۔ تختِ اقتدار پر انگریزکا تسلّط نہ رہا تو انگریزی کا بھی نہیں رہے گا۔ عصرِحاضر میں تبدیلیاں تیزی سے رُونما ہورہی ہیں۔ "دم بہ دم منقلب ہیں زمین و زماں، یہ جہاں اور ہے"۔ اقبالؔ کہہ گئے ہیں "جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہوگا، یہی ہے اِک حرفِ محرمانہ"۔ قوم کے کچھ پُرجوش جوانوں میں فوجی جوانوں جیسا جذبۂ پیش قدمی ہے۔ اِن جوانوں کو احساس ہوجانے دیجے۔ عدالتیں، اسمبلیاں، دفاتر، سڑکیں، شاہ راہیں، سب اُردو سے بھر جائیں گی۔ مگر وہ دن کب آئے گا؟ ضروری نہیں کہ کل ہی آجائے۔ پَر وہ دن آئے گا ضرور۔ رات ضرور ختم ہوگی۔ یہ قانونِ الٰہی ہے اور ہمیں پوری اُمیدہے کہ "یہ غم جو اس رات نے دیا ہے، یہ غم سحر کا یقیں بنے گا"۔