Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Arif Anis Malik/
  3. Hum Photocopy Ke Daur Mein Ji Rahe Hain

Hum Photocopy Ke Daur Mein Ji Rahe Hain

ہم فوٹو کاپی کے عہد میں جی رہے ہیں اور شاید آخری اوریجنل پرنٹ ہیں۔

ہم سب اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ مصنوعی ذہانت دنیا کے علم میں اضافہ کر رہی ہے اور ہم ایک "فوق البشر" (Super Human) دور کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہو سکتی ہے۔ سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ہم "علم کے عالمی زوال" کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اس کی سادہ ترین مثال یہ ہے کہ اگر آپ ایک کاغذ کی فوٹو کاپی کریں، پھر اس کاپی کی دوبارہ کاپی کریں اور یہ عمل بار بار دہراتے جائیں، تو آخر میں آپ کے پاس ایک دھندلا سا سیاہ کاغذ رہ جائے گا جس پر کچھ پڑھا نہیں جا سکے گا۔

بدقسمتی سے، ٹیکنالوجی کے ساتھ بالکل یہی ہو رہا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی بنیاد وہ مواد ہے جو انسانوں نے تخلیق کیا تھا، کتابیں، مضامین اور انسانی تجربات۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ تیزی سے مشینوں کے لکھے ہوئے مواد سے بھر رہا ہے۔ جب ان ذہین ماڈلز کو دوبارہ اسی "مشینی مواد" پر تربیت دی جاتی ہے، تو وہ اپنی ذہانت کھونے لگتے ہیں۔ ماہرین اسے "نظام کا انہدام" کہتے ہیں، لیکن آسان الفاظ میں یہ "سمارٹ چول پن" ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ایک ایسے سانپ کی طرح بن چکی ہے جو اپنی ہی دم کھا رہا ہے۔ جب مشین، مشین سے سیکھے گی، تو وہ باریکیاں، وہ جذباتی گہرائی اور وہ "انسانی غلطیاں" ختم ہو جائیں گی جو تخلیقی صلاحیت کی بنیاد ہیں۔

اس کا سب سے بڑا نقصان "تنوع" کا خاتمہ ہے۔ مصنوعی ذہانت "اوسط" کو پسند کرتی ہے۔ یہ ان تمام خیالات، نایاب معلومات اور منفرد زاویوں کو نظر انداز کر دیتی ہے جو مقبول عام نہیں ہوتے۔ شماریات کی زبان میں یہ گراف کے صرف درمیانی حصے کو اہمیت دیتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ہمیں ایک ایسی دنیا کی طرف دھکیل رہی ہے جہاں سب کچھ پھیکا اور یکساں ہوگا۔ موسیقی ہو، تحریر ہو یا فن، سب ایک ہی فارمولے کے تحت بنیں گے اور وہ "دیوانگی" ختم ہو جائے گا جس سے غالب اور آئن سٹائن پیدا ہوتے ہیں۔ ہم نایاب علم کو کھو رہے ہیں کیونکہ حسابی کلیے (Algorithms) صرف اسے ہی اہم سمجھتے ہیں جو کثرت سے موجود ہو۔

یہ تحقیق انسانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ہے اور ایک خوشخبری بھی۔ خطرے کی گھنٹی اس لیے کہ اگر ہم نے اپنی سوچنے کی صلاحیت مشین کو ٹھیکے پر دے دی، تو ہم اپنی اصلیت کھو دیں گے اور صرف "اوسط درجے" کے انسان رہ جائیں گے۔ لیکن خوشخبری یہ ہے کہ مستقبل میں "انسانی تجربہ" سب سے مہنگی کرنسی بن جائے گا۔ مشین مواد کو ترتیب دے سکتی ہے، مگر وہ "بصیرت" اور "وجدان" پیدا نہیں کر سکتی جو انسانی زندگی کی بے ترتیب اور پیچیدہ حقیقتوں سے جنم لیتا ہے۔

لہٰذا، مصنوعی ذہانت کو محض ایک آلہ سمجھیں، استاد نہیں۔ اپنی انفرادیت، اپنی منفرد سوچوں اور اپنے ذاتی تجربات کی حفاظت کریں، کیونکہ آنے والے وقت میں جب ہر طرف مشینی "شور" ہوگا، تو صرف آپ کی "انسانی آواز" ہی وہ چیز ہوگی جو الگ اور حقیقی سنائی دے گی۔ علم کا مستقبل مشین میں نہیں، انسان کے اس منفرد زاویہِ نگاہ میں ہے جسے کوئی حسابی کلیہ نقل نہیں کر سکتا۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran