Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Arif Anis Malik/
  3. Shehzada In America

Shehzada In America

سفارت کاری کی دنیا میں خاموشی اکثر شور سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور واشنگٹن کی حالیہ فضاؤں میں جو کچھ ہوا، وہ محض ایک دورہ نہیں بلکہ ایک نفسیاتی زلزلے کی مانند ہے جس نے پرانی دنیا کے کافی سارے اصولوں کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق الٹیں تو ہمیں 14 فروری 1945 کا وہ دن یاد آتا ہے جب امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ اور شاہ عبدالعزیز کی ملاقات نہر سویز میں کھڑے امریکی بحری جہاز "یو ایس ایس کوئنسی" پر ہوئی تھی۔ وہ ایک سادہ سودا تھا: "امریکہ کو تیل چاہیے تھا اور سعودیہ کو سلامتی"۔ لیکن ٹھیک اسی سال کے بعد، نومبر 2025 کی اس سرد صبح وائٹ ہاؤس کے لان میں جو منظر دنیا نے دیکھا، وہ اس قدیم معاہدے کی توثیق نہیں بلکہ اس کی مکمل "ری سٹرکچرنگ" تھی۔ آج کا سعودی عرب سلامتی مانگنے نہیں آیا تھا، بلکہ وہ اپنی شرائط پر شراکت داری کرنے آیا تھا۔

جب شہزادہ محمد بن سلمان کا قافلہ وائٹ ہاؤس کے ویسٹ ونگ کی طرف بڑھا، تو وہاں ہونے والے غیر معمولی پروٹوکول نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ صدر ٹرمپ کا مہمان کے استقبال کے لیے اپنی روایتی جگہ چھوڑ کر باہر نکلنا اور پھر اوول آفس کے رسمی ماحول کے بجائے، اپنی نجی رہائش گاہ میں چار گھنٹے طویل عشائیہ دینا، یہ سب اس بات کا ثبوت تھا کہ اب تعلقات کی نوعیت بدل چکی ہے۔ سفارتی نفسیات میں اسے "اسٹیٹس شفٹ" کہا جاتا ہے، جہاں مہمان کی حیثیت ایک ضرورت مند اتحادی سے بڑھ کر ایک "برابر کے شریک" کی ہو جاتی ہے۔ ایف-35 طیاروں کی گرج دار سلامی نے واشنگٹن کے آسمان پر یہ پیغام تحریر کر دیا کہ امریکہ اب مشرقِ وسطیٰ میں توازن کے لیے صرف ایک ہی دروازے کو پہچانتا ہے اور وہ ریاض کا دروازہ ہے۔

اس ملاقات کی سب سے حیران کن بات وہ دستاویزی معاہدے ہیں جن کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی ہے۔ بات اب کروڑوں یا اربوں کی نہیں رہی، بلکہ ایک ایسی نفسیاتی رکاوٹ عبور کر لی گئی ہے جس کا تصور محال تھا۔ مجموعی طور پر ایک اعشاریہ دو ٹریلین ڈالر کے معاشی روڈ میپ پر اتفاق کیا گیا ہے۔ یہ ہندسہ اتنا بڑا ہے کہ کئی یورپی ممالک کی مجموعی معیشت بھی اس کے سامنے بونی نظر آتی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ سرمایہ کاری کہاں ہو رہی ہے۔ ماضی کے برعکس، یہ معاہدے تیل کے کنوؤں کے لیے نہیں، بلکہ ڈیٹا سینٹرز، مصنوعی ذہانت اور سیمی کنڈکٹر چپ ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب نے امریکہ کے صنعتی علاقوں، جنہیں "رسٹ بیلٹ" کہا جاتا ہے، میں تین لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنے کا وعدہ کرکے امریکی ووٹر کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ یہ ایک ایسا "اسٹریٹجک ماسٹر اسٹروک" ہے جس نے وائٹ ہاؤس میں موجود ہر مخالف آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔

میڈیا کے محاذ پر بھی ایک دلچسپ نفسیاتی جنگ دیکھنے کو ملی۔ جب پریس بریفنگ کے دوران پرانے اور تلخ سوالات اٹھائے گئے، تو ولی عہد کا ردعمل دفاعی نہیں بلکہ جارحانہ حد تک پُرسکون تھا۔ انہوں نے صحافیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خاموشی کا ایک طویل وقفہ لیا اور پھر مسکراتے ہوئے کہا کہ ماضی کی راکھ کریدنے والے کبھی مستقبل کی عمارت نہیں بنا سکتے۔ یہ لمحہ "لیڈرشپ پریزنس" کی بہترین مثال تھا، جہاں انہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ مغرب کی اخلاقی عدالت میں صفائی دینے نہیں آئے، بلکہ اپنی قوم کے مستقبل کا مقدمہ جیتنے آئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا ان سوالات کے دوران ڈھال بننا اور یہ کہنا کہ "ہم آگے بڑھ چکے ہیں"، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عالمی طاقتیں جذبات پر نہیں، مفادات پر چلتی ہیں۔

دفاعی میدان میں بھی جو کچھ طے پایا وہ کسی "سائنس فکشن" سے کم نہیں۔ امریکہ نے پہلی بار سعودی عرب کو اپنے انتہائی حساس "لیزر ڈیفنس سسٹم" اور نیوکلیئر انرجی پروگرام تک رسائی دینے کا عندیہ دیا ہے، جسے کبھی "ریڈ لائن" سمجھا جاتا تھا۔ یہ معاہدہ سعودی عرب کو عملی طور پر "نیٹو پلس" کا درجہ دیتا ہے، جو کہ خطے میں طاقت کے توازن کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گا۔ یہ محض ہتھیاروں کی خریداری نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی ہے جو ریاض کو اپنی دفاعی صلاحیتوں میں خودکفیل بنائے گی۔

آخر میں، یہ دورہ ہمیں قیادت کا ایک بڑا سبق دیتا ہے۔ محمد بن سلمان نے ثابت کر دیا ہے کہ جب آپ اپنی قوم کو معاشی طور پر مضبوط اور ذہنی طور پر آزاد کر لیتے ہیں، تو دنیا کا پروٹوکول خود بخود بدل جاتا ہے۔ 1945 میں جو رشتہ "ضرورت" کی بنیاد پر شروع ہوا تھا، 2025 میں وہ "طاقت" اور "باہمی انحصار" کے رشتے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ واشنگٹن کی ہواؤں میں اب یہ سرگوشی صاف سنائی دے رہی ہے کہ مستقبل کا نقشہ اب صرف مغرب میں بیٹھ کر نہیں بنایا جائے گا، بلکہ اس میں مشرق کی رضا بھی شامل ہوگی۔ یہ فتح کسی ایک شخص کی نہیں، بلکہ اس "وژن" کی ہے جس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔

تاہم سیاست میں کوئی بھی لنچ مفت نہیں ہوتا اور ایک اعشاریہ دو ٹریلین ڈالر کا یہ معاہدہ محض سرمایہ کاری نہیں، بلکہ ایک بہت بڑا "اسٹریٹجک جوا" (Gamble) ہے۔

دورے کا تنقیدی پہلو بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ سب سے پہلا اور اہم سوال "انحصار کی نئی شکل" کا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب نے ٹیکنالوجی حاصل کر لی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جدید ترین سیمی کنڈکٹر چپس اور لیزر ڈیفنس سسٹم حاصل کرکے ریاض نے خود کو واشنگٹن کے "تکنیکی ایکو سسٹم" میں مزید جکڑ لیا ہے۔ جو ہاتھ آپ کو سسٹم انسٹال کرکے دیتا ہے، وہ ہاتھ اس کا "ماسٹر سوئچ" بھی اپنے پاس رکھتا ہے۔ کیا یہ خود مختاری ہے یا پھر "سنہری ہتھکڑیاں"؟ اگر کل کو واشنگٹن کا موڈ بدلتا ہے، تو کیا سعودی عرب کا دفاعی اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر ایک بٹن دبنے سے مفلوج نہیں ہو جائے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو بند کمروں میں لیڈروں کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی ہے۔

دوسرا اہم پہلو "ٹرمپ فیکٹر" ہے۔ صدر ٹرمپ کی پالیسی نظریاتی نہیں، بلکہ خالصتاً "لین دین" (Transactional) پر مبنی ہے۔ ان کی دوستی اقدار کی بنیاد پر نہیں، بلکہ "ڈیل" کی بنیاد پر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے لیڈروں کا موڈ موسم کی طرح بدلتا ہے۔ یہ ساری کامیابیاں ایک شخص اور ایک انتظامیہ کے گرد گھوم رہی ہیں۔ اگر امریکی سیاست میں کل کوئی تبدیلی آتی ہے، یا "امریکی فرسٹ" کا نعرہ کسی اور سمت مڑتا ہے، تو کیا ریاض کے پاس "پلان بی" موجود ہے؟ امریکہ کی اندرونی سیاست کا عدم استحکام اس پارٹنرشپ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنے کی حکمت عملی، چاہے وہ ٹوکری سونے کی ہی کیوں نہ ہو، ہمیشہ خطرات سے گھری ہوتی ہے۔

تیسرا چیلنج خطے کا "توازنِ خوف" ہے۔ امریکہ کا سعودی عرب کو "نیٹو پلس" کا درجہ دینا اور جوہری صلاحیت کا اشارہ دینا، تہران اور تل ابیب میں خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔ یہ دورہ مشرقِ وسطیٰ میں "ہتھیاروں کی نئی دوڑ" شروع کر سکتا ہے۔ جب آپ ایک سپر پاور کے اتنے قریب ہو جاتے ہیں، تو آپ خود بخود دوسری طاقتوں کے "ٹارگٹ بورڈ" پر آ جاتے ہیں۔ کیا سعودی معیشت، جو ابھی "وژن 2030" کے تحت خود کو تعمیر کر رہی ہے، کسی نئی علاقائی کشیدگی کا بوجھ اٹھانے کی متحمل ہو سکتی ہے؟

آخر میں، سب سے بڑا چیلنج "عمل درآمد" کا ہے۔ کاغذ پر اربوں ڈالر کے معاہدے کرنا آسان ہے، لیکن اسے زمین پر اتارنا ایک الگ سائنس ہے۔ امریکی ٹیکنالوجی کو سعودی کلچر میں ضم کرنا اور مقامی ورک فورس کو اس جدید ترین سسٹم کے لیے تیار کرنا، یہ وہ پہاڑ ہے جسے سر کرنا ابھی باقی ہے۔ تاریخ ایسے معاہدوں کے قبرستان سے بھری پڑی ہے جو ہیڈ لائنز میں تو شاندار تھے مگر حقیقت کی زمین پر دم توڑ گئے۔ اگلے آنے والے تین سال بتائیں گے کہ اس دورے نے مستقبل پر کیا اثر چھوڑا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran