Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Arif Anis Malik/
  3. Wardi Aur Riyal Ka Naya Ehad Nama

Wardi Aur Riyal Ka Naya Ehad Nama

ریاض کے آسمانوں پر سعودی فضائیہ کے F-15 طیاروں نے اپنی گھن گرج سے فضا کو چیرا اور مسکین برادر ملک پاکستان کے وزیر اعظم کے طیارے کو غیرمعمولی خوش آمدید کہتے ہوئے ہوائی سلیوٹ پیش کیا۔ پاکستانی طیارے میں ایک طرف پاکستان کے سویلین چہرے، وزیراعظم شہباز شریف، جن کے لبوں پر ایک ہلکی سی، رسمی مسکراہٹ تھی اور دوسری طرف پاکستان کے طاقتور آرمی چیف، فیلڈ مارشل عاصم منیر سنجیدہ چہرے کے ساتھ موجود تھے۔

یہ شاہی سلامی بظاہر دونوں کے لیے تھی، مگر سفارت کاروں، فوجی افسروں اور اقتدار کے کھیل کو سمجھنے والوں کی نگاہیں صرف ایک شخص پر مرکوز تھیں: فیلڈ مارشل جنرل منیر۔ طاقت کی اس کوریوگرافی میں، سب کچھ واضح تھا: ریاض اگر کسی پر بھروسہ کرتا ہے، تو وہ یہی شخص ہے۔ اس سلامی کے پیچھے، سعودی عرب اور ایٹمی طاقت پاکستان کو ایک باقاعدہ دفاعی اتحاد میں باندھنے والے معاہدے (ایس ڈی ایم اے) کی سیاہی ہے۔

نصف صدی تک، پاکستان ریاض کی سایہ دار ڈھال رہا ہے۔ 1980 کی دہائی میں فوجی تربیت دینے والے پہنچے، 1982 تک، ایک پروٹوکول نے سعودی عرب میں ایک ڈویژن پاکستانی فوج کو تعینات کیا۔ 1990 میں جب صدام نے کویت پر حملہ کیا، تو اسلام آباد نے مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے ہزاروں مزید دستے بھیجے۔

سعودی شہزادوں نے تب وہ سوچا جو ان کے لیے آئیڈیل تھا: جب سعودی خودمختاری خطرے میں ہوگی، تو پاکستانی فوجی مکہ اور مدینہ کی حفاظت کے لیے جان لڑا دیں گے۔ ایک ریٹائرڈ سعودی کرنل نے یاد کیا، "پاکستانی ہم پر حملہ کرنے والوں کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے، مستعار تھے لیکن قابلِ اعتماد تھے"۔

یہ معاہدہ اب کیوں؟ کیونکہ ستمبر 2025 کا ریاض پرانے سہاروں پر مزید تکیہ کرنے کو تیار نہیں۔ امریکی-سعودی سیکیورٹی معاہدہ امریکی کانگریس کی بھول بھلیوں میں اٹکا ہوا ہے، جبکہ غزہ کی جنگ اور دوحہ پر اسرائیلی فضائی حملوں نے امریکی ضمانتوں کا بھرم توڑ دیا ہے۔ جیسا کہ ایک سابق سی آئی اے تجزیہ کار نے کہا، "سعودیوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنا سارا وزن ایک ہی پالنے میں نہیں ڈالیں گے"۔ دوسری طرف، پاکستان معاشی آکسیجن کے لیے بے تاب ہے۔ ریاض نے حال ہی میں اربوں ڈالر کے تیل کی ادائیگیوں کو مؤخر کیا ہے اور مزید اربوں کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی۔ اسلام آباد کے لیے یہ معاہدہ زندگی کی سانس ہے اور ریاض کے لیے تزویراتی گہرائی ہے۔

مگر اصل تبدیلی ذاتی سطح پر آئی ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر راولپنڈی میں ریاض کے فیورٹ آدمی بن چکے ہیں۔ انہوں نے خفیہ دوروں اور مشترکہ سیکیورٹی ایجنڈوں کے ذریعے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ اعتماد کا قریبی رشتہ قائم کیا ہے۔ سعودی حکام انہیں ایک ایسے ٹھوس اور مستحکم کردار کے طور پر دیکھتے ہیں جو وعدے نبھانا اور نتائج دینا جانتا ہے۔ جیسا کہ خلیج کے ایک باخبر ذریعے نے کہا، "یہ منیر ہے جو اس معاہدے کا ضامن ہے، نہ کہ پاکستان کی پارلیمنٹ۔ سعودیوں نے وردی پر شرط لگائی ہے، سوٹ پر نہیں"۔

ریاض کے لیے، بیلنس شیٹ واضح ہے: پاکستان دباؤ کے باوجود کام کرتا ہے۔ اس کے افسر تربیت دیتے ہیں، اس کے فوجی تعینات ہوتے ہیں، اس کے فوجی جان مارتے ہیں۔ سعودی بل ادا کرتے ہیں، پاکستان ڈھال فراہم کرتا ہے۔

دہلی اس تمام صورتحال کو شدید بے چینی سے دیکھ رہا ہے۔ مئی 2025 کے بحران نے یہ زخم تازہ کر دیے ہیں کہ چھوٹی جھڑپیں کتنی تیزی سے ایک بڑے تصادم میں بدل سکتی ہیں۔ ایک سعودی-پاکستانی دفاعی معاہدہ بھارتی منصوبہ سازوں کے لیے بھیانک خوابوں کو جنم دیتا ہے۔ کیا پاکستانی افواج خلیجی سرزمین کو استعمال کر سکیں گی؟ کیا سعودی ریال اسلام آباد کے ایٹمی پٹھوں کو مزید مضبوط کرے گا؟ اگرچہ سعودی سفارتکار دہلی کو یقین دہانیاں کرا رہے ہیں، مگر علامات کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ شہزادہ سلمان کا شریف اور منیر کو یوں سرعام گلے لگانا، شاہ فیصل کے پاکستان کی جانب واضح جھکاؤ کی یادیں تازہ کر دیتا ہے۔

اور پھر وہ ایٹمی بھوت ہے جو اس معاہدے پر منڈلا رہا ہے۔ حتمی متن میں لفظ "نیوکلیئر" کو احتیاط سے حذف کر دیا گیا ہے، لیکن سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ ابتدائی مسودوں میں"جامع روک تھام" (comprehensive deterrence) جیسے جملے موجود تھے۔ یہ ابہام جان بوجھ کر چھوڑا گیا ہے۔ ایک سابق امریکی سفیر کے بقول: "سعودیوں کو میزائل نہیں چاہئیں، انہیں یقین چاہیے – تہران اور دہلی میں یہ پیغام پہنچانے کے لیے، کہ اگر بات حد سے بڑھی تو پاکستان ایک حفاظتی چھتری فراہم کرے گا۔ یہ معاہدہ اسی بات کی سرگوشی ہے"۔ اسلام آباد میں یہ سرگوشیاں اب کافی بلند ہو چکی ہیں۔

مجموعی طور پر، یہ معاہدہ خلیج کے سیکیورٹی نقشے کو از سر نو ترتیب دیتا ہے: سعودی تیل کی تنصیبات کی حفاظت کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی، پاکستانی افواج کی خطے میں وسیع تر تعیناتی، ڈرون اور گولہ بارود کی مشترکہ پیداوار اور بحیرہ عرب و بحیرہ احمر میں مشترکہ بحری گشت۔ یہ سب کچھ مل کر ایک نیا دفاعی بلاک تشکیل دیتا ہے اور پاکستان کو ایک مسکین کزن ملک کی بجائے خطے کی ایٹمی طاقت کی کرسی پر بٹھاتا ہے جو سب سے خوش آئند بات ہے۔

اس دفاعی معاہدے کے اٹرات بھی گہرے ہیں۔ بھارت اسے پاکستان کی جارحیت کے لیے ایک کھلی چھوٹ سمجھ سکتا ہے۔ پاکستان کی یہ نئی اٹھان کافی حد تک آپریشن سندور کو آپریشن تندور میں بدلنے کی وجہ سے ہے۔ ایک گبھرو پاکستان جس کی جیب ریالوں سے بھری ہوئی ہے، بھارت کے لیے ڈراونا خواب ہے۔ پاکستانی وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کو دیے جانا والا پروٹوکول صدر ٹرمپ کی ٹکر کا ہے اور اس سے خطے میں بہت سے لوگوں کی نیند حرام ہوگی۔ اب کم چانس ہے کہ ایران اسے اپنے خلاف ایک سنی ایٹمی چھتری، کے طور پر دیکھے کہ اب سعودی ایران معاملاتِ اتنے نوکدار نہیں رہے ہیں۔ تاہم واشنگٹن، جس کا اپنا معاہدہ کھٹائی میں پڑا ہے، اس نئی قربت پر پیچ و تاب کھا سکتا ہے۔ پاکستان کے اندر، فوج کا سیاسی اثر و رسوخ مزید گہرا ہوگا، ریاض کی آشیرباد سے، جنرل منیر کا ہاتھ اسلام آباد کی سیاست پر پہلے سے کہیں زیادہ بھاری ہو سکتا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran