Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Asad Tahir Jappa/
  3. Akhri Qarz

Akhri Qarz

سول سروس میں بیج میٹس دراصل کالج یا یونیورسٹی میں ایک ساتھ پڑھنے والے ہم جماعت ہی ہوتے ہیں۔ یہ تعلق قومی سطح پر مقابلے کے سی ایس ایس امتحان، جو چار مختلف مرحلوں میں مکمل ہوتا ہے، میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد سول سروسز اکیڈمی لاہور میں شروع ہو کر عمر بھر کی رفاقت میں بدل جاتا ہے۔ اکیڈمی میں تمام گروپس کے نو منتخب افسران مشترکہ تربیت کے مختلف مراحل سے گزر کر آپس میں ایک گہرے اور دیرپا تعلق میں منسلک ہو جاتے ہیں۔ اکیڈمی کی انتظامیہ مختلف صوبوں اور سروس گروپوں سے تعلق رکھنے والے زیر تربیت افسران کو تمام سرگرمیوں کے ذریعے میل جول کے بے پناہ مواقع فراہم کرتی ہے، جس سے ایک دوسرے کی شخصیت اور مزاج شناسی نسبتاً آسان ہو جاتی ہے۔

فیلڈ پوسٹنگ کے شروع کے دو چار سالوں میں سب بیج میٹس کی منگنی، نکاح اور شادی بیاہ کا وقت آن پہنچتا ہے۔ ان مواقع پر بیشتر قریبی دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے، جبکہ اکثر احباب دوسرے صوبوں یا دور دراز اضلاع میں تعینات ہونے کی وجہ سے میل ملاپ کو تسلسل سے آگے نہیں بڑھا سکتے۔ اس طرح اکیڈمی میں جذباتی بنیادوں پر قائم ہونے والے تعلقات چند سالوں کے بعد مختلف کٹھن آزمائشوں سے گزرنے لگتے ہیں اور بیشتر بیج میٹس سے ملاقات کیے ہوئے ایک زمانہ بیت جاتا ہے۔

فارن سروس آف پاکستان کے احباب کا زیادہ تر وقت بیرونِ ممالک میں گزر جاتا ہے اور بعد میں یہ بھی نہیں پتہ چلتا کہ کون کب کس ملک میں پوسٹنگ پر گیا اور کون فارن آفس اسلام آباد میں اپنے فرائضِ منصبی انجام دے رہا ہے۔ یوں گردشِ ایام تمام بیج میٹس کو تسبیح کے دانوں کی طرح پروئے ہونے کے باوجود بکھرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وقت کا سیلِ رواں آگے بڑھ جاتا ہے اور سب دوست ترقی پاتے پاتے انتہائی ذمہ دار عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں تو سرکاری امور اور بے پناہ ذمہ داریاں انہیں بری طرح گھیر لیتی ہیں۔

دوسری طرف کچھ صاحبان سرکاری پروٹوکول، سماجی مقام و مرتبہ اور بڑھتے ہوئے اختیارات کے باعث خود کو دوسرے بیج میٹس سے ممتاز اور منفرد سمجھتے ہوئے الگ تھلگ کر لیتے ہیں کہ جیسے وہ اب ان کے ہم پلہ نہیں رہے۔ ان ہی میں سے کچھ افسران مطلبی اور خود غرض عناصر کی خوشامد اور چاپلوسی کے باعث خود پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یوں بیج میٹس کے گہرے اور دیرپا تعلق کو مختلف تلخ سچائیوں کے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ طاقت، عزت، دولت اور اختیارات سے کچھ لوگ بدل جاتے ہیں اور کچھ بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ یوں وہ سول سروس اکیڈمی والی گرمیِ جذبات کمزور پڑنے لگتی ہے اور ملاقاتیں کم ہونے لگتی ہیں۔ ویسے بھی آج کل سوشل میڈیا ایک دوسرے کی خیر خیریت سے آگاہ رہنے کا ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے، مگر یہ بالمشافہ ملاقات کا نعم البدل تو ہرگز نہیں۔

ہاں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ سب احباب ایک سے نہیں ہوتے اور ان میں چند ایک پر بڑھتے ہوئے اختیارات اور گریڈز میں ترقی کا کوئی منفی اثر نہیں پڑتا اور ان کی شخصیت اور مزاج میں وہی بانکپن، بے تکلفی اور مروّت کے جذبات بدستور قائم رہتے ہیں۔ ہمارے بیج میٹس میں بھی چند ایسے اصلی اور نسلی احباب میں سے ایک محمد شریف خان تھا۔ اس نے گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط ہمارے تعلقات کو اسی اخلاص، احساس اور وضعداری سے نبھایا جو سول سروس اکیڈمی میں اس کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔

ہمارے بیج کے واٹس ایپ گروپ میں وہ اسی سادگی اور معصومیت سے شرارتیں کرتا اور شغل لگائے رکھتا۔ گزشتہ مئی کے مہینے میں شریف خان دل کے عارضے میں مبتلا ہوا، حالت زیادہ بگڑی تو وینٹی لیٹر پر چلا گیا۔ بلاشبہ یہ خبر تمام احباب کے لیے باعثِ تشویش تھی۔ پشاور میں تعینات دوستوں کے ذریعے اس کی صحت میں کبھی بہتری کی خبر ملتی تو کسی روز مایوسی کی باتیں ہمارے 29 کامن کے واٹس ایپ گروپ میں شیئر کی جاتیں۔ چند روز قبل شریف خان ہم سب کو چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سویا اور اب ہم اس کی تصاویر کے اسٹیٹس لگائے اس کی مغفرت کی دعائیں کرتے پھر رہے ہیں۔

میں یہاں برطانیہ کے شہر لیسٹر میں اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم و تحقیق کے دائروں میں قید ہوں اور اسی طرح ہمارے فارن سروس آف پاکستان کے بیشتر بیج میٹس بھی بیرونی ممالک میں اپنے فرائضِ منصبی انجام دے رہے ہیں۔ مگر تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں شریف خان کی انتہائی خطرناک حد تک بگڑتی ہوئی صحت کے باوجود پاکستان میں موجود احباب میں سے کتنے اس کو اسپتال میں جا کے مل پائے تھے۔ میرا خیال ہے صرف چند ایک جو پشاور یا کے پی کے دیگر علاقوں میں تعینات ہیں۔ مجھ سمیت ہماری واضح اکثریت موت کے منہ میں جاتا دیکھنے کے باوجود شریف خان کو آخری مرتبہ بھی نہیں مل سکے۔ شاید یہی اس زندگی کی کڑوی حقیقت اور مجبوریِ حالات بھی ہے۔

اب جبکہ وہ آسودہ خاک ہو چکا ہے تو میں رات کے اس پچھلے پہر، یہاں لیسٹر میں اپنے بستر پر شریف خان کے ساتھ وابستہ یادوں کی پوٹلیاں کھولے بیٹھا، اس کی سادگی، اخلاص اور شرافت کی گواہی دیتے ہوئے یہ منصوبہ بندی کر رہا ہوں کہ اب کی بار پاکستان جاؤں گا تو پشاور میں تعینات ڈاکٹر فاروق جمیل جیسے پیارے بیج میٹ کی مدد سے شریف خان کی قبر پر گلاب کے چند پھولوں کی پتیاں ڈال کر اس کے لیے دعا کروں گا، کیونکہ جانے والوں کا ہم پر آخری قرض یہی رہ جاتا ہے۔ ساغر صدیقی نے سچ ہی تو کہا تھا:

یاد رکھنا ہماری تربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran