Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Asad Tahir Jappa/
  3. Farishte Se Behtar Insan

Farishte Se Behtar Insan

عمران عباس چدھڑ ہمارے ساتھ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب ہوکر پنجاب بھر سے تعلق رکھنے والے دوسو پچاسی پولیس انسپکٹرز میں شامل تھا۔ اس انتخاب کے بعد ہم سب نے جولائی 1998 میں اپنے اپنے آبائی ڈویژن میں شمولیت اختیار کی تو عمران عباس نے گوجرانولہ پولیس میں ملازمت کا آغاز کیا۔

ستمبر میں ہم سب پولیس کالج سہالہ جاپہنچے جہاں ہم کم و بیش تیرہ ماہ تک پیشہ ورانہ تربیت کے کھٹن مراحل سے گزرے اور اس کے بعد ہمارا سارا بیج ایلیٹ پولیس سکول بیدیاں روڈ لاہور آن پہنچا جہاں ہم سب نے تین ماہ پر مشتمل کمانڈو ٹریننگ کورس مکمل کیا۔ اس کے بعد ہم اپنے اپنے اضلاع میں واپس پہنچے اور پولیس پریکٹیکل ورک کے لئے ایک منجھے ہوئے تجربہ کار ایس ایچ او کی زیر نگرانی ڈی کورس کی عملی تربیت سے گزر کر بالآخر بطور آفیسر مہتمم تھانہ تعینات ہوئے۔ اس تمام تربیتی پروگرام کا دورانیہ کم و بیش دو سال پر محیط تھا۔

بلاشبہ ہماری تربیت کے تمام مراحل کو انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں ترتیب دیا گیا تھا کیونکہ ہماری سلیکشن کا مقصد روائتی تھانہ کلچر کا خاتمہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹریننگ کے دوران پولیس فورس کو پولیس سروس میں تبدیل کرنے لئے ہماری ذہن سازی کی گئی، اس کے علاوہ اخلاقی پختگی اور ذاتی کردار کی تعمیر و تشکیل پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے بیج کو میدان عمل میں اتارا گیا تو بطور آفیسر مہتمم تھانہ ہمارے بیج میٹس کی واضح اکثریت نے ایک طرف جرائم پیشہ افراد پر قافیہ حیات تنگ کیا تو دوسری طرف عام شہریوں میں احساس تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے عوام دوست پولیس کے تاثر کو تقویت دی۔

میں نے 2001 میں سی ایس ایس امتحان پاس کیا اور فروری 2002 میں سول سروسز اکیڈمی جوائن کر لی مگر اب بھی اپنے پولیس والے احباب سے مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ ہمارے بیج میں جن دوستوں نے بطور کرائم فائٹر شہرت کمائی اور شرپسند عناصر اور قانون شکن افراد کو آہنی ہاتھوں سے نپٹ کر الجھے ہوئے بلائنڈ کیسز کو انتہائی پیشہ ورانہ مہارت سے سلجھا کر حسب ضابطہ یکسو کیا ان میں گوجرانولہ ڈویژن میں تعینات عمران عباس چدھڑ نے نمایاں حیثیت حاصل کی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کی وردی میں ملبوس ایک کرائم فائٹر آفیسر کی زندگی میں یہ تبدیلی کب وقوع پذیر ہوئی اور وہ کس طرح پنجاب بھر میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لئے امید کی آخری کرن بن کر سامنے ابھرا۔ میرے استفسار پر عمران نے مجھے بتایا کہ گو جرانوالہ میں وہ ڈیوٹی پر مامور تھا اور ایک رات گھپ اندھیرے میں ملازمین کے ہمراہ بذریعہ سرکاری گاڑی گشت کر رہا تھا کہ چھچھر والی نہر کے پاس انہوں نے ایک عورت دیکھی جو نہر میں کود کر خودکشی کرنے والی تھی۔

رات کے اس پہر وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ گاڑی سے اترا اور عورت کی جان بچانے میں کامیاب ہوگیا۔ جب اس عورت سے خود کشی کرنے کی وجوہات سے متعلق دریافت کیا گیا تو اس نے اپنی دکھ بھری داستان کھول کر رکھ دی۔ اس نے عمران عباس کو بتایا کہ اس کا ایک بیٹا ہے جسے تھیلیسیمیا کا موذی مرض لاحق ہے۔ ہفتے میں دو سے تین بار اسے تازہ اور صحت مند خون درکار ہوتا ہے جس سے اس کی زندگی کی سانسیں چلتی ہیں۔ اس سلسلے میں آئے روز اسے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں اور خون کے عطیات والے سینٹرز میں جا کر اپنے بیٹے کے لئے خون کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے جانے کتنے عذابوں سے گزرنا پڑتا ہے اور کتنی بار مرنا پڑتا ہے۔

ماں کی مامتا اپنے بیٹے کو زندہ سلامت دیکھنے کے لئے خود کتنے جتن کرتی ہوگی اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ اگلی صبح اس کے بچے کو پھر تازہ خون لگنا تھا جس کا انتظام نہیں ہو سکا تو اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نہر میں کود کر اپنی جان دے کر موت جیسی زندگی سے ہمشیہ کے لئے جان چھڑا لے گی کیونکہ بطور ماں وہ اپنے بچے کو آئے روز اپنی آنکھوں کے سامنے زندگی اور موت کی کشمکش میں تڑپتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔

اس دوران اس کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں اور آواز رندھ گئی۔ سسکیوں میں جاری اپنی گفتگو میں اس نے مزید بتایا کہ جب سے اس کا بیٹا پیدا ہوا تب سے لے کر آج تک وہ ہر روز مرتی اور ہر روز جیتی تھی۔ اس بے بس اور مجبور عورت کی دکھ بھری داستان نے ڈی ایس پی عمران عباس کے قلب و روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے خود سے یہ عہد کیا کہ تھیلیسیمیا میں مبتلا کوئی بھی بچہ خون کی عدم دستیابی کی وجہ سے ابدی نیند نہیں سوئے گا اور نہ ہی کسی ماں کو اپنے بچے کو خون نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی جیسا انتہائی اقدام اٹھانا پڑے گا۔

عمران عباس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اس کے اپنے دو بیٹے علی اور عبد الرحمٰن بھی تھیلسیمیا کے جان لیوا مرض کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہارنے پر مجبور ہو گئے اور اس نے اس موذی مرض کے عذاب خود بھی جھیلے ہیں۔ لہذٰا اس نے اب یہ عزم صمیم کر رکھا ہے کہ اب کوئی بھی بچہ تھیلیسیمیا کے ہاتھوں خون کی عدم دستیابی کے باعث موت کے منہ میں نہیں جائیگا۔ اس سلسلے میں وہ پنجاب بھر کے مختلف علاقوں میں خون کے عطیات جمع کرنے کے لئے کیمپ لگوانے کا اہتمام کرتے ہیں اور وہ دیگر مخیر حضرات اور بلڈ بینک کے اداروں کے ساتھ مل کر بلڈ بیگز جمع کرتے ہیں۔ اب تک پنجاب کے مختلف اضلاع میں سے وہ ایک لاکھ سے زائد خون کی بوتلیں جمع کرکے سندس فاؤنڈیشن اور دیگر فلاحی تنظیموں کے حوالے کر چکے ہیں جو تھیلسیمیا کے بچوں کو مفت خون کی فراہمی یقینی بنانے میں مثالی کردار ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

پولیس کی وردی میں ملبوس انسانیت کی خدمت میں اس قدر مگن افسران کہاں ملتے ہیں جس طرح ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ نے اس کار خیر کو اپنی زندگی کا مشن بنا رکھا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بڑے افسران تو بہت ہیں مگر ضروری نہیں کہ بڑے عہدوں اور اقتدار کی راہ داریوں میں جاہ و حشمت سے مٹکنے والے بڑے رتبوں پر فائز عالی مرتبت بڑے انسان بھی ہوں۔ بڑا انسان عہدے یا رتبے سے نہیں بلکہ عظمت کردار سے بنتا ہے۔ ایسے چنیدہ افراد صرف اپنے ڈیپارٹمنٹ کے لئے ہی قابلِ فخر نہیں بلکہ دراصل وہ انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہیں جن کے لئے الطاف حسین حالی نے کہا تھا۔

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran