بطور ایس ایچ او میری دوسری تعیناتی تھی اور یہ تھانہ فیصل آباد کے شہری علاقے میں واقع تھا۔ گرمیوں کا ایک سخت دن تھا اور میں مقامی عدالت میں کسی مقدمے کی شہادت کے سلسلے میں مصروف تھا۔ دوپہر کے وقت میرے تھانہ کی حدود میں واقع ایک معروف وکیل کے گھر دو مسلح افراد خواتین کو اسلحہ کے زور پر یرغمال بنا کر نقدی اور طلائی زیورات لوٹ کر فرار ہوگئے۔
ڈکیتی کی سنگین واردات کسی بھی مہتمم تھانہ کے لئے ایک چیلنج کے ساتھ ساتھ پریشان کن معاملہ ہوتا ہے کیونکہ افسران بالا لمحہ بہ لمحہ مقدمے میں پیش رفت کے متعلق دریافت کے ساتھ ساتھ سرزنش بھی کرتے ہیں۔ اس واردات کی سنگینی اس لئے بھی زیادہ بڑھ گئی تھی کیونکہ لٹنے والا گھر وکیل صاحب کا تھا اور عدم توجہی کی صورت میں اگلے روز مقامی بار کونسل کی طرف سے عدالتوں کا بائیکاٹ خارج از امکان نہیں تھا۔
ریسکیو 15 پر اطلاع ملتے ہی وائرلیس کنٹرول نے میری پوزیشن حاصل کرکے مجھے فوراً موقع پر پہنچنے کی ہدایات دیں۔ میں چونکہ عدالت کے اندر موجود تھا تو میرے گن مین نے متعلقہ چوکی انچارج سب انسپکٹر کو فوراً جائے وقوعہ کیطرف روانہ کردیا۔ واردات کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد میں جیسے ہی عدالت سے نکل کر سرکاری گاڑی کیطرف آگے بڑھا تو میرے گن مین نے مجھے ڈکیتی کے متعلق آگاہ کیا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس نے سب انسپکٹر صاحب کو موقع واردات پر بھجوا دیا ہے۔
میں نے گاڑی میں سوار ہوتے ہی انچارج چوکی کو فون کرکے اس سے جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد اور ڈاکوؤں کے حلیہ جات سے متعلق دریافت کیا۔ سب انسپکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ اسی گھر میں موجود تھا اور وکیل صاحب بھی پہنچ چکے تھے جن کی موجودگی میں ان کی خواتین سے پوری تفصیلات لی گئی تھیں۔ میں نے اسے وہیں موجود رہنے کا کہا۔ اگلے بیس پچیس منٹ میں ہماری گاڑی اس گلی میں داخل ہوئی تو اس گھر کے باہر محلہ کے کچھ افراد، وکیل موصوف اور سب انسپکٹر صاحب اپنے دوچار ملازمین کے ساتھ موجود تھے اور ڈکیتی کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض کر رہے تھے۔
میں نے گاڑی سے اترنے کے بعد وکیل صاحب سے کہا، ہم گھر میں موجود خواتین سے واردات سے متعلق دوبارہ دریافت کر لیں تاکہ ان حتمی معلومات کی روشنی میں ملزمان کا تعاقب کیا جا سکے۔ خواتین سے مختصر گفتگو کے دوران میں نے سب انسپکٹر صاحب کی طرف سے ملنے والے نکات کی جانچ پڑتال کی اور وکیل صاحب کو پورا یقین دلایا کہ بہت جلد ہم ڈاکوؤں تک پہنچ جائیں گے۔
ڈاکوؤں سے متعلق سب سے اہم بات جو ایک خاتون نے بتائی کہ وہ واپس جاتے ہوئے گھر کے گیٹ سے نکل کر دائیں ہاتھ مڑے تھے جس طرف گلی ایک بڑی سڑک سے مل جاتی تھی۔ میں نے سب انسپکٹر صاحب کو ساتھ لیا اور اسی سمت چل پڑے۔ گھر سے تقریباً سو فٹ دور دائیں طرف ایک چھوٹی سی گلی مڑتی تھی جس کے آمنے سامنے گھر تھے اور آگے جا کر وہ بند ہو جاتی تھی۔ لہٰذا ڈاکوؤں کا اس بند گلی کی طرف مڑنا خارج ازامکان تھا۔ ہم مزید آگے چلے تو لگ بھگ دو سو فٹ کے فاصلے پر ایک اور چھوٹی گلی کے کارنر پر ایک ادھیڑ عمر کا قلفی فروش ریڑھی لگائے کھڑا تھا۔
اسے میں نے ان دونوں ڈاکوؤں کے حلیہ جات اور کپڑوں کی رنگت کے متعلق بتایا تو اس نے بتایا کہ تقریباً ایک گھنٹہ قبل اسی حلیے کے دو لڑکے سامنے والی بڑی سڑک کی طرف سے آئے اور اپنا ہنڈا سی ڈی 70 موٹر سائیکل اس کی ریڑھی کے پاس کھڑا کرکے اسی طرف چل دیئے جس طرف وکیل صاحب کا گھر تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ واپسی پر تیزی سے آئے اور موٹر سائیکل پر سوار ہو کر مین روڈکیطرف روانہ ہوگئے۔ میں نے اس سے موٹر سائیکل کے نمبر سے متعلق پوچھا تو اس نے چار میں سے تین ہندسے مکمل طور پر درست بتائے جبکہ آخری ہندسہ کے بارے میں وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ ایک تھا یا سات۔ ان معلومات نے میری پریشانی خاصی کم کر دی اور مجھے یقین تھا کہ ہم بہت جلد ڈاکوؤں تک پہنچ جائیں گے۔
میں نے موٹر سائیکل کے دونوں ممکنہ نمبروں سے متعلق ایکسائز آفس رابطہ کیا تو ان میں ایک موٹر سائیکل عبداللہ پور کے نزدیک ایک موٹر سائیکل کمپنی کی ملکیت میں پائی گئی۔ ہم نے گاڑی کا رخ اس کمپنی کی طرف کر لیا اور اگلے پندرہ بیس منٹ میں اس کے شوروم کے سامنے پہنچ گئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ گزشتہ روز اسے ایک شخص نے کرایہ پر لیا تھا۔ عملے میں سے ایک لڑکے نے بتایا کہ وہ اس شخص کے گھر سے واقف تھا۔ ہم نے اس لڑکے کو ساتھ لیا اور متعلقہ شخص کی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوگئے جو دوسرے تھانہ کی حدود میں واقع تھی۔
اگلے دس منٹ میں ہم مطلوبہ گھر والی گلی میں داخل ہوئے تو مقامی تھانے کی گشت پر مامور گاڑی پہلے سے وہاں ہمارے انتظار میں موجود تھی جنہیں انکے ایس ایچ او ضروری ہدایات دے چکے تھے۔ ہم نے کرایہ پر موٹر سائیکل لینے والے شخص کے گھر پہنچ کر اسے باہر بلوایا۔ اس نے بتایا کہ چند گھنٹے قبل وہ موٹر سائیکل اس کا بھانجا مانگ کر لے گیا تھا جس کا گھر چند گلیاں چھوڑ کر قریب ہی واقع تھا۔ اب ہم ڈاکوؤں سے صرف چند قدم دوری پر تھے۔
اگلے چند لمحات میں ہم نے ملزم کے ماموں کی نشان دہی پر اس گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور ساتھ والے گھر کی چھت استعمال کرتے ہوئے ہمارے جوان مطلوبہ گھر کی سیڑھیاں اتر کر داخل ہو گئے جبکہ ایک جوان نے گھر کا دروازہ اندر سے کھول دیا۔ وہی حلیے اور انہیں کپڑوں میں ملبوس دونوں ڈاکو اپنی قمیضیں اتار کر لوٹی ہوئی رقم اور طلائی زیورات کمرے کے اندر چارپائی پر رکھ کر تقسیم کرنے کا سوچ رہے تھے کہ ہم نے انہیں گرفتار کر لیا۔ مجرم جتنا مرضی چالاک ہو جرم نشان چھوڑتا ہے جس سے مجرمان تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔