Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi/
  3. Aabi Jarhiyat Ya Hamari Ghaflat? Qaumi Baqa Ki Jang

Aabi Jarhiyat Ya Hamari Ghaflat? Qaumi Baqa Ki Jang

بھارت کی جانب سے دریائے ستلج اور راوی میں اچانک پانی چھوڑے جانے کے واقعات نے یکبار پھر پاکستان کے سامنے آبی تحفظ کے سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ المیہ محض ایک فطری آفت نہیں بلکہ ہماری اجتماعی غفلت، انتظامی نااہلی اور سیاسی عدم توجہی کا شاخسانہ ہے۔ تاریخی تسلسل پر نظر ڈالیں تو 1960ء میں طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ اگرچہ پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک اہم دستاویز تھا، لیکن اس کے باوجود بھارت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اس معاہدے کی روح کو پامال کرتا رہا ہے۔ معاہدے کے تحت بھارت کو راوی اور ستلج کے پانی پر محدود حقوق حاصل ہیں، مگر وہ موسموں میں تبدیلی اور غیر معمولی حالات کا بہانہ بنا کر بار بار پانی چھوڑ کر پاکستان کے لیے تباہی کے دروازے کھول دیتا ہے۔

حالیہ واقعات میں بھارت نے دریائے ستلج میں اچانک پانی چھوڑا، جس کے نتیجے میں ہیڈ سلیمانکی اور ہیڈ اسلام پر پانی کی سطح میں خطرناک اضافہ ہوا، زمیندارہ بند ٹوٹ گئے، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی تیار فصلیں زیر آب آ گئیں اور قصور، پاکپتن اور بہاولنگر کے متعدد دیہات ڈوب گئے۔ ریکارڈ کے مطابق گنڈا سنگھ والا پر پانی کا بہاؤ ایک لاکھ 29 ہزار کیوسک تک پہنچ گیا، جسے درمیانے اور اونچے درجے کے سیلاب کی صورت حال قرار دیا گیا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ ہر سال آنے والے سیلابوں نے ثابت کیا ہے کہ ہم نے ماضی کے تجربات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کیوں اپنے دفاع کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھا پا رہے؟ اس کی بنیادی وجہ ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر اور پانی کے انتظام کے حوالے سے حکومتی عدم توجہی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں پانی کے ذخیرہ کرنے کی صلاحیتوں کا جائزہ لیں تو پاکستان اس معاملے میں انتہائی پیچھے ہے۔ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 15 میٹر سے بلند ڈیموں کی کل تعداد محض 153 ہے، جبکہ ہندوستان میں 3200 اور چین میں 8400 ڈیم موجود ہیں۔ پاکستان اپنے سالانہ پانی کے بہاؤ کا صرف 10 فیصد ذخیرہ کر پاتا ہے، جبکہ ہندوستان 220 دن، مصر 1000 دن اور امریکہ 900 دن کے لیے پانی محفوظ کر سکتا ہے۔ اس کمی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال اربوں گیلن قیمتی پانی سمندر میں بہہ جاتا ہے، جسے اگر ذخیرہ کر لیا جائے تو نہ صرف سیلابوں کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے، بلکہ خشک سالی کے دوران اسے مفید کام میں لایا جا سکتا ہے۔

حکومتی سطح پر نااہلی اور غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم جیسے منصوبے عرصہ دراز سے التواء کا شکار ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے محض بیانات تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ عوامی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں پانی کی شدید قلت کا شکار ہو سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو 2025ء تک پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی مزید کم ہو کر 500 کیوبک میٹر رہ جائے گی، جو بین الاقوامی معیارات کے مطابق خشک سالی کی علامت ہے۔

سیلابوں سے بچاؤ کے لیے انتظامیہ کے پاس کوئی واضح پلان موجود نہیں ہے۔ حفاظتی بندوں کی مرمت اور جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر پر توجہ نہ دینے کے باعث ہر سال اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ریسکیو اداروں کی کوششیں اگرچہ قابل ستائش ہیں، لیکن ان کا دائرہ کار محدود ہے۔ عوام الناس کو بروقت انتباہ اور نقل مکانی کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ محکمہ آبپاشی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے درمیان کوئی مربوط حکمت عملی نظر نہیں آتی، جس کی وجہ سے ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بھارت کی "آبی جارحیت" دراصل ہماری داخلی کمزوریوں کا عکاس ہے۔ اگر ہم اپنے دریاؤں پر ڈیموں کا جال بچھا لیں، نہری نظام کو جدید خطوط پر استوار کریں اور آبپاشی کے جدید طریقوں کو اپنائیں تو بھارت کی چالوں کا اثر ختم ہو سکتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہمیں ملنے والے پانی کے حقوق کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی فورمز پر بھی زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ موجودہ حالات میں وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر جیسی شخصیات تمام صوبوں کو اکٹھا کرکے ڈیموں کی تعمیر جیسے قومی پراجیکٹس پر اتفاق رائے پیدا کر سکتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں نہ صرف ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دینی ہوگی، بلکہ زیر زمین پانی کے ذخائر کو بڑھانے، بارش کے پانی کو جمع کرنے اور جدید آبپاشی کے نظاموں کو متعارف کرانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ عوامی سطح پر شعور بیدار کرنے کے لیے میڈیا اور تعلیمی اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ دشمن سے زیادہ ہم خود اپنی غفلت کے باعث تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں اور پانی کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے تو آنے والا وقت ہمارے لیے مزید مشکلات لے کر آئے گا۔ ہمیں چاہیے کہ سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد میں متحد ہو جائیں اور آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے لیے آج ہی اقدامات کا آغاز کریں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran