پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والا اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ محض ایک عسکری یا سفارتی پیش رفت نہیں بلکہ ایک ایسا تاریخی سنگِ میل ہے جس کے اثرات مستقبل کے کئی عشروں تک خطے اور دنیا کی سیاست پر مرتب ہوں گے۔ 2025ء میں اس معاہدے کی حیثیت اس لیے بھی منفرد ہے کہ یہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب مشرقِ وسطیٰ شدید جغرافیائی کشمکش، توانائی کے بحران، علاقائی تنازعات اور عالمی طاقتوں کی کشمکش کا مرکز بن چکا ہے۔
ایسے ماحول میں پاکستان اور سعودی عرب کا یہ فیصلہ کہ وہ اپنی سلامتی اور حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں گے، ایک عظیم فیصلہ ہے۔ اگرچہ ماضی میں بھی حرم کی حفاظت کے لئے پاکستانی کمانڈوز نے سیسہ پلائی دیوار کا کردار ادا کیا تھا، مگر اب یہ باقاعدہ ایک منظم و جامع معاہدے کی شکل اختیار کرکے عالمی سیاست کے توازن میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ دے رہا ہے۔ یہ وہی روح ہے جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے: "وَاعُتَصِمُوا بِحَبُلِ اللہِ جَمِیُعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (آل عمران: 103)
"اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو"۔
یہ معاہدہ اس تصور پر مبنی ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور ہوگا۔ اس کی عملی معنویت یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے دشمن کو اب یہ سمجھ لینا ہوگا کہ کسی بھی جارحانہ اقدام کے جواب میں دونوں ممالک مشترکہ طور پر ردعمل دیں گے۔ یہ شق نہ صرف خطے میں جارحانہ قوتوں کے لیے انتباہ ہے بلکہ عالمی طاقتوں کے لیے بھی ایک غیر مبہم پیغام ہے کہ اسلامی دنیا کی قیادت کرنے والے دو بڑے ممالک اپنی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
پاکستان، جو دنیا کی واحد مسلم ایٹمی طاقت ہے اور سعودی عرب، جو اسلامی دنیا کا روحانی و معاشی مرکز ہے، جب ایک معاہدے میں جُڑ جائیں تو ان کی شراکت داری خطے کے اسٹریٹجک ماحول پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ یہی بھائی چارے کی اصل ہے جسے قرآن نے بیان کیا: "اِنَّمَا الُمُؤُمِنُوُنَ اِخُوَۃٌ فَاَصُلِحُوُا بَیُنَ اَخَوَیُكُمُ" (الحجرات: 10)
"مؤمن تو سب بھائی بھائی ہیں، پس اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو"۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی تاریخ تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے سعودی عرب نے ہر نازک موڑ پر پاکستان کی حمایت کی، چاہے وہ سفارتی میدان ہو، توانائی کے بحران ہوں یا معاشی مشکلات۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی ہمیشہ سعودی عرب کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھا۔ پاکستانی افواج نے ماضی میں سعودی سرزمین پر تربیتی فرائض انجام دیے اور عسکری مشقوں میں حصہ لیا۔ یہ معاہدہ اسی تاریخی شراکت داری کو ایک نئے دور میں داخل کر رہا ہے۔ اس موقع پر ہمیں رسول اللہ ﷺ کی یہ نصیحت یاد رکھنی چاہیے: "المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
"مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے دیوار کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے"۔
اس معاہدے میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کردار مرکزی رہا ہے۔ انہوں نے سعودی قیادت کے ساتھ قریبی مشاورت اور اعتماد سازی کے ذریعے ایک ایسا فریم ورک وضع کیا جس میں پاکستان کے دفاعی تجربے اور سعودی عرب کے معاشی و سفارتی اثر و رسوخ کو یکجا کیا گیا۔ ان کی یہ کامیابی پاکستان کی عسکری اور سفارتی قیادت دونوں کے لیے باعثِ فخر ہے۔
خطے کے زمینی حقائق میں دیکھا جائے تو ایران، اسرائیل، ترکی اور دیگر خلیجی ممالک اس معاہدے کو اپنے اپنے زاویے سے دیکھیں گے۔ ایران، جو پہلے ہی سعودی عرب کے ساتھ کئی دہائیوں سے علاقائی اثر و رسوخ کی کشمکش میں ہے، اس معاہدے کو ایک نئی چیلنج کے طور پر دیکھے گا۔ تاہم چین کی ثالثی کے نتیجے میں سعودی ایران تعلقات میں جو برف پگھلی تھی، اس کے بعد ایران کھلم کھلا مخالفت سے گریز کرے گا لیکن سفارتی سطح پر اپنے تحفظات ضرور ظاہر کرے گا۔
اسرائیل کے لیے یہ معاہدہ ایک تشویش ناک پیش رفت ہے کیونکہ اس سے سعودی عرب کی عسکری پوزیشن مزید مضبوط ہوتی ہے اور پاکستان کے شامل ہونے سے ایک ایسی عسکری قوت وجود میں آتی ہے جو خطے میں اسرائیلی عزائم کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ علاوہ ازیں دوسری جانب یہ معاہدہ گویا پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی تو موت ہے، سمجھئے، بھارت کے پاکستان مخالف ناپاک عزائم کا تو جنازہ ہی نکل گیا۔
امریکہ اور مغربی دنیا اس معاہدے کو ایک دو دھاری تلوار کے طور پر دیکھے گی۔ ایک طرف انہیں اطمینان ہوگا کہ خطے میں امن کے قیام کے لیے ایک مضبوط دفاعی ڈھانچہ وجود میں آیا ہے، لیکن دوسری طرف انہیں خدشہ ہوگا کہ یہ معاہدہ ان کی روایتی اجارہ داری کو کمزور کر سکتا ہے۔ امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں پچھلے چند سالوں میں جو اتار چڑھاؤ آیا، وہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاض اب یک طرفہ انحصار کے بجائے کثیر جہتی تعلقات کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔ چین بھی اس پیش رفت کو خوش آئند سمجھے گا کیونکہ اس سے خطے میں امریکی اثر کم کرنے اور ایشیائی اتحاد کو فروغ دینے کا موقع ملے گا۔
معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس معاہدے کے اثرات پاکستان کے لیے بھی غیر معمولی ہیں۔ پاکستان کو جہاں ایک طرف حرمین شریفین کے دفاع کا اعزاز ملا ہے، وہیں اس معاہدے کے نتیجے میں سعودی عرب کی جانب سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور مالی تعاون کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ تجارتی و صنعتی شعبوں میں بھی تعاون کے دروازے کھلیں گے۔ پاکستان کی معیشت جو گزشتہ چند برسوں سے بحرانوں کا شکار تھی، اب سعودی مالیاتی وزن اور مشترکہ منصوبوں کے باعث ایک نئے استحکام کی طرف بڑھ سکتی ہے۔
اس معاہدے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے اسلامی دنیا میں پاکستان کی حیثیت میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اب صرف ایک ایٹمی طاقت نہیں رہا بلکہ ایک ایسا ملک بن گیا ہے جسے اسلامی مقدس مقامات کی حفاظت کی ذمہ داری بھی تفویض کی گئی ہے۔ یہ نہ صرف مذہبی بلکہ سفارتی و اخلاقی اعتبار سے بھی پاکستان کے مقام کو بلند کرتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس معاہدے کو ایک خوش آئند قدم کے طور پر دیکھیں گے کیونکہ اس سے ان کے دلوں میں یہ اطمینان پیدا ہوگا کہ حرمین شریفین کی حفاظت ایک مضبوط مسلم فوج کے ہاتھ میں ہے۔ یہی وہ اتحاد ہے جس کی مثال نبی کریم ﷺ نے دی:
"مثل المؤمنين في توادّهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد، إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى"۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
"مؤمنوں کی آپس میں محبت، رحمت اور شفقت کی مثال ایک جسم کی طرح ہے، اگر اس کا کوئی ایک عضو بیمار ہو تو سارا جسم جاگنے اور بخار کے ساتھ اس کا ساتھ دیتا ہے"۔
تاہم، اس معاہدے کے ساتھ چیلنجز بھی وابستہ ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ وہ اپنے داخلی استحکام کو مضبوط کرے کیونکہ حرمین کی حفاظت کا بوجھ ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران اور داخلی اختلافات پاکستان کی اس ذمہ داری پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کی قیادت کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ اب اس کا کردار محض ایک قومی کردار نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی اسلامی کردار بن چکا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کو بھی اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اعتماد میں لیا جائے تاکہ یہ معاہدہ کسی مخصوص بلاک کے بجائے ایک وسیع اسلامی اتحاد کی بنیاد بن سکے۔ قرآن اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے: "وَلَا تَنَازَعُوُا فَتَفُشَلُوُا وَتَذُهَبَ رِیُحُكُمُ" (الانفال: 46)
"اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی"۔
عالمی سیاست کے تناظر میں اس معاہدے کے اثرات آنے والے برسوں میں مزید واضح ہوں گے۔ خطے میں طاقت کا توازن بدلے گا، نئی سفارتی صف بندیاں ہوں گی اور عسکری اتحادوں کے نئے امکانات سامنے آئیں گے۔ اگر پاکستان اور سعودی عرب اپنی شراکت داری کو درست سمت میں لے جاتے ہیں تو یہ معاہدہ نہ صرف خطے بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے استحکام اور سلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے۔
بالآخر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ اس تصور کی عملی شکل ہے جسے علامہ اقبال نے ایک صدی قبل اپنے اشعار میں بیان کیا تھا: "ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے"۔ پاکستان اور سعودی عرب نے اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کی جانب ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ یہ صرف دفاعی معاہدہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی، روحانی اور تاریخی عہد ہے، جو آنے والے وقت میں اسلامی دنیا کے لیے امید کی کرن ثابت ہو سکتا ہے۔