Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi/
  3. Atomi Jang Ka Imkan, Roshni Ki Talash Mein Andheron Ki Pedawar

Atomi Jang Ka Imkan, Roshni Ki Talash Mein Andheron Ki Pedawar

انسانی تاریخ میں طاقت کے توازن نے ہمیشہ تمدنوں کی سمت متعین کی ہے۔ پتھر کے ہتھیار سے لے کر صنعتی انقلاب تک، ہر دور میں انسان نے اپنی بقا کے لیے طاقت کے نئے ذرائع پیدا کیے۔ لیکن جب بیسویں صدی کے وسط میں ایٹم کے اسرار کھلے اور 1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم گرائے گئے، تو انسان پہلی مرتبہ اس مقام پر جا پہنچا جہاں طاقت اور فنا ایک ہی سکے کے دو رخ بن گئے۔ آج 2025ء میں جب دنیا چھ ایٹمی دہلیزوں پر کھڑی طاقتوں امریکہ، روس، چین، بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا کے عسکری تناؤ کا سامنا کر رہی ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا انسان اپنی سائنسی برتری کو امن میں بدل سکے گا یا یہی علم اس کی تباہی کا ذریعہ بنے گا؟

ایٹمی طاقتوں کا سفر محض عسکری دوڑ نہیں بلکہ عالمی سیاسی فکر کا مظہر رہا ہے۔ امریکہ نے 1945ء میں ایٹمی بم کے استعمال سے دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن کر عالمی قیادت حاصل کی۔ سابق سوویت یونین (روس) نے 1949ء میں پہلا جوہری تجربہ کیا، جس سے سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ برطانیہ، فرانس اور چین نے اس کے بعد ایٹمی قوت حاصل کرکے طاقت کے توازن کو نیا رنگ دیا۔ جنوبی ایشیا میں 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت اور پاکستان اس دوڑ کا حصہ بنے، جب کہ شمالی کوریا نے 2006ء میں عالمی طاقتوں کے نظام کو چیلنج کیا۔ 2025ء تک دنیا میں تخمیناً 13,000 سے زائد ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، جن میں سے 90 فیصد صرف امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔ باقی دنیا ان کی چھتری میں یا ان کے مقابل نظریاتی بلاک میں کھڑی ہے۔

ایٹمی سائنس اب صرف تابکاری توانائی یا یورینیم کے افزودہ ذرات تک محدود نہیں۔ جدید تحقیق نے اس میدان میں نئی راہیں کھول دی ہیں۔ ہائیڈروجن بم، نینو فشن اور پلازما فیوژن ٹیکنالوجی نے ہتھیاروں کی تباہ کن صلاحیت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) اب ایٹمی فیصلوں کے نظام میں داخل ہو چکی ہے خودکار دفاعی نظام ایسے فیصلے کرنے لگے ہیں جو انسان کے سوچنے سے پہلے مکمل ہو جاتے ہیں۔ سائبر جنگ اور کوانٹم مواصلاتی نظام نے یہ خطرہ پیدا کیا ہے کہ مستقبل کی جنگیں بٹن دبانے سے نہیں، بلکہ کوڈ بدلنے سے شروع ہوں گی۔ ان تمام پیش رفتوں نے ایٹمی جنگ کے خطرے کو محض عسکری نہیں بلکہ ڈیجیٹل اور تکنیکی سطح تک پھیلا دیا ہے۔

عہد حاضر میں دنیا کی سیاست تیزی سے دو بڑے نظریاتی و اقتصادی دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک طرف امریکہ، یورپ اور جاپان ہیں جو جمہوریت اور آزاد معیشت کے علمبردار ہیں۔ دوسری طرف چین، روس، ایران اور شمالی کوریا ہیں جو طاقت کے مرکزیت پر مبنی نظام کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان دونوں بلاکوں کے درمیان یوکرین، تائیوان، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا وہ خطے ہیں جہاں تصادم کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کا تنازع، چین و امریکہ کی ٹیکنالوجی جنگ اور روس و نیٹو کے درمیان محاذ آرائی، عالمی امن کے لیے ایسے خطرے بن چکے ہیں جو کسی بھی وقت عالمی جنگ کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔

ایٹمی ہتھیار صرف عسکری نہیں بلکہ معاشی بوجھ بھی ہیں۔ 2025ء میں عالمی دفاعی بجٹ کا تخمینہ 2.4 ٹریلین ڈالر ہے، جس کا 70 فیصد صرف دس ممالک خرچ کر رہے ہیں۔ ان میں امریکہ، چین، روس، بھارت اور برطانیہ سرفہرست ہیں۔ یہ بجٹ صحت، تعلیم اور ماحولیاتی تحفظ پر ہونے والے اخراجات سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری، دیکھ بھال اور آپ گریڈیشن میں کھربوں ڈالر صرف اس لیے خرچ کیے جا رہے ہیں کہ ایک "ممکنہ دشمن" کو خوفزدہ رکھا جائے۔ اس دوڑ نے عالمی معیشت کو دفاعی انحصار میں جکڑ دیا ہے اور غریب ممالک ترقی کے بجائے عسکری بلاکوں کی تابع معیشت بننے پر مجبور ہیں۔

ایٹمی جنگ کا سب سے بڑا نقصان انسان کو ہے۔ سائنسی مطالعات کے مطابق اگر محدود پیمانے پر بھی ایٹمی تصادم ہو مثلاً جنوبی ایشیا میں تو اس کے نتیجے میں پانچ سے دس کروڑ انسان فوراً ہلاک ہوں گے، عالمی درجہ حرارت 1.5 ڈگری کم ہو جائے گا، فصلیں تباہ، بارشیں متاثر اور نظامِ تنفس زہریلا ہو جائے گا۔ ایٹمی دھماکوں سے پیدا ہونے والی تابکاری، جینیاتی تغیرات اور ماحولیاتی آلودگی کئی نسلوں کو معذور کر دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ ماحولیات 2025ء کے بعد کے عہد کو "پوسٹ ہیومن سروائیول ایرا" قرار دینے لگے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1946ء سے لے کر اب تک ایٹمی ہتھیاروں پر 150 سے زائد قراردادیں منظور کی ہیں، مگر کوئی بھی قرارداد مکمل طور پر نافذ العمل نہیں ہو سکی۔ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) اور جامع تجرباتی پابندی (CTBT) کے باوجود بڑی طاقتیں اپنی حکمتِ عملی بدلنے کو تیار نہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جدید شاخیں، جیسے IAEA (بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی)، صرف نگرانی تک محدود ہیں۔ جب تک عالمی نظام میں مساوات اور شفاف انصاف قائم نہیں ہوتا، ایٹمی طاقتوں کے درمیان "امن" صرف عارضی وقفہ رہے گا۔

جنوبی ایشیا اس وقت دنیا کا سب سے خطرناک ایٹمی خطہ قرار دیا جا چکا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان عسکری توازن "ڈیٹرنس" کے اصول پر قائم ہے، مگر سرحدی جھڑپیں، غلط فہمیاں اور سیاسی دباؤ اس توازن کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ آج دونوں ممالک نے ٹیکٹیکل (محدود فاصلے والے) ایٹمی ہتھیار تیار کر لیے ہیں جو خطے کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ معاشی بحران، پانی کے مسائل اور اندرونی سیاسی بے چینی اگر شدت اختیار کرے تو کسی ایک غلط فیصلے سے پورا خطہ تباہ ہو سکتا ہے۔

ایٹمی جنگ کا مسئلہ صرف سائنس یا سیاست کا نہیں بلکہ ضمیر کا سوال ہے۔ انسان نے علمِ فطرت پر عبور حاصل کر لیا مگر اخلاقی دانش میں پسماندہ رہا۔ فلسفیانہ نقطۂ نظر سے یہ مسئلہ "انسان بمقابلہ اپنی تخلیق" ہے ایٹم، جو توانائی کا منبع تھا، اب فنا کا استعارہ بن گیا ہے۔ یہ دور علم کی برکت اور ضمیر کی محرومی کا مظہر ہے۔ اگر انسان نے اپنے اخلاقی شعور کو سائنس کے ساتھ ہم آہنگ نہ کیا تو ممکن ہے کہ تاریخ کا اگلا باب انسان کے بغیر لکھا جائے۔

عصر حاضر میں عالمی سیاست کا نقشہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دنیا طاقت کے توازن سے نکل کر تعاون کے نظام کی طرف بڑھے۔ ایٹمی توانائی کو ہتھیار نہیں بلکہ ترقی، توانائی اور طب کے میدانوں میں استعمال کیا جانا چاہیے۔ انسانیت کی بقا کا انحصار سائنس کے استعمال پر نہیں بلکہ اس کے اخلاقی نظم پر ہے۔ اگر عالمی طاقتیں اجتماعی شعور کے ساتھ "جوہری امن معاہدہ" کریں، عسکری بجٹ کا صرف دس فیصد تعلیم و صحت پر منتقل کریں، تو ممکن ہے کہ آنے والا دور خوف کے ایٹم سے امن کی روشنی میں بدل جائے۔ ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کسی ایک ملک یا نسل کے خاتمے کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی نابودی کا خطرہ ہے۔ علم و سائنس کی اصل روح تبھی زندہ رہ سکتی ہے جب وہ زندگی کے تحفظ کے لیے بروئے کار آئے۔ ورنہ تاریخ ایک بار پھر یہی کہے گی "انسان نے ایٹم کو تو توڑ لیا، مگر اپنی نفرت کو نہیں"۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran