پچھلے دو روزہ واقعات نے جنوبی ایشیا کو ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا کر دیا ہے جہاں ہر واقعہ محض ایک بم یا شعلہ نہیں بلکہ وسیع الجہت سیاسی، عسکری اور سفارتی گردشوں کا نتیجہ بنتا محسوس ہوتا ہے۔ 10 نومبر بروز پیر نئی دہلی کے لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے قریب کار دھماکے میں کئی شہری ہلاک ہو گئے اور اس کے اگلے ہی دن 11 نومبر کو اسلام آباد کے ضلعِ کچہری کے قریب ہونے والے دھماکے میں متعدد افراد شہید و زخمی ہوئے یہ واقعات وقت، مقام اور نوعیت کے اعتبار سے بیک وقت وقوع پذیر ہو کر نہ صرف دونوں دارالحکومتوں کے عوام میں خوف و اضطراب پیدا کر رہے ہیں بلکہ خطے کی خراب ہوتی ہوئی سلامتی کی تصویر کو بھی واضح کر رہے ہیں۔
پہلا سوال جو ہر ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کس کا ہاتھ ہے؟ ابتدائی انٹیلی جنس اور میڈیا رپورٹس میں اسلام آباد دھماکے سے قبل افغانستان سے مشابہہ نوعیت کی سوشل میڈیا پوسٹس کا حوالہ دیا گیا بعض اکاؤنٹس پر Coming soon Islamabad، جیسے پیغامات منظر عام پر آئے اور مختلف طالبان-منسلک آن لائن پروفائلز نے دھمکی آمیز بیانات شایع کیے۔ اسی طرز کی اطلاعات اور تشویش نے پاکستان کی سرکاری قیادت کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ واقعہ بیرونی عناصر یا بین الاقوامی روابط رکھنے والی پراکسی نیٹ ورکنگ کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ تاہم فیکٹ اور الزام عائد کرنا دو الگ عمل ہیں فوجداری تحقیقات، سی سی ٹی وی، فورینزک تجزیہ اور بین الاقوامی انٹیلی جنس تعاون کے بغیر حتمی نتیجہ اخذ کرنا ممکن نہیں۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاک-بھارت تعلقات میں تشدد و پراکسی مداخلت کا سانچہ نیا نہیں۔ کشمیر، سرحدی جھڑپیں اور متنازع عسکری حمایت کے الزامات نے کئی بار دونوں ملکوں کو عالمی سطح پر تناؤ کے قریب پہنچایا ہے۔ مگر اس بار واقعات کی بیک وقتیت اور دارالحکومتوں کو ہدف بنائے جانا ایک مختلف اور خطرناک پیغام لیے ہوئے ہے کہ یہ محض علاقائی دہشت گردی کا عمل نہیں بلکہ معلوماتی اور نفسیاتی جنگ کی ایک کڑی بھی ہو سکتی ہے جس کا مقصد عوامی حوصلہ پست کرنا، داخلی سیاسی اجزاء کو کمزور کرنا اور دو ایٹمی قوتوں کے مابین سرد جنگ کو گرم تقابل میں تبدیل کرنا ہے۔
داخلی سیکورٹی کے تناظر میں پاکستان کو فوری طور پر تین سطحی حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے کہ ایک، شہری سطح پر فوری حفاظتی اقدامات اور عدالتی مراکز، تعلیمی اداروں و عوامی جگہوں کی سخت حفاظت، دو، انٹیلیجنس شیئرنگ کے تقاضے پورے کرکے افغانستان اور دیگر ملکوں کے ساتھ توانمند بین الاقوامی تعاون اور تین، دہشت گردی کے بنیادی سبب یعنی عسکریت پسندی کی جڑوں کو ختم کرنے کے لئے طویل المدت سماجی و معاشی اصلاحات۔ صرف عسکری ردعمل ہی محدود کامیابی دلا سکتا ہے، اس کے بغیر پائیدار امن ناممکن رہے گا۔
بھارت کے لیے بھی تنبیہ واضح ہے کہ اگرچہ ہر ملک کو اپنے اندرونی سکیورٹی چیلنج درپیش ہوتے ہیں، مگر سرحد پار پراکسیز کے ذریعے اثراندازی یا کسی بھی شکل کی کارروائی خطے کی سلامتی کے لیے تیل پر آگ ڈالنے کے مترادف ہے۔ عالمی برادری نے ماضی میں متعدد مواقع پر اس خطے میں شواہد کی بنیاد پر ثالثی اور تحقیقات کی حمایت کی، موجودہ حالات میں شواہد کی شفاف پیشکاری، مشترکہ تحقیقات اور بین الاقوامی تفتیشی میکانزم کی شمولیت ہی تنازعے کو مزید بڑھنے سے روک سکتی ہے۔
معاشی و سماجی اثرات بھی شدت کے ساتھ سامنے آئیں گے۔ خوف و عدم استحکام سرمایہ کاری کو روکے گا، تجارت متاثر ہوگی اور طویل المدت ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ شہری عوام کا معمولی نقل و حرکت متاثر ہونا، تعلیمی اداروں کا عارضی بند ہونا اور روزمرہ کی زندگی میں اضافہ شدہ حفاظتی لاگت ایک معاشی بوجھ کے طور پر ظاہر ہوگا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر عوامی عزم کمزور پڑا اور خوف غالب آیا تو اس کا ثمر وہی ہوتا ہے جو دہشت گرد چاہتے ہیں کہ سماجی شقاق اور ریاستی کارکردگی میں کمی۔
بین الاقوامی سطح پر صورتحال کا تسلسل خاص طور پر خطرناک ہے کیونکہ دونوں اطراف کے ردعمل میں غلط فہمی یا تندی کسی بھی لمحے عملیاتی محاذ پر بدل سکتی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کا وجود کسی بھی محاذ آرائی کو محدود نہیں کرتا بلکہ اس کے خطرات کو ناقابلِ تصور حد تک بڑھا دیتا ہے۔ اس لئے سفارتی چینلز کو کھلا رکھنا، اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ذریعے جلد از جلد ثالثی کے راستے تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ شورش کو قابو میں لایا جا سکے اور مستقبل میں باہمی اعتماد کے لیے ساختی اقدامات کیے جائیں۔
آخرکار، شواہد اور ذمہ داری کی تصدیق کے لیے پیش کیے گئے تمام بیانات اور الزامات کو ایک آزاد، شفاف اور بین الاقوامی شراکت داروں کی موجودگی میں جانچا جانا چاہیے۔ حقائق سامنے آئیں گے تو مناسب قانونی اور سفارتی ردعمل ممکن ہوگا، مگر اس سے پہلے جو کام ہر شہری اور ہر ریاستی ادارے کر سکتا ہے وہ ہے ضبطِ نفس، فوری طبی و امدادی کارروائی اور وہ اجتماعی کوششیں جن سے دہشت گردی کے جڑواں مسائل عدم روزگار، سرحدی بے قاعدگیاں اور انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ بصورتِ دیگر، ایک چھوٹی سی چنگاری بڑے پیمانے پر بھڑک سکتی ہے اور دونوں ملکوں کے عوام، خطے کی معیشت اور بین الاقوامی امن بھاری قیمت چکا سکتے ہیں۔