امن معاہدوں اور عالمی سفارتی کوششوں کے باوجود، مشرقِ وسطیٰ کی فضا اب بھی بارود کے بادلوں سے اٹی ہوئی ہے۔ غزہ میں انسانی المیہ شدت اختیار کر چکا ہے، خان یونس اور رفح کے اطراف مذاکرات، لاشوں کے تبادلے اور ہتھیار ڈالنے کی خبریں ایک نئے دور کے آغاز یا انجام کا عندیہ دے رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ واقعی امن کا پیش خیمہ ہے یا ایک نئے تصادم کی تمہید؟
اقوامِ متحدہ کی تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق، اکتوبر سے اب تک غزہ کے لیے 107 امدادی قافلوں کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں، جس کے نتیجے میں خوراک، ادویات اور طبی سازوسامان کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ اسپتالوں میں بجلی ناپید، مریض بے یارو مددگار اور امدادی تنظیمیں مفلوج ہو چکی ہیں۔ یہ محض جنگ کا شاخسانہ نہیں، بلکہ انسانی ضمیر کے امتحان کی وہ گھڑی ہے جس میں انسانیت خود اپنے وجود کی گواہی مانگ رہی ہے۔
"یہ جنگ اب سرحدوں سے نکل کر انسانی شعور کی گہرائیوں میں اُتر چکی ہے"۔
جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں موجود تقریباً 150 حماس جنگجوؤں سے ہتھیار ڈالنے اور محفوظ راستہ دینے پر مذاکرات جاری ہیں۔ مصر اور قطر ثالثی کے کردار میں مصروف ہیں، مگر اس عمل کے سیاسی مضمرات پیچیدہ ہیں۔ کیا یہ وقتی صلح مستقبل کے امن کی بنیاد بنے گی یا ایک ایسی حکمتِ عملی ثابت ہوگی جو تنازع کو مزید طویل کر دے گی؟
القصام بریگیڈز کی جانب سے ایک اسرائیلی قیدی کی لاش کی حوالگی کا اعلان بین الاقوامی قوانینِ جنگ کے تناظر میں ایک اہم مگر دردناک پیش رفت ہے جنگ کے درمیان انسانی قدروں کی ایک دھندلی مگر موجود لکیر۔
جنین، الخلیل اور نابلس کے اطراف اسرائیلی آبادکاروں کے حملوں نے فلسطینی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے زیتون کے باغات کو جلا کر راکھ کر دیا۔ یہ صرف زمین نہیں جل رہی، ایک قوم کی ثقافتی و تاریخی شناخت بھی راکھ میں بدل رہی ہے۔ زیتون کا درخت فلسطینی بقا اور مزاحمت کی علامت ہے، اس کی کٹائی دراصل امید کے ان چراغوں کو بجھانے کے مترادف ہے جو صدیوں سے اس دھرتی پر جل رہے ہیں۔
"زیتون کے درختوں کی جڑیں صرف مٹی میں نہیں، تاریخ میں پیوست ہیں "۔
قازقستان کی جانب سے ابراہیمی معاہدات میں شمولیت کا اعلان، اسرائیل کے لیے ایک نئی سفارتی تقویت کا سبب بنا ہے۔ مگر یہی قدم فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف محسوس ہو رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں اب دو دھارے واضح دکھائی دے رہے ہیں ایک طرف وہ ممالک جو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف وہ اقوام جو فلسطینی موقف کے ساتھ کھڑی ہیں۔ یہ تبدیلی عالمی توازنِ طاقت کے نئے دور کا آغاز ہے، جہاں مذہب اور مفاد کی لکیریں تیزی سے دھندلا رہی ہیں۔
اب یہ مسئلہ محض سیاسی نہیں بلکہ انسانی ہے۔ اگر امدادی رسائی کے دروازے فوری طور پر نہیں کھولے گئے، تو غزہ میں بھوک، پیاس اور بیماریوں کی نئی لہر جنم لے سکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری کو اب محض قراردادوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
"امن کا پہلا اصول انصاف ہے اور انصاف کے بغیر ہر معاہدہ محض کاغذی وعدہ رہتا ہے"۔
مشرقِ وسطیٰ کے اس بحران نے دنیا کو ایک بار پھر یاد دلایا ہے کہ طاقت سے امن نہیں خریدا جا سکتا۔ یہ جنگ دراصل ضمیر، انسانیت اور انصاف کے درمیان ہے۔ اگر دنیا نے اس بار بھی خاموشی اختیار کی، تو تاریخ ایک بار پھر ہمیں یاد دلائے گی کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے، تو زمین خود گواہی دیتی ہے۔