Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi/
  3. Ghaza Aman Mansooba

Ghaza Aman Mansooba

غزہ کی حالیہ جنگ جس نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کی سیاست اور معیشت کو لرزا کر رکھ دیا ہے، اب ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں امن منصوبے کی صورت میں امید کی کرن دکھائی دیتی ہے۔ امریکہ کی طرف سے پیش کردہ 21 نکاتی منصوبہ بظاہر ایک ایسا خاکہ ہے جو فوری انسانی بحران کو کم کرنے، جنگی تباہ کاریوں سے نکلنے اور مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بنیاد رکھنے کی کوشش ہے۔ تاہم اس منصوبے کی کامیابی کا دارومدار صرف اس کے کاغذی خدوخال پر نہیں بلکہ اس کے عملی نفاذ، عالمی قوتوں کی سنجیدگی، علاقائی توازن اور سب سے بڑھ کر فریقین کے اعتماد پر ہے۔

اس منصوبے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ غزہ کو غیر انتہا پسند اور دہشتگردی سے پاک خطہ بنانے کی بات کی گئی ہے۔ اس کے لیے حماس کے عسکری ڈھانچے کو ختم کرنے اور ایک عبوری ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان براہِ راست جنگ بندی، آئی ڈی ایف کے تدریجی انخلا اور مغویوں و قیدیوں کی رہائی اس منصوبے کے بنیادی اجزاء ہیں۔ یہ اقدامات بظاہر فوری ریلیف فراہم کر سکتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا حماس یا دیگر مزاحمتی گروہ واقعی غیر مسلح ہونے پر آمادہ ہوں گے؟ اور اگر وہ انکار کرتے ہیں تو منصوبے میں بیان کردہ "دہشتگردی سے پاک علاقوں" کا ماڈل کس حد تک قابلِ عمل ہوگا؟

منصوبے میں روزانہ چھ سو ٹرکوں کے ذریعے امداد اور انفراسٹرکچر کی بحالی کی شق شامل ہے، جو ایک بڑے انسانی بحران کو کم کر سکتی ہے۔ لیکن تعمیر نو کے لیے جس بڑے پیمانے پر وسائل درکار ہیں، اس کے لیے شفاف فنڈنگ، موثر نگرانی اور بدعنوانی سے بچاؤ بنیادی شرائط ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ تعمیر نو کے اخراجات کون برداشت کرے گا؟ امریکہ، یورپ، عرب دنیا یا بین الاقوامی مالیاتی ادارے؟ اگر یہ واضح نہ ہوا تو منصوبہ محض بیانات تک محدود رہ سکتا ہے۔

اقتصادی زون کے قیام اور تجارتی سہولتوں کی فراہمی کو منصوبے کا حصہ بنایا گیا ہے، جو بلاشبہ ایک مثبت سمت کی نشاندہی ہے۔ لیکن معاشی بحالی کے لیے صرف آزاد تجارتی زون کافی نہیں، بلکہ روزگار کے مواقع، تعلیمی اصلاحات اور سماجی انصاف کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ اگر یہ اقدامات مقامی ضروریات اور فلسطینی عوام کے حقیقی مسائل سے ہم آہنگ نہ ہوئے تو یہ منصوبہ "امداد پر انحصار" کے ایک نئے دور کا آغاز کر سکتا ہے، جو پائیدار معیشت کی تشکیل میں رکاوٹ ڈالے گا۔

عبوری حکومت اور بین الاقوامی استحکام فورس کے قیام کی تجویز بھی اہم ہے۔ تاہم اس پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا یہ فورس واقعی غیر جانبدار ہوگی؟ کون سے ممالک اس میں شامل ہوں گے اور ان کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ اسرائیل اس پر کتنا مطمئن ہوگا اور فلسطینی عوام اسے کس نظر سے دیکھیں گے؟ اگر مقامی قیادت کو شامل نہ کیا گیا تو یہ عبوری ڈھانچہ بھی متنازع بن سکتا ہے۔

منصوبے میں قیدیوں اور مغویوں کی رہائی کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ اسرائیل کی طرف سے 250 عمر قید کے قیدیوں اور 1700 دیگر افراد کی رہائی ایک بڑی پیش رفت ہوگی، مگر یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا یہ رہائی مستقل سیاسی اعتماد کی بنیاد رکھے گی یا محض وقتی سیاسی فائدے تک محدود رہے گی۔ اسی طرح ہر اسرائیلی مغوی کی لاش کے بدلے فلسطینی لاشوں کی واپسی ایک انسانی پہلو ضرور ہے، مگر یہ عمل جنگی لاگت اور بداعتمادی کے احساس کو مزید گہرا بھی کر سکتا ہے۔

منصوبے میں"انتہا پسندی کے خاتمے" کے لیے نصاب سازی، بین المذاہب مکالمے اور ذہنی اصلاحی پروگرامز کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بظاہر نرم طاقت (Soft Power) کے آلات ہیں، مگر یہ اقدامات تبھی کامیاب ہوں گے جب انہیں مقامی سماجی ڈھانچے اور سیاسی شرکت کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔ بصورتِ دیگر یہ محض بیانیہ سازی تک محدود رہیں گے۔

فلسطینی اتھارٹی کے اصلاحاتی پروگرام، صدارتی و پارلیمانی انتخابات اور ایک واحد سیکیورٹی فورس کے قیام کی شق اس منصوبے کو فلسطینی داخلی اتحاد کے تناظر میں اہم بناتی ہے۔ تاہم فلسطینی اتھارٹی کی اپنی ساکھ سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے شفاف انتخابات اور حقیقی نمائندگی ناگزیر ہے۔ یہ اقدام اگر کامیاب ہوا تو فلسطینی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز ہو سکتا ہے۔

عالمی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ اس منصوبے کے ذریعے اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اس کی پالیسی طویل عرصے سے اسرائیل نوازی کے باعث یکطرفہ سمجھی جاتی ہے۔ اگر یہ منصوبہ فلسطینی ریاست کے قیام کی حقیقی راہ ہموار کرتا ہے تو یہ امریکہ کے لیے سفارتی کامیابی ہوگی، بصورتِ دیگر یہ ایک اور ناکام کوشش شمار ہوگی۔ اسرائیلی وزیراعظم کا فلسطینی ریاست کے قیام پر اختلاف ظاہر کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ اصل رکاوٹ ابھی باقی ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کی جانب سے اس منصوبے کی حمایت اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ مسلم دنیا فوری انسانی بحران کے خاتمے اور خطے کے استحکام کو ترجیح دے رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا بیان واضح کرتا ہے کہ دو ریاستی حل ہی خطے میں پائیدار امن کی ضمانت ہے۔ سعودی دفاعی معاہدہ اور حرمین شریفین کے تحفظ کے عزم کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی دیا گیا کہ مسلم دنیا علاقائی عدم استحکام کے باوجود امن کی خواہاں ہے۔

فلسطینی ریاست کے اعلامیے میں نیویارک کانفرنس کے عہد کی تجدید اور دو سال کے اندر تعلیمی اصلاحات کے پروگرام کا اعلان ایک مثبت قدم ہے، مگر اسرائیلی قیادت کی عدم رضامندی اس بات کا عندیہ ہے کہ یہ عمل طویل اور پیچیدہ ہوگا۔

مستقبل کے امکانات کو دیکھیں تو یہ منصوبہ اگر کامیاب ہوتا ہے تو غزہ کی تعمیر نو، فلسطینی ریاست کے قیام اور مشرقِ وسطیٰ کے دیرپا استحکام کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر اس میں شفافیت، اعتماد سازی اور مقامی شمولیت نہ ہوئی تو یہ منصوبہ بھی ماضی کی ناکام کوششوں کی طرح تاریخ کے اوراق میں دفن ہو جائے گا۔

خلاصہ یہ ہے کہ امن کا راستہ صرف جنگ بندی یا امداد سے نہیں بلکہ انصاف، نمائندگی اور مساوات سے نکلتا ہے۔ اگر عالمی برادری واقعی ایک جدید، جمہوری اور غیر عسکری فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے مخلص ہے تو اسے اس منصوبے کو محض سفارتی اعلانات سے آگے بڑھا کر عملی اقدامات میں ڈھالنا ہوگا۔ یہی وہ نقطہ ہے جو خطے کی سیاست، عالمی معیشت اور انسانیت کی بقا کے لیے فیصلہ کن ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran