Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi/
  3. Ibrahimi Moahida Aik Challange

Ibrahimi Moahida Aik Challange

ابراہیمی معاہدہ (Abraham Accords) ایک ایسا سفارتی معاہدہ ہے جو اگست 2020ء میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین طے پایا اور بعد ازاں بحرین، سوڈان اور مراکش نے بھی اس کی توثیق کی۔ یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر قیادت عمل میں آیا، جس کا مقصد اسرائیل اور چند عرب ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات کا قیام تھا۔ اس معاہدے نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی توازن کو متاثر کیا بلکہ مسلم امہ میں ایک گہری فکری تقسیم کو بھی جنم دیا۔

یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب فلسطین کی آزادی کی تحریک، اسرائیلی قبضے، بیت المقدس کی حیثیت اور مسجد اقصیٰ کی حرمت جیسے بنیادی اسلامی و اخلاقی مسائل عالمی سطح پر زیر بحث تھے۔ امت مسلمہ میں عمومی طور پر یہ تصور پایا جاتا رہا ہے کہ جب تک فلسطینی عوام کو ان کا جائز حق نہیں ملتا، تب تک اسرائیل کو تسلیم کرنا اخلاقی و دینی لحاظ سے ناقابل قبول ہے۔ تاہم ابراہیمی معاہدے نے اس اصولی موقف کو چیلنج کیا اور کئی مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ اقتصادی، تجارتی اور دفاعی تعلقات قائم کرنے کی راہ ہموار کی۔

ابراہیمی معاہدے کی توجیہہ کرنے والوں کا مؤقف یہ ہے کہ اس معاہدے سے نہ صرف مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے بلکہ فلسطینیوں کے لیے بھی سفارتی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرکے عرب دنیا اس پر دباؤ ڈال سکتی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو مناسب رعایت دے اور دو ریاستی حل کی طرف سنجیدگی سے بڑھے۔ نیز اقتصادی ترقی، ٹیکنالوجی، صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں تعاون سے ان ممالک کو فائدہ ہوگا۔

اس کے برعکس، نقادوں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ فلسطینی عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ فلسطینی قیادت بشمول محمود عباس اور حماس نے اس معاہدے کو یکسر مسترد کیا۔ ان کا مؤقف ہے کہ ان معاہدات کے ذریعے اسرائیل کو اس کے جرائم پر سزا دینے کے بجائے انعام دیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل اب بھی مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہے، القدس پر اس کا دعویٰ برقرار ہے اور مسجد اقصیٰ میں بار بار بے حرمتی کے واقعات ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں اسرائیل سے دوستی کا ہاتھ بڑھانا نہ صرف اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے بلکہ امت کے اجتماعی ضمیر کے ساتھ غداری بھی ہے۔

ابراہیمی معاہدے کے اثرات صرف خلیجی ریاستوں یا فلسطینی عوام تک محدود نہیں بلکہ اس کے گہرے اثرات پوری مسلم دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ایک طرف یہ معاہدہ مسلم ممالک کے مابین نظریاتی تقسیم کو گہرا کر رہا ہے، تو دوسری طرف اسرائیل کو مسلم دنیا میں داخلے کا باقاعدہ راستہ فراہم کر رہا ہے۔ اسرائیلی کمپنیوں کو خلیج میں سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی ہے، دفاعی آلات اور انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کی تجارت ہو رہی ہے اور مشترکہ فوجی مشقیں بھی زیر غور ہیں۔

یہ صورتحال امت مسلمہ کے اجتماعی وجود کے لیے ایک آزمائش بن چکی ہے۔ امت کا ایک حصہ اسے وقت کی ضرورت، قومی مفاد اور عملی سیاست کا تقاضا سمجھ کر قبول کر رہا ہے، جب کہ دوسرا حصہ اسے اسلامی اصولوں، قبلۂ اول کی حرمت اور فلسطینی عوام کی قربانیوں کے ساتھ ناانصافی تصور کر رہا ہے۔ اس سے نہ صرف فکری انتشار پیدا ہو رہا ہے بلکہ اسلامی اتحاد کی وہ بنیادیں بھی کمزور ہو رہی ہیں جو امت کو جوڑے رکھنے کا ذریعہ تھیں۔

یہاں یہ سوال اہمیت اختیار کرتا ہے کہ کیا فلسطینی کاز کو پسِ پشت ڈال کر مسلم ممالک اسرائیل سے تعلقات قائم کرکے طویل مدتی امن حاصل کر سکتے ہیں؟ یا یہ ایک وقتی سیاسی مصلحت ہے جو بالآخر نہ صرف فلسطینیوں کو تنہا کرے گی بلکہ امت مسلمہ کو داخلی طور پر مزید کمزور کرے گی؟ اس حوالے سے تاریخی تجربات بتاتے ہیں کہ جب بھی فلسطین کی قیمت پر معاہدے ہوئے، ان کے نتائج دیرپا نہیں رہے۔ مصر کے ساتھ اسرائیل کا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہو یا اردن کا وادی عربہ معاہدہ، ان سے فلسطینیوں کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔ لہٰذا ابراہیمی معاہدہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تصور کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف بعض مسلم اسکالرز اور تجزیہ کار اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک وسیع نظریاتی و تہذیبی مسئلہ ہے۔ اسرائیل کا قیام، اس کے توسیع پسندانہ عزائم، قبلۂ اول پر قبضہ اور مسلمانوں کے خلاف اس کی جارحانہ پالیسی اس کو ایک ایسا وجود بناتی ہے جس سے تعلقات قائم کرنا محض ایک سیاسی فیصلہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی شکست تصور کیا جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ابراہیمی معاہدے کے تحت ہونے والی پیش رفت نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ مسلم امہ کے اجتماعی شعور کے خلاف ہے۔

اس معاہدے کا ایک اور پہلو عالمی سیاست میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے کردار سے بھی وابستہ ہے۔ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں کو مضبوط بنانے، چین اور ایران کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے اور اسلحے کی تجارت کو فروغ دینے کے لیے اس معاہدے کی سرپرستی کی۔ گویا یہ معاہدہ صرف دو فریقوں کے درمیان امن کا معاہدہ نہیں بلکہ ایک بڑی عالمی گیم کا حصہ بھی ہے، جس میں اسرائیل کا کردار ایک 'کنٹرولڈ ریجنل پاور' کے طور پر ابھر رہا ہے اور مسلم ممالک کو ایک نئے صف بندی میں ڈھالا جا رہا ہے۔

اگر اس معاہدے کے ممکنہ نتائج پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ ابراہیمی معاہدہ فلسطینی کاز کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔ اس کے بعد اسرائیل کو اس بات کی کوئی عملی ترغیب باقی نہیں رہی کہ وہ فلسطینیوں کو ان کا حق دے۔ بلکہ اب اسرائیل فلسطینیوں کو نظرانداز کرکے براہِ راست عرب و مسلم ریاستوں کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کے قابل ہو چکا ہے۔ اس عمل سے فلسطینی جدوجہد کو عالمی سطح پر وہ اہمیت نہیں مل پا رہی جو پہلے حاصل تھی۔

اسی کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے نوجوانوں میں مایوسی، اضطراب اور غصے کا ماحول بھی پیدا ہو رہا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف قبلۂ اول کی بے حرمتی ہو رہی ہے، معصوم فلسطینی شہید کیے جا رہے ہیں اور دوسری طرف مسلم ممالک اسرائیل سے معاہدات کر رہے ہیں، اس کے ساتھ تجارتی تعلقات بنا رہے ہیں اور سفارتی سطح پر نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں۔ یہ تضاد ایک ذہنی و فکری بحران کو جنم دے رہا ہے جو آئندہ نسلوں کی سوچ کو متاثر کر سکتا ہے۔

ابراہیمی معاہدہ ایک ایسا لمحۂ فکریہ ہے جس نے مسلم امہ کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس معاہدے کے اثرات صرف سیاسی یا سفارتی نہیں بلکہ تہذیبی، فکری اور نظریاتی بھی ہیں۔ اس نے امت مسلمہ کو اس بنیادی سوال کے روبرو لا کھڑا کیا ہے کہ کیا وقتی سیاسی مفادات، معاشی ترقی اور عالمی طاقتوں کی خوشنودی کے لیے اپنے عقائد، اصولوں اور تاریخی مؤقف کو قربان کرنا جائز ہے؟ کیا بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور فلسطینی عوام کی قربانیاں محض جذباتی نعرے تھے یا ان کا کوئی عملی و اخلاقی وزن بھی ہے؟

یہ معاہدہ بظاہر چند ممالک کا باہمی فیصلہ ہے، مگر اس کے نتائج پورے عالم اسلام کو متاثر کر رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلم دنیا اجتماعی طور پر اس موضوع پر غور کرے، جذبات اور مفادات کے درمیان توازن قائم کرے اور فلسطینی کاز کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر رکھنے کی کوشش جاری رکھے۔ ورنہ یہ اندیشہ موجود ہے کہ ابراہیمی معاہدہ مسلم امہ کی وحدت کو مزید پارہ پارہ کر دے گا اور قبلۂ اول کے دفاع کی وہ تاریخی ذمہ داری پسِ پشت چلی جائے گی جو صدیوں سے امت کا طرۂ امتیاز رہی ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran