بچوں کا روزگار خواہ وہ کھیتوں میں ہو، کارخانه جات میں ہو یا گھریلو ملازمت کی شکل میں پاکستان کی معیشت اور سماج کا ایک نہایت پیچیدہ اور المیہ باب ہے۔ اسباب وہ نہیں جو صرف غربت کا نتیجہ ہوں، بلکہ ان میں طبقاتی ارتکاز، سیاسی کمزوری، دیرینہ معاشرتی عادات اور عالمی جدلیات کا امتزاج کارفرما ہے۔ "خواب چھینتی گھریلو مشقت" در اصل اس تصویر کا ایک تکان دہ عکس ہے جس میں بچے اپنی بچپن کی بقیہ امیدیں، تعلیم اور خوداعتمادی سب قربان کر دیتے ہیں۔
قانونی سطح پر پاکستان کا آئین غلامی، جبراً مشقت اور انسانی اسمگلنگ کو ممنوع قرار دیتا ہے (آئینِ پاکستان، آرٹیکل 11)۔ نیز آرٹیکل 25-A تعلیمی حق کو ریاست کی ذمہ داری ٹھہراتا ہے۔ اس کے باوجود، بچوں کی ملازمت (بخصوص گھریلو ملازمت) کے خلاف قوانین پراگمٹک سطح پر یکسانیت سے نافذ نہیں ہو پائے۔ ہر صوبے کے تحت مختلف قوانین ہیں اور ان پر عملدرآمد کمزور ہے۔
مثلاً سندھ میں اگرچہ بچوں کی گھریلو ملازمت پر ایک سال قید یا پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا کی بات ہوتی ہے، مگر عملی شواہد بتاتے ہیں کہ یہ حکم اکثر کاغذی رہ جاتا ہے، شکایات کا ریکارڈ نہ ملنا، عدالتی تاخیر اور انتظامی غفلت اس کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
بعض صورتوں میں قانون سازی بہتر ہوئی ہے، مثال کے طور پر پنجاب اسمبلی نے 2023 میں ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ پاس کیا، جس کے تحت 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو گھر پر کام پر لگانے پر پابندی ہے۔ مگر یہ قانون فقط ایک صوبے تک محدود ہے اور اس کا نفاذ ابھی بڑے پیمانے پر نہیں ہوا۔
غریب خاندانوں کے لیے روزگار کا فقدان، آمدنی کا عدم استحکام، قرضوں کا بوجھ اور دیگر معاشی الجھنیں وہ بنیادی محرکات ہیں جن کی بدولت بچے گھر باہر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان میں 90 فیصد معاملات میں بچے غربت کی ضرورت کی وجہ سے کام کرتے ہیں۔
انسانی سرمائے کی سرمایہ کاری (یعنی تعلیم، صحت، نشوونما) پر عدم توجہ، اسباب اور اثرات میں گہرے الجھے ہیں۔ جب گھر میں وسائل کم ہوں، والدین کو اس بات کا شعور نہیں ہوتا کہ اگر وہ بچوں کو اسکول سے دور رکھیں تو وہ مستقبل میں مزید بے روزگار ہوں گے۔ اس طرح ایک خودوفروشی کا چکر شروع ہو جاتا ہے۔
مزید یہ کہ طبقاتی اور صنفی معاشرتی تصورات بچوں کو گھریلو ملازمت کی طرف مائل کرتے ہیں۔ گھریلو ملازمت کو "سستی سہولت" سمجھا جاتا ہے اور معاشرے کی بالادست طبقاتی سوچ انھیں اس دائرے میں قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ "جدید غلامی" کہلانے کی وجہ یہی ہے کہ وہ بظاہر مراعات زدہ نہیں مگر حقیقت میں قابل استحصال ہے۔
عالمی تناظر میں، بچوں کی گھریلو مشقت ایک معروف مسئلہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 17.2 ملین بچے گھریلو ملازمت میں مصروف ہیں، جن میں اکثر 5 تا 14 سال کی عمر کے ہیں۔ ان میں سے اکثریت لڑکیاں ہیں۔
پاکستان اس بحران سے آزاد نہیں۔ حکومت پاکستان بین الاقوامی کنونشنز جیسے کنونشن برائے حقوقِ بچوں، (CRC) اور مختلف ILO کنونشنز کی معاہدہ کار ہے۔ عالمی اشتراک مثلاً ILO کا ARC (Asia Regional Child Labour) منصوبہ بھی پاکستان کے ساتھ شراکت میں ہے، تاکہ بچوں کو استحصال سے بچایا جا سکے۔
لیکن عالمی دباؤ اور قوانین وقتی معاونت ہیں، حقیقی کامیابی تب ملے گی جب اندرونی انسٹی ٹوشنل قوتیں مضبوط ہوں، شفافیت ہو اور عوامی شعور بلند ہو۔
مسئلے کی پیچیدگی اور امکانی رکاوٹیں:
1.معلومیت کا فقدان چونکہ گھریلو ملازمت عملاً چھپے ہوئے پہلو میں ہوتی ہے (گھر کے اندر، غیر رجسٹرڈ)، سرکاری اعداد و شمار محدود اور نامکمل ہیں۔ شاذ و نادر کم عمری کی ملازمت کی پیمائش ہوتی ہے اور حکومتی نگرانی بھی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔
2.عدالتی و انتظامی تاخیر شکایات درج کرنا، کیس چلنا، گواہوں کی فراہمی اور فیصلہ سنانا یہ سب عمل بہت طویل ہیں۔ متاثرین کے پاس وسائل کم ہوتے ہیں کہ وہ عدالتی سلسلے کا مقابلہ کریں۔
3.معاشرتی قبولیت اور لاپروائی بسا اوقات وہی خاندان جنہوں نے اپنے بچوں کو کام پر بھیجا، اس کو معمولی سمجھتے ہیں اور شکایت ہی نہیں کرتے۔ سماج میں"طرفین کی مرضی" کی بحث عام ہے، جو استحصال کو جائز ٹھہرانے کا فریب دیتی ہے۔
4.وسائل کی کمی اور سماجی تحفظ کی خلاء متاثر خاندانوں کو متبادل آمدنی، تعلیمی وظائف، خوراک اور صحت کا تحفظ فراہم کرنے کی اہلیت کم ہے۔ اگر ریاست اس خلاء کو پورا نہ کرے، تو بچوں کی ملازمت کو رکنا مشکل ہے۔
5.پالیسی یکسانیت کا فقدان ہر صوبے میں قوانین مختلف ہیں اور وفاقی سطح پر ایک مشترکہ قانون کا فقدان کارکردگی کو پیچیدہ بناتا ہے۔
کراچی کی پسماندہ بستیوں میں جہاں گھریلو ملازمت ایک عام روایت ہے، وہیں ارمینہ جیسی کہانیاں روزمرہ کا حصہ ہیں۔ بچوں کی گھریلو ملازمت صرف شہرِ عظیم کا معاملہ نہیں، بلکہ اندرون سندھ اور دیگر بڑے شہروں میں بھی یہ پھیلی ہوئی اذیت ہے۔ ایک مطالعے نے دکھایا کہ سندھ کے بچے کام کرنے کی شرح تقریباً 20 فیصد ہے اور اس میں دیہی پس منظر، بیسوادی، عوامی خدمات کی دوری وغیرہ عوامل مؤثر ہیں۔
سپارک (SPARC) اور دیگر این جی اوز اس مسئلے کی تشہیر کرتی ہیں کہ "یہ صرف سستی مزدوری نہیں، جدید غلامی ہے" اور واقعی اس تشبیہ میں صداقت ہے۔ اگر ایک بچی صبح سویرے گھر نکلے، دن بھر کام کرے اور رات دیر سے واپس آئے، تو اس کی زندگی کا عرصہ محض چند سال نہیں، بلکہ وہ ایک مسلسل جدوجہد بن جاتی ہے۔
حالیہ برسوں میں حکومت نے کچھ پیش رفت کی ہے، انسانی اسمگلنگ، بچوں کے استحصال اور مہمات کے خلاف کارروائیاں تیز ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ چند ماہ کے دوران پاکستانی حکام نے 2,688 مشتبہ افراد کا تفتیش کی اور 805 کو سزا دلوائی۔
تاہم، یہ اقدامات نقطہ آغاز ہیں، مکمل حل نہیں۔ صرف قانون سازی یا کارروائی کافی نہیں، بلکہ نظامی اور ساختی تبدیلیاں ضروری ہیں۔
آئندہ امکانات اور لائحہ عمل:
1.قانونی یکسانیت و اصلاح تمام صوبوں میں بچوں کی ملازمت کے قوانین یکساں کریں، ایک وفاقی نگرانی کا ادارہ بنائیں اور جرمانے و سزا کو سخت بنائیں اور شرحِ نافذی بلند کریں۔
2.شکایات نظام اور نگرانی کا نظام ہاٹ لائنز، ضلع سطح پر شکایتی مراکز، معاشرتی ورکر نیٹ ورک اور پڑوس نگرانی کا نظام قائم کریں۔
3.معاشی معاونت اور سماجی تحفظ کم آمدنی والے گھروں کو امداد، وظائف، قرض معافی یا چھوٹے کاروبار کے مواقع دیں تاکہ وہ بچوں کو کام پر نہ بھیجیں۔
4.تعلیمی قوت اور باضابطہ نظام مفت تعلیم کو معیاری بنائیں، بچوں کو سکول جانے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسکول سے غائب بچوں کی بحالی پر خصوصی توجہ دی جائے۔
5.عوامی شعور اور ثقافتی تبدیلی میڈیا، مذہبی رہنما، استاد، سماجی کارکن اور مقام والدین کو تربیت دیں، کہ بچوں کی ملازمت ایک سنگین انسانی مسئلہ ہے، نہ کہ معمولی سہولت۔
6.بین الاقوامی شراکت داری بین الاقوامی فنڈز اور ادارات سے تعاون کریں، تجربات کا تبادلہ کریں اور عالمی اہدافِ ترقی (SDGs) کے تناظر میں کام کریں۔
خواب چھینتی گھریلو مشقت کا ایک بچہ وہ نہیں رہے گا جو صبح اسکول جائے اور شام کو کتابیں کھولے۔ وہ وہ ہو جائے گا جو جھاڑو لگا کر اندھیرا پا لے، جو اپنے ہاتھوں سے برتن صاف کرے اور جس کا خواب محض ایک دن کی روشنی کا سہارا ہو۔
اگر پاکستان کو حقیقی معنوں میں ترقی کرنی ہے، اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو قابل انسان بنانا چاہتے ہیں، تو یہ وقت ہے کہ ہم اس "خفیہ غلامی" کو اجاگر کریں، اس کے خلاف متحد ہوں اور اس کا مکمل صفایا کریں۔ ورنہ ہم ایک ایسی قوم بن جائیں گے جو اپنی مسرتوں کو استحصال کی بنیاد پر تعمیر کرتی ہے اور یہ سب سے عذابِ وجود ہوگا۔