Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi/
  3. Jab Imaraten Nahi, Irade Kamzor Hon

Jab Imaraten Nahi, Irade Kamzor Hon

کراچی کے شہری مسائل کی فہرست طویل ہے، مگر ان میں سب سے زیادہ باعثِ تشویش معاملہ حالیہ دنوں تب سامنے آیا جب لیاری میں اچانک عمارت گرنے سے جانی و مالی دلخراش حادثہ رونما ہوا، اس کے بعد ہر ادارہ خود کو بچانے کی تک و دو اور فکر میں لگ گیا، لگے ہاتھوں موقع غنیمت جان کر 1990ء کی دھائی کے اواخر میں تعمیر کردہ صرف گلستان جوھر کے مختلف 43 اپارٹمنٹس کو ان کی تعمیر کے محض پچیس سال بعد اچانک ایک نوٹس اور بعد ازاں اطلاع عام کی بنیاد پر "انتہائی غیر محفوظ حالت"، "انسانی رہائش کے لئے ناقابل استعمال" اور " فوری طور پر انخلاء کا مشورہ " دیا گیا ہے (متاثرہ قرار دیئے گئے اپارٹمنٹس کی فہرست میں سے ایک میں راقم خود بھی گذشتہ پچیس سال سے قیام پذیر ہے)۔

نہ کوئی سائنسی یا انجینئرنگ سروے، نہ کوئی تکنیکی یا قانونی جانچ پڑتال، نہ رہائشیوں سے مشاورت اور نہ ہی کسی مستند ادارے کی رپورٹ یہ فیصلہ صرف ایک نوٹس کی بنیاد پر اطلاع عام کی صورت میں صادر ہوا۔ اس واقعے نے نہ صرف رہائشیوں کو ذہنی، مالی اور معاشرتی اذیت میں مبتلا کیا بلکہ اس نے شہری منصوبہ بندی، قانونی شفافیت اور ریاستی عملداری پر بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

یہ عمارتیں مشہور اور معتبر بلڈرز کے زیرنگرانی تعمیر کی گئیں تھیں۔ تعمیر کے وقت تمام تر نقشہ جات، منظوری کی شرائط اور بلڈنگ بائی لاز کو مدِنظر رکھا گیا تھا۔ اس میں رہائش پذیر افراد نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے فلیٹس خریدے تھے، کچھ نے عمر بھر کی جمع پونجی لگائی، کچھ نے قرضے لے کر یہ اثاثہ حاصل کیا اور کچھ نے وراثت میں پایا۔ وہ فلیٹس اب ان کے لیے صرف رہائش گاہ ہی نہیں بلکہ ان کی شناخت، ان کا وقار اور ان کی زندگی کا مرکز بن چکے ہیں۔ ایسے میں بغیر کسی جامع تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی نیز انجینئرنگ کی جانچ پڑتال کے بغیر اچانک یہ کہنا کہ یہ عمارتیں "خطرناک" ہیں، نہایت بےرحمانہ، غیرذمہ دارانہ اور شفافیت سے عاری اقدام ہے۔

یہ امر بھی نہایت تعجب انگیز ہے کہ اس فیصلے سے قبل نہ کسی سرکاری انجینئرنگ ادارے جیسے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) یا کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (KDA) سے کوئی مصدقہ رپورٹ جاری ہوئی، نہ NED یونیورسٹی یا NESPAK جیسے کسی ماہر ادارے سے کوئی سائنسی یا تکنیکی معائنہ کرایا گیا اور نہ ہی پاکستان انجینئرنگ کونسل (PEC) کی خدمات حاصل کی گئیں۔ صرف اور صرف اپنی جان چھڑاتے اور ذمہ داریوں سے بھاگتے ہوئے محض ایک نوٹس اور پھر اطلاع عام جاری کردیا گیا، جو بظاہر انتظامی فیصلے کا نتیجہ تھا، ان تمام عمارتوں کو "خطرناک رہائش" قرار دینے کے لیے کافی قرار سمجھا گیا۔ کیا ایک مہذب، شہری، قانونی اور آئینی معاشرے میں اس طرز عمل کو قبول کیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔

یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر یہ عمارتیں واقعی ناقص بنیادوں پر تعمیر کی گئی تھیں، تو پھر گزشتہ تین دہائیوں سے یہاں رہنے والے ہزاروں افراد محفوظ کیسے رہے؟ زلزلے، بارشیں، ہوائیں، نمی اور موسم کی دیگر سختیوں کے باوجود اگر عمارت آج تک ایستادہ ہے اور اس میں کوئی بھی حادثہ یا سانحہ پیش نہیں آیا، تو یہ اس کی مضبوطی اور پائیداری کی دلیل ہے، نہ کہ اس کے خطرناک ہونے کا ثبوت۔

مزید یہ کہ شہرِ کراچی میں بے شمار ایسی عمارتیں موجود ہیں جو انگریز دور میں تعمیر ہوئیں، جن کی عمر سو سال سے زائد ہو چکی ہے، مگر آج بھی وہ اپنی اصل حالت میں موجود اور قابلِ رہائش ہیں۔ ان میں سے کئی عمارتیں نہ صرف آباد ہیں بلکہ ان میں دفاتر، ہوٹل، اسکول اور رہائشی یونٹس بھی موجود ہیں۔ اس کے برعکس 1990ء کی دہائی میں تعمیر ہونے والی جدید ٹیکنالوجی سے لیس 43 عمارتوں کو اچانک خطرناک قرار دے دینا عقل و فہم سے بالاتر ہے۔

ایک اور مثال 1960 کی دہائی میں تعمیر ہونے والی یوسف پلازہ کی ہے، جو آج بھی ایک فعال رہائشی منصوبہ ہے، جہاں ہزاروں افراد امن و سکون سے زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر 60 سال پرانی عمارتیں آج بھی اہلِ سکونت ہیں، تو 30 سال پرانی عمارت کو اچانک غیرمحفوظ قرار دینا نہ صرف تکنیکی منطق سے عاری ہے بلکہ اس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی دوسرا مقصد، مفاد یا ارادہ اس فیصلے کے پیچھے کارفرما ہے۔

یہ خدشات اس وقت مزید تقویت اختیار کر لیتے ہیں جب شہر کے دیگر علاقوں میں مہنگی اور قیمتی زمینوں پر نظر ڈالیں، جہاں رئیل اسٹیٹ مافیا کی نظریں ہر فعال عمارت پر لگی ہوتی ہیں۔ کئی بار یہ دیکھا گیا ہے کہ "خطرناک قرار دی گئی" عمارتیں بعد میں پراپرٹی ڈیلرز کے لیے قیمتی منصوبے بن گئیں۔ ان کی جگہ پر مہنگے کمرشل پراجیکٹس، پلازے یا جدید اپارٹمنٹس کھڑے کیے گئے اور وہاں کے اصل رہائشی یا تو معاوضے کے چکر میں ذلیل و خوار ہوتے رہے یا عدالتی پیچیدگیوں میں الجھ کر اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے۔ کیا یہ چند مخصوص عمارتیں بھی اسی مافیا کی کسی منصوبہ بندی کا شکار بننے والی ہیں؟

اس پورے عمل میں سب سے زیادہ قابلِ مذمت پہلو یہ ہے کہ حکومت یا انتظامیہ نے متاثرہ رہائشیوں کو اعتماد میں لینا تو درکنار، ان سے کوئی باضابطہ رابطہ بھی نہیں کیا۔ نہ ان کو متبادل رہائش کی فراہمی، نہ معاوضے کی بات کی گئی اور نہ ہی ان کو یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے دفاع میں کوئی دلیل یا ثبوت پیش کر سکیں۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ آئینِ پاکستان ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ اسے بےدخل کرنے سے قبل باقاعدہ نوٹس دیا جائے، صفائی کا موقع فراہم کیا جائے اور عدالتی چارہ جوئی کا حق دیا جائے۔

یہ معاملہ صرف 43 عمارتوں کا نہیں، بلکہ پورے شہری انتظامی نظام کی شفافیت، دیانت اور قانون پسندی کا امتحان ہے۔ اگر اس طرز عمل کو نظیر بنایا گیا، تو آئندہ کوئی بھی عمارت کسی بھی وقت بغیر کسی معقول وجہ کے خطرناک قرار دی جا سکتی ہے اور سینکڑوں خاندان ایک لمحے میں بےدخل ہو سکتے ہیں۔ یہ طرزِ حکمرانی نہ صرف آئینی اصولوں سے متصادم ہے بلکہ یہ عوامی اعتماد کے مکمل انہدام کا باعث بھی بنے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عمارت کے حوالے سے ایک غیرجانبدار، شفاف، سائنسی اور قانونی سروے کرایا جائے۔ NED یونیورسٹی، NESPAK، PEC یا کسی عالمی تسلیم شدہ ماہر ادارے سے اسٹراکچرل اسیسمنٹ کرائی جائے۔ اگر واقعی کوئی خطرہ موجود ہے تو اس کی مکمل رپورٹ سامنے لائی جائے، میڈیا اور رہائشیوں کو اعتماد میں لیا جائے اور متاثرہ افراد کو متبادل رہائش اور مناسب مالی معاوضہ دیا جائے۔ اگر ایسا کوئی خطرہ ثابت نہ ہو تو عمارت کو پیشگی "خطرناک" قرار دینا ایک ظلم قرار دیا جائے اور اس فیصلے کے پیچھے موجود افراد کا احتساب کیا جائے۔

اسی طرح حکومتِ سندھ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور دیگر متعلقہ اداروں کو بھی اپنی کارکردگی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں ہر تین یا پانچ سال بعد تمام عمارتوں کا باقاعدہ معائنہ کیا جائے اور ایک شفاف ڈیٹا بیس قائم کیا جائے جس میں ہر عمارت کی موجودہ کیفیت، اس کی فزیکل و سٹرکچرل حالت، مرمت کی ضرورت اور اس کے خطرات کی سطح کو درجہ بندی کی صورت میں بیان کیا جائے۔ اس سے نہ صرف شہریوں کو بروقت آگاہی حاصل ہوگی بلکہ انتظامیہ بھی شفاف فیصلے کر سکے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ وہ ادارے جو عوامی مفادات کے نام پر کارروائی کرتے ہیں، مگر درحقیقت نجی مفادات کی تکمیل کرتے ہیں، ان کا پردہ چاک کرنا ضروری ہے۔ اگر اس قسم کے فیصلے کسی بھی قانونی یا سائنسی بنیاد کے بغیر کیے جاتے رہے تو شہریوں کا اعتماد ریاستی اداروں سے مکمل طور پر ختم ہو جائے گا اور نتیجہ صرف بےچینی، بغاوت اور بداعتمادی کی صورت میں نکلے گا۔

یہ بھی ضروری ہے کہ پارلیمان، عدلیہ اور انسانی حقوق کے ادارے ایسے معاملات پر سنجیدگی سے نوٹس لیں۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے، نہ کہ انہیں بےدخل کرکے معاشی، نفسیاتی اور سماجی بحران میں دھکیل دے۔ اگر ایسا کوئی اقدام واقعی ناگزیر ہو تو پھر اس کے لیے باقاعدہ عدالتی اجازت، سائنسی ثبوت اور انسانی لحاظ سے متبادل منصوبہ پیش کیا جانا چاہیے۔

آخر میں، یہ کہنا بجا ہوگا کہ کسی بھی جدید اور مہذب معاشرے کا نظام محض نوٹس یا اعلانات پر نہیں چلتا، بلکہ اس کی بنیاد شفافیت، سائنسی تحقیق، عوامی مشاورت اور آئینی اصولوں پر ہوتی ہے۔ کراچی جیسے پیچیدہ اور متنوع شہر میں، جہاں لاکھوں لوگ پہلے ہی بے یقینی، غربت اور ناقص انفراسٹرکچر کا شکار ہیں، وہاں اس طرح کے غیرذمہ دارانہ اقدامات نہ صرف شہریوں کو مایوسی کی طرف لے جاتے ہیں بلکہ ریاست کے وجود اور اس کے اخلاقی جواز پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔

لہٰذا وقت کا تقاضہ ہے کہ بلا تحقیق و تفتیش جاری کیا جانے والا یہ تنقیدی نوٹس / اعلان / اطلاع عام یا فیصلہ واپس لیا جائے، شفاف انکوائری کی جائے اور اگر خطرہ موجود ہو تو اس کا سائنسی بنیادوں پر حل نکالا جائے، نہ کہ محض بلا تحقیق پیشگی طور پر ایک نوٹس کے ذریعے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے سینکڑوں زندگیوں کو تاریکی میں دھکیل دیا جائے۔ بصورتِ دیگر، یہ واقعہ آنے والے دنوں میں شہری مزاحمت، عدالتی مداخلت اور معاشرتی بےچینی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے، جس کا بوجھ صرف متاثرہ افراد ہی نہیں، بلکہ پورا نظام برداشت کرے گا۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran