Sunday, 07 December 2025
  1. Home/
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi/
  3. Khud Kashi, Asr e Hazir Ka Barhta Hua Nafsiyati Bohran

Khud Kashi, Asr e Hazir Ka Barhta Hua Nafsiyati Bohran

خودکشی محض ایک شخص کی زندگی کا اختتام نہیں بلکہ ایک ایسا اجتماعی زلزلہ ہے جس کی لہریں خاندان، معاشرے اور ریاستوں تک پھیلتی ہیں۔ یہ مسئلہ جتنا نجی دکھائی دیتا ہے، حقیقت میں عالمی سطح پر اتنا ہی سنگین اور پیچیدہ بن چکا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں سات لاکھ سے زائد افراد اپنی جان خود لے لیتے ہیں، جبکہ اس سے کہیں زیادہ لوگ کوشش کرتے ہیں مگر زندہ بچ جاتے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہر چالیس سیکنڈ بعد کوئی نہ کوئی فرد اس المیے کا شکار ہو رہا ہے، مگر اس کے باوجود دنیا کا بڑا حصہ اب بھی اس موضوع پر سنجیدہ مکالمہ کرنے سے جھجھکتا ہے۔

یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ تین دہائیوں میں خودکشی کی عالمی شرح میں کمی ضرور ہوئی، لیکن اس سست رفتار تنزلی سے کسی بڑے معاشرتی یا نفسیاتی انقلاب کی امید نہیں باندھی جا سکتی۔ خودکشی کے زیادہ تر واقعات کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں دیکھے جاتے ہیں، مگر آبادی کے تناسب سے امیر ممالک میں شرح زیادہ پائی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو نوجوان نسل کا بڑھتا ہوا عدم تحفظ ہے۔ 15 سے 29 سال کے درمیان عمر کے افراد میں خودکشی دنیا بھر میں موت کی بڑی وجوہات میں شامل ہو چکی ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جدید معاشرہ نوجوان ذہنوں کو وہ ذہنی سہارا نہیں دے پا رہا جس کی انہیں ضرورت ہے۔

خودکشی کو کسی ایک وجہ کے ساتھ جوڑ دینا نہ صرف غلط ہوگا بلکہ اس مسئلے کی اصل پیچیدگی کو بھی کم کر دے گا۔ یہ ذہنی دباؤ، معاشی مشکلات، سماجی رویوں، خاندانی تنازعات، الجھے ہوئے رشتوں، نفسیاتی بیماریوں اور بعض اوقات مذہبی و ثقافتی دباؤ کا مجموعہ ہے۔ دنیا بھر میں ڈپریشن تیزی سے پھیل رہا ہے، لیکن افسوس کہ اس کے علاج تک رسائی انتہائی محدود ہے۔ کروڑوں لوگ ذہنی صحت کے مسائل کے باوجود مدد مانگنے سے اس لیے ہچکچاتے ہیں کہ معاشرہ آج بھی ذہنی بیماری کو کمزوری، شرمندگی یا گناہ کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ رویہ کئی جانوں کو تباہی کے دہانے تک لے جاتا ہے۔

معاشی دباؤ بھی ایک اہم عنصر ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی، قرضوں کا بوجھ اور معاشی عدم استحکام ذہنی دباؤ کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ ایسے حالات میں ایک معمولی جھٹکا بھی فرد کو شدید اضطراب اور نہ ختم ہونے والی بے یقینی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ تحقیق یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ معاشی بحرانوں کے دوران خودکشی کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے، خصوصاً اُن معاشروں میں جہاں حفاظتی نظام کمزور اور ذہنی صحت کے وسائل محدود ہوں۔

جدید معاشرتی ڈھانچے نے ایک اور چیلنج بھی کھڑا کیا ہے سوشل میڈیا کا پریشر۔ نوجوان اکثر دوسروں کی کامیابیوں، خوبصورتی، دولت اور زندگی کے نمایاں پہلوؤں کو دیکھ کر خود کو ناکام اور کمتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہ غیر حقیقی تقابل اُن کے اندر مایوسی پیدا کرتا ہے، جو بعد ازاں شدید ذہنی تناؤ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف گھریلو تنازعات، تعلیمی دباؤ، رشتوں کی ناکامی اور تنہائی کا بڑھتا ہوا احساس بھی نوجوان ذہنوں کو توڑنے میں بڑی حد تک کردار ادا کر رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق وہ افراد جو خودکشی کے قریب ہوتے ہیں، اپنی کیفیت کو مختلف رویوں کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں، چاہے وہ الفاظ میں نہ کہہ پائیں۔ ان میں مسلسل مایوسی، مستقبل سے ناامیدی، سماجی روابط سے کنارہ کشی، نیند کے معمولات میں بگاڑ، اچانک غصہ یا غیر معمولی خاموشی، خود کو نقصان پہنچانے کے خیالات، یا زندگی کے معاملات کو یکایک سمیٹنا شامل ہیں۔ یہ تمام علامات کسی بڑے خطرے کی طرف اشارہ ہوتی ہیں، مگر بدقسمتی سے گھر والے اور دوست اکثر انہیں "مزاج" یا "وقت" کی تبدیلی کہہ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔

خودکشی کی روک تھام محض حکومتی منصوبوں پر منحصر نہیں بلکہ پورے معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ دنیا کے ایسے ممالک جہاں خودکشی کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی، وہاں سب سے پہلے ذہنی صحت پر گفتگو کے دروازے کھولے گئے۔ مشاورت کے مراکز، ہیلپ لائنز، فوری رسپانس یونٹس اور کمیونٹی سپورٹ سسٹمز نے ہزاروں جانیں بچائیں۔ پاکستان اور دیگر ممالک میں بھی اسی طرح کے نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ فرد اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے خوف یا شرمندگی محسوس نہ کرے۔

آگاہی مہمات اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ جب تک ذہنی بیماری کو عام انسانی مسئلہ تسلیم نہیں کیا جائے گا، کوئی بھی اصلاحی کوشش بارآور ثابت نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں ذہنی صحت کے پروگرام متعارف کروانا انتہائی ضروری ہے تاکہ نوجوان اپنے جذبات کو سمجھنے، ان کا اظہار کرنے اور بحران کی صورت میں مدد حاصل کرنے کا شعور پا سکیں۔

مذہبی اور اخلاقی رہنمائی بھی ناگزیر ہے۔ اسلام زندگی کو اللہ کی عطا کردہ امانت سمجھتا ہے اور مایوسی کو گناہ قرار دیتا ہے۔ مذہب امید اور صبر کی تلقین کرتا ہے اور انسان کو یاد دلاتا ہے کہ آزمائشیں عارضی ہوتی ہیں، مگر زندگی کی قدر مستقل رہتی ہے۔ ایسے نظریات مشکل وقت میں فرد کو سہار ا فراہم کر سکتے ہیں اور خودکشی کے راستے سے روک سکتے ہیں۔

اگر آپ کا کوئی جاننے والا خودکشی کے خیالات کا شکار ہے، تو اس کے ساتھ ہمدردانہ اور غیر تنقیدی رویہ اپنانا نہایت ضروری ہے۔ اس سے کھل کر بات کریں، اسے یہ احساس دلائیں کہ وہ اکیلا نہیں اور اسے فوری طور پر پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنے کی ترغیب دیں۔ یاد رکھیے کہ کبھی کبھی صرف ایک گفتگو، ایک جملہ، یا ایک لمحہ کسی کی پوری زندگی بدل سکتا ہے۔

دنیا بھر میں یہ بات بارہا ثابت ہو چکی ہے کہ خودکشی قابلِ روک تھام مسئلہ ہے، بشرطیکہ بروقت پہچانا جائے اور فرد کو سچا انسانی سہار ا فراہم کیا جائے۔ عالمی ادارہ صحت نے 2030ء تک خودکشی میں نمایاں کمی کا ہدف مقرر کیا ہے، مگر موجودہ رفتار اس کے حصول کے لیے ناکافی ہے۔ اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ ہر معاشرہ، ہر خاندان اور ہر فرد خود کو اس جدوجہد کا حصہ سمجھے۔

آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان جب زندگی سے ہاتھ اٹھانے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ جینا نہیں چھوڑتا، بلکہ تکلیف میں جینے سے عاجز آ جاتا ہے۔ ہمیں اُس تکلیف، اُس خاموش چیخ اور اُس اندرونی ٹوٹ پھوٹ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کسی ایک انسان کی بچائی گئی جان صرف ایک زندگی کی حفاظت نہیں، بلکہ انسانیت کے وقار کی بقا ہے۔ زندگی قیمتی ہے اور امید ہمیشہ موجود رہتی ہے بس کسی کو اس کی یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran