Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi/
  3. Kya Waqai Insan Ne Chand Fatah Kya Tha?

Kya Waqai Insan Ne Chand Fatah Kya Tha?

سوشل میڈیا پر عرصہ دراز سے بحث جاری ہے کہ کیا واقعی چاند پر انسان گیا تھا؟ اس ضمن میں مختلف سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ۔۔

چاند پر اب تک کوئی نہیں گیا۔۔ اگر گیا ہوتا تو آج کے دور میں دوبارہ ضرور جاتا۔ چاند پر جھوٹی فلم بنانے کی وجہ سے ناسا نے مزید سیکڑوں جھوٹ بولے۔ دنیا اس وقت ناسا کو سجدے کر رہی ہے کیونکہ کوئی اس قابل نہیں کہ وہ من گھڑت راز پا لیں جو ناسا نے بتائیں ہیں۔ آج لاکھوں امریکی عوام کو یقین ہے کہ وہ چاند پر نہیں گئے لیکن ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔

نیچے چند سوالات کیئےگئے ہیں۔ اگر کوئی بھی سائنسی اور عقلی دلائل سے جواب دے سکتا ہے تو وہ ضرور دے بڑی خوشی ہوگی۔

سوال نمبر 1۔

20 جولائی 1969 یعنی 56 سال قبل انسان چاند پر گیا تھا۔۔ اب اتنی زیادہ ٹیکنولوجی بڑھ گئی ہے امریکہ خود یا کوئی دوسرے دوبارہ جدید کیمروں اور جدید آلات کے ساتھ آج کے دور میں دوبارہ کیوں نہیں گئے۔ یعنی اس وقت امریکہ کے ڈرامے کے بعد جب رشیا اور چائینا نے بھی مخالفت میں باری باری ڈرامے کیئے تو یہ تینوں اپنے ڈراموں کے بعد آج کے دور میں دوسرا ڈرامہ کیوں نہ بنا سکے؟

سوال نمبر 2۔

کیوں چاند پر صرف امریکہ اور اس کے مخالفین ہی آپس کی دشمنی کی وجہ سے ڈراموں کا مقابلے کرتے رہے تھے؟ کیوں امریکہ حمایتی ملکوں میں سے کسی ایک کی بھی ہمت نہ ہوسکی چاند پر قدم رکھ کر امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی؟

سوال نمبر 3۔

جب چاند گاڑی چاند پر پہنچی تو چاند پر پہچنے کے بعد ایک عجیب قسم کی کار میں چاند کی زمین پر گھومے پھرے۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی چاند کار چاند گاڑی سے برآمد کیسے ہوئی؟ یعنی چھوٹی سی چاند گاڑی کے پیٹ میں اتنی گنجائش کہاں سے آئی اس کو اپنے اندر گھسانے کی؟ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس چاند کار کو چاند گاڑی سے برآمد ہونے کی ویڈیو کیوں نہیں بنائی گئی؟ کیونکہ یہ بھی ایک بھی ایک بہت بڑا کمال اور معجزہ تھا۔ ایک چھوٹی سی چاند گاڑی سے بڑی سی چاند کار کی برآمدگی بھی دنیا کو حیران کرنے کے لیے کافی تھی کیوں یہ والا ڈرامہ دکھلا کر مزید داد وصول کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ اور پھر اس کے بعد ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ یہ چاند گاڑی کس لفٹ کی مدد سے اتاری گئی اور دوبارہ کس لفٹ کی مدد سے چڑھائی گئی؟ اور آخر میں ایک اور سوال کیا چاند گاڑی چاند پر ہی چھوڑ آئے یا ساتھ واپس بھی لائے؟ اور اگر ساتھ واپس بھی لائے تو اس واپسی کا لفٹ کے ذریعے اوپر چڑھنے کا ڈرامہ ہمیں کیوں نہیں دکھلایا گیا؟

سوال نمبر 4۔

کہا جاتا ہے کہ نیل آرم سٹرونگ نے چاند پر سب سے پہلے قدم رکھا۔۔ تو جناب وہ کون کون سے فوٹوگرافر پہلے ہی چاند پر اتر چکے تھے جو چاند گاڑی کو اترتے ہوئے اور خود نیل آرمسٹروم صاحب کو اترتے ہوئے ان کی مووی بنا رہے تھے؟

اور ایک نہایت چھوٹی سی چاند گاڑی بغیر اندھن کے صرف اسپرنگ کی مدد سے دوربارہ کیسے چاند پر سے اُڑ کر دنیا تک آ گئی؟

اور چاند پر سے واپسی پر دوبارہ جب وہ اڑکر واپس آرہی تھی تب چاند پر بیٹھ کر کون کون سے فوٹوگرافر کیمرے کو گھوماتے ہوئے چاند گاڑی کی تصویر بنا رہے تھے؟

اور پھر وہ فوٹو گرفر کون سی چاند گاڑی سے واپس آئے؟

واپس آئے بھی یا وہیں رہ گئے؟

سوال نمبر 5۔

نیل آرم سٹرونگ صاحب کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے 25 اگست 2012 کو۔ امریکہ نے نیل آرم سٹرونگ صاحب کو ساری دنیا سے اور اپنے ملک کے میڈیا سے بھی کیوں چھپا کر رکھا؟

سوال نمبر6۔

چاند پر کئی تصاویر ایسی لی گئیں جن کے دو دو سائے تھے۔

کیا چاند پر دو سورج نکلتے ہیں؟ یا دو طرف سے سٹوڈیو لائیٹیں ڈلیں گئیں تھیں؟

سوال نمبر 7۔

چاند پر امریکہ نے جھنڈا گاڑا۔۔

جو جھنڈو گاڑا گیا وہ لہرا رہا تھا۔۔

چاند پر ہوا کہاں سے آئی؟ جبکہ خلا میں ہوا نہیں چلتی؟

سوال نمبر 8۔

چونکہ ناسا دنیا کے سوتھ پول کے بارے میں بہت سارے سوالات کے جواب نہیں دے پا رہا تھا اور خاص طور پر موسم کے بدلنے کے نظام کو تو اس نے سب کو بتایا کہ زمیں گول نہیں بلکی بیضوی ہے انڈے کی ماندد۔۔ لیکن حیرت ہے تمام فرضی تصاویر گول ہی پیش کرنا شروع کر دی گئی ہیں۔۔

بقول ناسا کے کشش زمین صرف 62 میل یعنی 100 کلو میڑ کے بعد سے ختم ہو جاتی ہے اور خلا شروع ہوجاتی ہے۔۔

اگر زمین ایک طرف سے سورج کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ بھی ایک طرف سے 1000 میل اور ساتھ ساتھ دوسری طرف سے 67000 میل فی گھنٹے کی رفتار سے تو ایک سیدھا چلتا ہوا راکٹ کیسے اتنا بڑا جھٹکا کیسے سہہ سکتا ہے؟

یعنی 67000 میل گھنٹے پر گھومتی ہوئی زمین کے مدار سے باہر نکلنا۔

بلکل ایسے جیسے کسی کو انتہائی تیز چلتی ہوئی کار سے باہر پھینکا جائے تو کیا وہ بڑے ہی آرام سے آگے چلتا رہے گا؟

سوال نمبر 9۔

20 جولائی 1969 کو چاند پر جانے کی کہانی کی وجہ سے امریکہ سپر پاور بنا۔

امریکہ یا پوری دنیا کیوں ہر سال بیس 20 جوالائی کو چاند ڈے کیوں نہیں مناتی؟

سوال نمبر 10۔

چاند خود بھی اپنے مدار پر گردش کر رہا ہے بقول ناسا کے اس کی اسپیڈ 3683 کلو میٹر فی گھنٹی ہے اور چاند اسی دوران 1290000 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے۔

ایک راکٹ کس طرح انتہائی تیز گھومتے ہوئے چاند کے اوربٹ(مدار)میں داخل ہوسکتا ہے؟

اس راکٹ نے فضا سے چاند کے اوربٹ میں داخل ہونے کا جھٹکا کیسے برداشت کیا؟

سوال نمبر 11۔

چاند گاڑی دوبارہ واپس کیسے اڑی؟

جبکہ دیکھلائی گئی چاند گاڑی کچھ عجیب طرح کی تھی چار ٹانگوں والی۔۔ اتنی چھوٹی سی گاڑی اڑ کیسے گئی بغیر انجیکٹر بغیر انجن اور بغیر فیول کے؟

سوال نمبر 12۔

اتنی چھوٹی سی چاند گاڑی میں سے بڑی سی چار پہیوں والی ایک اور گاڑی نکلی اور بغیر آکسیجن کے اسٹارٹ کیسے ہوئی؟

اور ناسا کے حساب سے چاند پر دنیا کی نسبت چھ گنا کم کشش ہونے کے باوجود جیسے دنیا میں گاڑیاں چلتی ہیں ویسے ہی کیسے چلتی ہوئی دکھلائی؟ یعنی بغیر اچھلتے کودتے تیرتے نارمل انداز میں کیسے دوڑی؟

سوال نمبر 13۔

نیل آرم سٹرونگ صاحب چاند کے مدار سے واپس کیسے نکلے 1290000 کلومیڑ گھومتے مدار سے نکلنا کیا مذاق ہے؟

سوال نمبر 14۔

چاند پر رات کے وقت فلم بنائی گئی اس میں کئی دفعہ آسامان دیکھلایا گیا کسی بھی دفعہ آسامان پر ستارے نہیں دیکھلائے گئے۔۔ کیا فضا میں ستارے ختم ہوگئے یا ایک سٹوڈیو میں فلم بنائی گئی؟

سوال نمبر 15۔

چاند گاڑی جو دیکھلائی گئی اس میں سلور اور گولڈن رنگ کے پیپر / کاغذ لیپٹے ہوئے تھے۔۔

چاند گاڑی پلاسٹک کے ٹائیروں والے پیر کے ساتھ جو چمکیلے سے ہوتے ہیں اکثر بچوں کی سائیکلوں کی پیکنگ میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور گفٹ پیپر میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔۔

یہ کاغذ یعنی چمکیلے شاپر لینڈنگ میں الگ نہیں ہوئے؟

سوال نمبر 16۔

جب نیل آرمسٹرونگ صاحب چاند پر چل رہے تھے تو ساتھ ساتھ بے تحاشہ گرد بھی اڑا رہے تھے کیونکہ ریگستانی علاقے میں فلم بن رہی تھی۔۔ سوال یہ ہے کہ یہ گرد ان چمکیلے پنی نما شاپر پر زرا سی بھی نہیں پڑی۔۔ حلانکہ لینڈنگ کے وقت بے تحاشہ گرد اڑنی چاہیئے تھی۔

سوال نمبر 17۔

نیل آرم سٹرونگ صاحب نے جو ہیلمٹ پہنا ہوا تھا ان کے ہیلمیٹ کے گلاس کور کے کونے میں ایک سرچ لائٹ کی روشنی نظر آرہی تھی۔۔

یہ چاند پر کیا اسٹریٹ لائٹیں لگائیں گئیں تھی یا اسٹوڈیو کی لائٹ تھی؟

سوال نمبر 18۔

جب چاند پر سے دنیا دکھلائی گئی تو وہ رنگین دکھلائی۔۔ کیا کبھی رات کو چاند رنگین سات رنگ کا دکھلائی دیتا ہے؟ کہتے ہیں چاند پر سے دنیا بھی ریفلیکٹ ہوتی نظر آتی ہے جیسے چاند نظر آتا ہے۔ کیا کبھی ریفلیکشن بھی رنگ برنگی ہوتی ہے؟

سوال نمبر 19۔

کہتے ہیں زمین چاند سے کئی گنا بڑی ہے۔۔ اگر واقعی سچ کہتے ہیں تو وہ زمین جو ناسا نے دکھلائی تھی وہ تو چاند کے برابر ہی نظر آ رہی تھی۔۔ کیسے چاند پر سے دنیا کا سائز بھی اتنا ہی بڑا نظر آیا جتنا ہمیں چاند نظر آتا ہے؟ کیوں دنیا کئی گنا بڑی نظر نہ آئی چاند پر سے؟

جوابات:

بہت اچھے اور منطقی سوالات پوچھے گئے ہیں شک و شبہ کا سوچنا سائنس کی روح ہے۔ میں آپ کے تمام سوالات (1 تا 19) بالترتیب سائنسی، تاریخی اور عقلی دلائل کے ساتھ واضح کرتا ہوں۔ کوشش کروں گا کہ ہر جواب مختصر مگر مستند ہو حوالہ جات عمومی سائنسی حقائق اور تاریخی ریکارڈز پر مبنی ہیں جو کھلے عوامی دستاویزات اور تحقیق پر مبنی ہیں۔

عمومی مقدمہ (مختصر):

1969 میں اپالو مشنز کے بارے میں جو مستند شواہد ہیں وہ صرف امریکی دعووں تک محدود نہیں، دنیا بھر کے آزاد رصدگاہوں، ریڈیو مشاہدات، چاند پر چھوڑے گئے سائنسرز (ریٹرو ریفلیکٹر، سیزمیٹر وغیرہ)، سائنسدانوں کے ہاتھوں میں آئے چاند کے نمونے اور بعد میں کسی تیسری پارٹی کی طرف سے لی گئی ہائی ریزولیوشن تصویریں یہ سب آزاد شواہد ہیں۔ یہ شواہد ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے ملتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ انسان چاند پر پہنچا تھا۔ نیچے تفصیل میں آئیں گے۔

سوال نمبر 1، "اب جدید ٹیکنالوجی ہے تو دوبارہ کیوں نہیں گئے؟"

حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی موجودگی خود ہر چیز کو فوراََ دوبارہ کرنے کا سبب نہیں بنتی۔ چاند پر انسان بھیجنا مہنگا، سیاسی اور رسک بھرا ہے۔ 1970s کے بعد فنڈنگ اور سیاسی ترجیحات تبدیل ہوئیں ویتنام، اقتصادی مسائل، سٹلائٹ/انٹرسپیٹل پروگرامز وغیرہ نے اپالو جیسے بڑے انسانی لانچ پروگرام کی جگہ نہیں دی۔

2020 سے بعد میں بھی مختلف ممالک اور نجی کمپنیاں چاند پر مطالعہ اور انسان بھیجنے کی کوششیں کر رہی ہیں (مثلاً نیویزمِ/آرٹیمِس منصوبے وغیرہ) مطلب دوبارہ جانا تکنیکی طور پر ممکن ہے مگر پالیسی اور فنڈنگ کا مسئلہ ہے، اس لیے فوری متعدد manned مشنز نہ ہونا سازش کا ثبوت نہیں۔

سوال نمبر 2، "صرف امریکہ اور مخالفین نے ڈرامے کیے؟"

کسی ملک کے پاس چاند پر انسان بھیجنے کی صلاحیت صرف پیسہ، ٹیکنالوجی اور طویل سیاسی ارادے کا اجتماع مانگتی ہے۔ سویت یونین (سوویت)، امریکا فی زمانہ ہی وہی دو طاقتیں تھیں جن کے پاس انسانی چاند لینڈنگ کی صلاحیت تک پہنچنے کا موقع تھا۔

دوسرے اتحادی ملکوں کے پاس پروگرام کی پیمائش یا سیاسی محرکات موجود نہ تھے۔ بعد میں بہت سے ملکوں اور نجی اداروں نے خلاء میں دلچسپی بڑھائی ہے مگر 1960s-70s کا دور سیاسی مسابقہ (ریس) تھا۔

سوال نمبر 3، "چاند گاڑی (روور) کیسے برآمد ہوئی؟ لفٹ/ویڈیو کیوں نہیں دکھائی گئی؟ واپس لائی یا نہیں؟"

چاند گاڑی (Lunar Rover) دراصل ایک فولڈیبل آلہ تھی جو اپولو مشنز کی لونا لینڈر (Descent Stage) کے ساتھ پیک کیا گیا تھا۔ یہ چھوٹا تھا، فولڈ ہوکر لینڈر کے باہر ایک خاص کیریج/فریم میں لگایا جاتا تھا۔ جب زمین پر اترنے کے بعد چاند پر سیٹ آپ کرنا ہوتا تھا تو وہ خود بخود یا ہاتھوں سے کھول کر زمین پر اتارا گیا یہ فولڈ/انفولڈ میکانزم ریکارڈ اور تکنیکی ڈایاگرام میں موجود ہے۔

ویڈیو: کچھ مناظر براہِ راست دکھائے گئے، کچھ رولز اور ٹرانسمیشنز ریکارڈنگ کے دوران محدود زاویوں سے آئیں سارا عمل کیمروں (بعض اوقات ہیلی سلِفی کلپ، Hasselblad) سے فلمایا گیا۔ ہر چیز کا مکمل 360° فلم نہ دکھایا جانا راز یا سازش کا ثبوت نہیں براہِ راست نشریات ٹیکنیکل حدود کی وجہ سے محدود تھیں۔

واپس لے جانا: Lunar Rover زمین پر چھوڑ دیا گیا، اسے واپس نہیں لایا گیا وہ چاند پر ہی رہ گیا۔ (اپالو کے روزنامچوں اور تکنیکی دستاویزات میں یہی ہے۔)

سوال نمبر 4، "فوٹوگرافر کون تھے؟ ہیلمیٹ/کیمرا کیسے؟"

اپولو کے کیمرے زیادہ تر خود آسٹرانالٹس نے ہی ہاتھ میں یا جسم پر باندھ کر استعمال کیے (Hasselblad مخصوص کیمرے)۔ جب نیل آرمسٹرونگ اتر رہے تھے تو باسکٹ میں موجود دوسرے آسٹرانالٹ (جیسے باز الدرن) باہر یا اندر مخصوص زاویوں سے تصاویر لیتے تھے۔ یعنی جو منظر آپ ویڈیو میں دیکھتے ہیں، اس میں اکثر ایک آسٹرانالٹ کیمرہ ہینڈ کرکے دوسرے کا ریکارڈ کر رہا تھا۔

چاند گاڑی کا "اُڑنا" ایسا نہیں ہوا۔ جو چاند گاڑی کی نقل و حرکت دکھتی ہے وہ الیکٹرک موٹرز سے چلتی تھی، وہ واپس نہیں اڑتی، فالسی مفروضہ غالبًا سمجھنے میں غلطی ہے۔

سوال نمبر 5، "نیل آرمسٹرنگ کو میڈیا سے چھپایا گیا کیوں؟"

نیل آرمسٹرونگ ایک انتہائی نجی نوعیت کے شخص تھے۔ ان کی موت (2012) کے بعد بھی ان کی ذاتی زندگی پر قابو رکھنے کی کوششیں ان کے اہلِ خانہ نے کیں۔ یہ "چھپانا" نہیں، بلکہ نجی حیثیت اور عیاشی سے بچاؤ تھی۔ اس کا کوئی تعلق مشن کی صداقت سے نہیں۔

سوال نمبر 6، "چاند پر تصاویر میں دو دو سائے کیوں؟"

دو سائے مختلف وجوہات سے بنتے ہیں: سطح کا ناہموار ہونا، سورج کی یکطرفہ روشنی کے علاوہ زمین سے عکاس روشنی (البیڈو) یا سپیس کرافٹ کے منی فلٹس سے بازتاب، وسیع زاویہ لینس اور ایکسٹینڈڈ سورس سے روشنی کا بکھراؤ۔ اس سے "دو سایے" نظر آ سکتے ہیں مگر اس کا مطلب دو سورج یا اسٹوڈیو لائٹس بالکل لازم نہیں۔

سوال نمبر 7، "جھنڈا لہرا رہا تھا، ہوا کہاں سے؟"

چاند پر جھنڈے میں ایک افقی راڈ (rod) لگائی جاتی تھی تاکہ وہ پھیلا رہے۔ جب آسٹرانالٹس نے جھنڈا گاڑا تو ہاتھ کی حرکت اور راڈ کے فولڈنگ/انفولڈنگ کی وجہ سے جھلملاتی حرکت ظاہر ہوئی اور چونکہ کوئی ہوا نہیں ہے، وہ آہستہ آہستہ ٹکے رہ گئی۔ تصویر میں جو "لہرانا" لگتا ہے، وہ حرکت کی باقیات (inertia) ہیں، نہ کہ ہوا کی موج۔ اس کی سمجھ کے لیے خلا کے ماحولیاتی فرق کو ذہن میں رکھیں۔

سوال نمبر 8، "زمینی رفتار، کشش، 62 میل کے بعد خلا شروع ہونے کا سوال، راکٹ کا جھٹکا"

غلط فہمی: خلا کی تعریف سیدھی لائن میں، 62 میل کے بعد جیسی سادہ حد نہیں۔ عام اصطلاح میں Kármán لائن (~100 کلومیٹر) کو خلا کی روایتی سرحد مانا جاتا ہے، 62 میل (100 کلومیٹر) اسی مفہوم سے مشابہ ہے۔

زمین کی گردش (spin) اور سورج کے گرد حرکت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو کسی مخصوص، جھٹکے سے نکلنا پڑے۔ راکٹ بنیادی کام زمین کی کشش سے بچ کر مطلوبہ مداری رفتار (orbital velocity) حاصل کرنا ہے یعنی راکٹ پہلے مدار میں داخل ہوتا، پھر تبادلۂ مداری (trans-lunar injection) کے ذریعے چاند کی طرف جاتا۔ جہاز زمین کے ساتھ حرکت کر رہا ہوتا ہے (اسی فریم میں رفتار لی جاتی ہے)، راکٹ کو پوری زمین کی رفتار "ریورس" کرنی نہیں پڑتی۔ اس اصول کو نیوٹنین اور کیپلرین مداری میکینکس سے سمجھا جاتا ہے، کوئی جاہلانہ پھینکا جانا جیسا کہ درج بالا سوالات میں مثال دیا، وہ حقیقت نہیں۔

سوال نمبر 9، "20 جولائی کو ہر سال چاند ڈے کیوں نہیں مناتے؟"

20 جولائی عالمی سطح پر رسمی تعطیل یا عالمی جشن کا موضوع نہ بننے کی وجہیں، قومی تاریخ/ثقافتی ترجیحات، سیاسی انتخاب اور یہ کہ اپالو کے دن مختلف ممالک میں مختلف انداز سے یاد کیے جاتے ہیں۔ کچھ ادارے، خلائی تنظیمیں اور شوقیہ گروہ اس دن تقریبات کرتے ہیں۔ مگر عالمی سطح کی چھٹی یا 'Moon Day' بنانا سیاسی فیصلہ ہوتا حقیقت میں یہ تاریخی دن اہم ہے، مگر ہر ملک نے اسے نمائشی عید بنایا نہیں۔

سوال نمبر 10، "چاند کا مدار تیز ہے، راکٹ کیسے داخل ہوا؟ جھٹکا کیسے برداشت کیا؟"

مداری انضمام (orbital insertion) میں راکٹ کو چاند کے قریب پہنچ کر حرکیاتی تال میل (braking burn، mid-course corrections) کرنی ہوتی ہے، یہ بالکل ایسا نہیں کہ راکٹ، اچانک 1,290,000 کلومیٹر کی گردش سے باہر پھینک دیا جائے۔ راکٹ کی رفتار، کشش ثقل اور سیدھ طے شدہ حساب کے مطابق کنٹرول کی جاتی ہے۔ خلائی مرحلے (stages) اور بلند رفتار میں بھی راکٹ / کرافٹ کے ڈیزائن اس رفتار کو برداشت کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں کوئی غیر معمولی جھٹکا نہیں بلکہ مسلسل کنٹرولڈ برن ہوتا ہے۔

سوال نمبر 11، "چاند گاڑی واپس کیسے اڑی؟ بغیر انجن/فیول؟"

چاند گاڑی (Lunar Rover) واپس نہیں اڑی وہ چاند پر ہی رہ گئی۔ جو چاند گاڑی چلتی دکھائی دیتی تھی وہ اندرونِ گاڑی موجود الیکٹرک موٹرز اور بیٹریوں سے چلتی تھی، نہ کہ rocket engine سے۔ آپ نے غالباً اس منظر کو غلط سمجھا۔

سوال نمبر 12، "چھوٹی گاڑی میں سے بڑی گاڑی نکلی؟ کشش کم ہونے کے باوجود نارمل دوڑ کیسے؟"

کوئی، چھوٹی گاڑی سے 'بڑی گاڑی' نکلنے کا واقعہ نہیں شاید سائل فولڈیبل روور اور اس کی ڈپلائمنٹ کو دیکھ کر الجھے ہیں۔

کششِ ثقل چاند پر زمین کی نسبت تقریباً 1/6 ہے، اس سے حرکت مختلف ہوتی ہے مگر روور کے ڈیزائن (برقی موٹر) اور کم ریزسٹنس کی وجہ سے وہ "نارمل انداز" میں چلتی دکھائی دیتی ہے، بس قدم اور جھٹکے کم/زیادہ مختلف محسوس ہوتے۔ آسٹرانالٹس کی حرکات پر غبارہ نما ذرات کے چھوٹے اثرات کم تھے کیونکہ ذرات کم ہوا نہ ہونے کی وجہ سے سیدھے اوپر نہیں اٹھتے جیسے زمین پر اٹھتے ہیں، بلکہ وہ انرشیا کے تحت مختلف طریقے سے حرکت کرتے۔

سوال نمبر 13، "نیل آرمسٹرونگ چاند مدار سے واپس کیسے نکلے؟"

چاند کی جانب سے واپس نکلنے کا مطلب تھا: Lunar Module (ascent stage) نے اپنا مخصوص انجن جلایا، اسی سے وہ مدار سے اوپر آیا اور command/service module سے dock کیا۔ پھر تبادلہ عمل اور پھر واپس زمین کیلئے ٹرانس-اِرٹِھرِئیل (TEI) برن۔ یہ پورا مرحلہ حساب شدہ اور کنٹرولڈ تھا۔ یہ 'مذاق' نہیں، بلکہ روایتی خلائی ڈیزائن اور فلائٹ مینیجمنٹ ہے۔

سوال نمبر 14، "چاند پر ستارے فلم میں کیوں نہیں دکھائے گئے؟"

ستارے کم دکھائی دینے کی وجہ کیمرہ ایکسپوژر ہے، چاند کی سطح اور لینڈنگ کرافٹ بہت روشن ہوتے ہیں (براہِ راست سورج کی روشنی) کیمرہ کی شٹر اس قدر چھوٹی ہوتی ہے کہ بہت مدھم ستارے ایکسپوز نہیں ہو پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اسی ویڈیو میں ستارے نہ دکھیں یہ فاکس/سٹوڈیو والا دلیل نہیں بلکہ فوٹوگرافک حقیقت ہے۔ اسی طرح، زمین کی روشنیاں یا ریفلیکشنز مختلف ایکسپوژرز میں دکھائی دیتی ہیں۔

سوال نمبر 15، "چاند گاڑی پر لیپٹی ہوئی سلور/گولڈن شِیٹس (کمپوزٹ) کیوں نہیں اڑی؟"

وہ میلٹی لئیر انسولیشن (MLI) تھی termal blankets جو سختی سے چسپاں کی جاتی ہیں اور ویکیوم ماحول میں ہوا نہ ہونے کی وجہ سے انہیں 'اڑ جانا' ممکن نہیں۔ اگر کچھ چھوٹا ملبہ ہٹتا بھی تو اس کا بازتاب یا اثر بڑے پیمانے پر دکھائی نہیں دیتا۔ لینڈنگ کے دوران متاثر ہونے والی چیزیں سیکنڈی رنگ سے منسلک یا لگائی ہوئی تھیں اور ان کے ڈیزائن میں یہ شامل تھا کہ وہ جگہ پر رہیں۔

سوال نمبر 16، "گرد ذرات ہر جگہ اڑ رہے تھے مگر شِیٹ پر نہیں پڑی؟"

چاند کا مٹی (regolith) بہت باریک، الیکٹروسٹیٹک اور چپچپا ہے۔ جب لینڈنگ میں ذرات اڑتے تو وہ یا تو دور چلے گئے یا مخصوص انداز سے بکھر گئے۔ شِیٹس پر ذرات کم نظر آ سکتے ہیں کیونکہ وہ لائنڈ/چمکدار surfaces کا عکس بدل دیتے ہیں یا فوٹو میں وہ دھند میں مل جاتے ہیں۔ البتہ فزیکل شواہد میں چاند کے نمونوں اور فوٹوز میں dust کے بہت آثار ملے ہیں مطلب dusty surfaces کی شواہد موجود ہیں۔

سوال نمبر 17، "ہیلمیٹ گلاس کے کونے میں سرچ لائٹ کی روشنی نظر آنا اسٹوڈیو لائٹ؟"

وہ عموماً سورج کی روشنی کا ریفلیکشن ہوتا ہے یا لینڈر کے سائیڈوں سے منعکس روشنی۔ ہیلمٹ کے وِزور پر عکاسی واضح ہوتی ہے اور اس میں آپ لینڈر، آسٹرانالٹس، سورج وغیرہ کی عکاسی دیکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں مصنوعی سٹریٹ لائٹس تھیں۔

سوال نمبر 18، "زمین چاند سے رنگین کیوں نظر آئی؟"

زمین کی سطح (براعظم، سمندر، بادل) رنگین ہے اور چاند سے دکھائی دینے والا منظر مخصوص ایکسپوژر اور روشنی کے لحاظ سے رنگین نظر آ سکتا ہے۔ مگر عام طور پر زمین کی صاف تصویر رنگین بھی دکھا سکتی ہے، یہ غیر معمّی بات نہیں۔ ریفلیکشن کے رنگین ہونے کے امکان کچھ مخصوص فلٹرز/ایکسپوژرز پر منحصر ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 19، "چاند سے زمین کا سائز چاند کے برابر کیوں دکھا؟"

آنکھ یا کیمرہ میں perspective اور focal length کا بڑا کردار ہے۔ چاند سے دنیا (زمین) ایک مخصوص زاویہ اور focal طول کے تحت کیمرے/آنکھ میں آتی ہے جس سے زمین کا دکھائی دینے والا سائز نسبتاً بڑا محسوس ہو سکتا ہے۔ اپولو فوٹوز میں زمین کے زاویہ، کیمرہ focal length اور distance کے اثرات کی وجہ سے زمین ایک مخصوص سائز میں دکھائی دیتی ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ زمین چاند کے برابر ہے۔ حقیقی سائز اور فاصلہ جاننے کے لیے ریاضیاتی کیلکولیشن کی جاتی ہے، جو زمین کو چاند سے بہت بڑی ظاہر کرتی ہے۔

اضافی ٹھوس شواہد (مختصر فہرست جو آپ کسی سے بھی تصدیق کرا سکتے ہیں)

1۔ چاند کے نمونے (Moon rocks): زمین سے مختلف معدنی خصوصیات، isotopic compositions اور بہت بڑی عمر ہزاروں سائنسدانوں نے ان کا تجزیہ کیا۔

2۔ ریٹرو ریفلیکٹرز (Laser retroreflectors): اپالو مشنز اور سوویت Lunokhod نے چاند پر ریٹرورفلیکٹرز چھوڑے آج بھی زمین سے لیزر بیم ماری جاتی ہیں اور distance accurate ماپی جاتی ہے۔

3۔ بین الاقوامی ٹریکنگ: سوویت یونین، زمین پر موجود آزاد ریڈار و ریڈیو رصدگاہیں اور خلائی مشاہدہ کاروں نے اپالو مشنز کو ٹریک کیا یہ صرف امریکی دعویٰ نہیں۔

4۔ لینڈنگ سائٹس کی جدید تصویریں: (بعد کے خلائی دور کے خلائی جہازوں نے) ہائی ریزولیوشن سے اپالو لینڈنگ سائٹس اور آسٹرانالٹس کے ٹریک دکھائے یہ آزاد ثبوت ہیں۔

5۔ سیزمیٹر اور سائینس مشینز کے ڈیٹا: چاند پر چھوڑے گئے آلات نے وہاں سے سائنسی ڈیٹا واپس بھیجا (مثلاً moonquakes) یہ ریکارڈز موجود ہیں۔

آخر میں شک و شبہ کا جواب (خلاصہ)

ان سوالات میں جو چیز بنیادی طور پر ہے وہ دو شکوک پر مبنی ہیں: (الف) کہ ویڈیوز/فوٹوز اسٹوڈیو میں بنائی گئیں اور (ب) کہ تکنیکی طور پر یہ ممکن نہیں تھا۔ ان دونوں دعووں کا جواب یہ ہے کہ بہت سے آزاد، سائنسی اور تکنیکی شواہد ایسے ہیں جو آپس میں مطابقت رکھتے ہیں چاند کے حقیقی نمونے، ریٹرو ریفلیکٹرز، آزاد رصدگاہوں کی ٹریکنگ اور بعد میں لی گئی ہائی-ریزولیوشن تصویریں یہ سب مل کر ثابت کرتے ہیں کہ انسان چاند پر گئے تھے۔

بہت سی چیزیں جو سوالات میں پوچھی گئیں (ستارے نہ دکھنا، جھنڈا لہرانا، ڈپلائبل روور وغیرہ) فوٹوگرافک اصول، خلائی ڈیزائن اور فزکس سے آسانی سے سمجھائی جا سکتی ہیں ان میں سے کوئی بھی نقطہ خود بہ خود بڑی سازش یا جھوٹ کا قاطع ثبوت نہیں ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran