اسلام ایک ہمہ گیر، مکمل اور فطری دین ہے جو نہ صرف فرد کی روحانی تربیت کرتا ہے بلکہ معاشرے کی تعمیر، اخلاقی ترقی اور اجتماعی فلاح کا پورا نظام بھی فراہم کرتا ہے۔ اس دین کی روح کو عملی شکل دینے کے لیے رسول اکرم ﷺ نے جو پہلا ادارہ قائم کیا، وہ مسجد تھی۔ مسجد کا مفہوم صرف عبادت کی جگہ تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک جامع سماجی ادارہ، فکری مرکز، تعلیمی درسگاہ، سیاسی مشاورت کا مقام، فلاحی سرگرمیوں کا مرکز اور روحانی تربیت گاہ کے طور پر سامنے آتی ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے جب مدینہ منورہ میں مسجد نبویﷺ کی بنیاد رکھی تو اس وقت یہ مسجد نہ صرف نماز کا مرکز بنی بلکہ پوری اسلامی ریاست کا محور قرار پائی۔ یہی مسجد تھی جہاں اسلامی لشکرکے لیے مشورے دیے جاتے، جہاں بیت المال کے فیصلے ہوتے، جہاں سفر سے آنے والے قافلے قیام کرتے اور جہاں غرباء، یتیم اور مسافر پناہ پاتے۔ یہ مسجد نبویﷺ ایک ایسا جامع ادارہ تھی جہاں علم، عدل، روحانیت، فلاح، مشاورت اور قیادت سب یکجا ہو گئے تھے۔ یہی ماڈل خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی اپنایا گیا اور بعد کے اسلامی ادوار میں مساجد ریاستی اور سماجی قیادت کا مرکز بنیں۔
قرونِ وسطیٰ کی مسلم دنیا میں، دمشق کی جامع مسجد، قرطبہ کی عظیم الشان مسجد، بغداد کی مسجد منصور، بخارا، سمرقند، قاہرہ اور نیشاپور کی مساجد نے نہ صرف دینی تعلیم دی بلکہ فلسفہ، ریاضی، طب، فلکیات، ادب اور قانون جیسے علوم میں بھی رہنمائی فراہم کی۔ ان مساجد میں نہ صرف قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی تھی بلکہ وہاں کے حلقۂ درس میں دنیا بھر کے طلبہ بیٹھ کر علم حاصل کرتے تھے۔ مسجد کا منبر نہ صرف اللہ کی وحدانیت کا اعلان کرتا تھا بلکہ سماجی عدل، معاشی مساوات اور اخلاقی بلندی کا پیغام بھی دیتا تھا۔
تاہم جب امت مسلمہ نوآبادیاتی نظاموں، سیکولر حکومتوں اور فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہوئی تو مسجد کا کردار محدود ہونا شروع ہوگیا۔ بہت سی جگہوں پر مسجد کو محض اذان، نماز اور خطبہ جمعہ تک محدود کر دیا گیا۔ ریاست نے مسجد کو سیاست سے الگ کر دیا، علما کو غیر متعلق بنا دیا اور تعلیم کو دینی و دنیاوی خانوں میں تقسیم کرکے ایک ایسا خلا پیدا کر دیا جس سے مسجد کا سماجی کردار معدوم ہوتا گیا۔ اسی وجہ سے مسجد کا ربط نوجوانوں سے بھی کمزور پڑ گیا اور ایک ایسا ادارہ جو کبھی زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی دیتا تھا، آج محض ایک عبادت گاہ کا تاثر پیش کر رہا ہے۔
لیکن اس تمام زوال کے باوجود، کئی ممالک میں مساجد اب بھی اپنی اصل روح کے ساتھ زندہ نظر آتی ہیں۔ بالخصوص مغربی دنیا میں، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، مساجد جدید کمیونٹی سینٹرز کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان مساجد میں قرآن کلاسز، خواتین کے لیے تربیتی نشستیں، یوتھ پروگرامز، بین المذاہب مکالمہ، فلاحی سرگرمیاں اور یہاں تک کہ شادی، روزگار اور ذہنی صحت سے متعلق مشورے بھی دیے جا رہے ہیں۔ ان مثالوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مسجد آج بھی سماجی تبدیلی کا محرک بن سکتی ہے، اگر اس کے امکانات کو درست انداز میں بروئے کار لایا جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ مستقبل میں مسجد کا کردار کیا ہو سکتا ہے؟ اور ہمیں کیا کرنا ہوگا کہ مسجد کو ایک بار پھر امت کا فکری، روحانی اور سماجی مرکز بنایا جا سکے؟ اس حوالے سے چند اہم نکات غور طلب ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں مسجد کو صرف عبادت کا مقام نہ سمجھنا ہوگا بلکہ اسے "جامع مرکز" کی صورت میں دیکھنا ہوگا۔ جہاں تعلیم، تربیت، رہنمائی، فلاح، مشاورت اور سماجی خدمت سب جمع ہوں۔ مسجد میں نوجوانوں کے لیے یوتھ کلبس، ٹیکنالوجی ورکشاپس، دینی و سائنسی لیکچرز، قائدانہ تربیت اور صحت و فلاح کے پروگرامز شامل کیے جائیں۔ اس سے مسجد نوجوانوں کے لیے پرکشش اور بامعنی ادارہ بنے گی۔
خواتین کی شمولیت بھی مسجد کے سماجی کردار کو وسعت دینے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ ابتدائے اسلام میں خواتین مسجد میں آتی تھیں، سوال کرتی تھیں، تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ ہمیں چاہیے کہ آج کی خواتین کے لیے بھی علیحدہ تربیتی حلقے، اخلاقی و علمی نشستیں اور سماجی خدمت کے مواقع فراہم کریں تاکہ وہ بھی معاشرے کی اصلاح میں کردار ادا کر سکیں۔
علمائے کرام کو جدید علوم سے آگاہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر وہ صرف چند فقہی مسائل یا روایتی خطبات تک محدود رہیں گے تو مسجد عصر حاضر کے چیلنجز سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے گی۔ علما کو تربیت دی جائے کہ وہ نفسیات، سوشل ورک، معاصر سیاسیات، میڈیا اور ٹیکنالوجی سے واقف ہو کر نوجوانوں اور عوام کو درست سمت میں رہنمائی فراہم کریں۔
مسجد کا ایک اہم کردار فرقہ واریت کے خاتمے اور اتحادِ امت کے فروغ میں بھی ہونا چاہیے۔ مسجد کو وہ مقام بنانا ہوگا جہاں تمام مکاتب فکرکے افراد خود کو محفوظ اور باعزت محسوس کریں۔ وہاں علمی مکالمہ، بین المسالک برداشت اور اجتماعی سوچ کو فروغ دیا جائے۔ اسی طرح غیر مسلموں سے بھی رابطہ اور مکالمہ مسجد کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے تاکہ اسلام کا پرامن اور عادلانہ پیغام دنیا تک پہنچے۔
مسجد کو سوشل میڈیا، یوٹیوب، ایپس اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے نئی نسل سے جوڑنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ جمعہ کے خطبات، تعلیمی ویڈیوز، سوال و جواب سیشنز اور اصلاحی پیغام آن لائن دستیاب ہوں تاکہ مسجد کا پیغام صرف محدود دیواروں تک نہیں بلکہ دنیا بھر کے دلوں تک پہنچے۔
آج جب دنیا اخلاقی بحران، روحانی خلا، معاشرتی اضطراب اور ذہنی تناؤ سے گزر رہی ہے، تو مسجد ہی وہ مرکز ہے جو انسان کو سکون، ہدایت، اجتماعیت اور فلاح دے سکتی ہے۔ مسجد وہ جگہ ہے جہاں دل جھکتے ہیں، ذہن کھلتے ہیں، روحیں سنورتی ہیں اور معاشرہ جڑتا ہے۔
مسجد کو دوبارہ زندگی دینے کا عمل صرف حکومتی سطح پر نہیں بلکہ ہر فرد کی ذمے داری ہے۔ اساتذہ، والدین، نوجوان، تاجر، علماء اور کمیونٹی لیڈرز سب کو مل کر مسجد کو فعال، مفید، بامقصد اور ہمہ گیر ادارہ بنانا ہوگا۔ مسجد کے دروازے علم، عدل، محبت، خدمت اور وحدت کے لیے کھلے ہوں اور وہاں سے نکلنے والی روشنی صرف دیواروں تک نہیں بلکہ دلوں تک پہنچے۔
اگر ہم مسجد کو اس کی اصل روح کے ساتھ دوبارہ زندہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ امت کی بیداری، نجات اور عروج کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ مسجد وہ چراغ ہے جو بیک وقت دل، دماغ اور معاشرے کو روشن کرتا ہے۔ آج ہمیں اسی چراغ کو پھر سے روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ مسجد کے اندر وہی روشنی واپس لانی ہوگی جو کبھی دلوں کو گرماتی، دماغوں کو روشن کرتی اور معاشروں کو جوڑتی تھی۔
جہاں مسجد بیدار ہوتی ہے، وہاں امت بیدار ہوتی ہے۔ جہاں مسجد خاموش ہوتی ہے، وہاں قومیں زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔ آج کے دور میں مسجد کا سماجی کردار محدود نہیں بلکہ مزید وسعت کا متقاضی ہے۔ اگر ہم نے یہ موقع کھو دیا، تو کل کا مؤرخ ہماری بے حسی پر ماتم کرے گا، لیکن اگر ہم نے بروقت جاگ کر مسجد کو مرکزِ بیداری بنایا، تو آنے والے زمانے ہمیں سلام کریں گے۔