Saturday, 06 December 2025
  1. Home/
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi/
  3. Mazdoor Zindabad

Mazdoor Zindabad

یومِ مزدور محنت کشوں کی عظمت، قربانی اور جدوجہد کی روشن علامت ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال یکم مئی کو یومِ مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن ان محنت کشوں کی جدوجہد، قربانی اور حقوق کی بازیابی کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے معاشی انصاف، کام کے بہتر حالات اور انسانی وقار کے لیے قربانیاں دیں۔ یومِ مزدور کا پیغام محض ایک چھٹی کا اعلان نہیں بلکہ یہ انسانی محنت کی قدر و منزلت، طبقاتی انصاف اور معاشرتی مساوات کی تلقین کرتا ہے۔

یومِ مزدور کی تاریخ 1886ء کے شہر شکاگو (امریکہ) سے جڑی ہوئی ہے، جہاں صنعتی انقلاب کے بعد مزدوروں سے طویل اوقات کار میں کام لیا جاتا تھا اکثر 12 سے 16 گھنٹے روزانہ۔ مزدوروں نے ان غیر انسانی حالات کے خلاف آواز اٹھائی اور 8 گھنٹے کام، 8 گھنٹے آرام اور 8 گھنٹے ذاتی وقت کے نعرے کے ساتھ ایک پرامن تحریک کا آغاز کیا۔

یکم مئی 1886ء کو امریکہ بھر میں لاکھوں مزدور ہڑتال پر چلے گئے۔ شکاگو میں ہی مارکیٹ اسکوائر پر جب مزدور مظاہرہ کر رہے تھے تو پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ ہوگئی۔ ایک بم دھماکے کے بعد پولیس کی فائرنگ سے کئی مزدور شہید ہو گئے اور بعد ازاں مزدور رہنماؤں کو پھانسی دے دی گئی۔ انہی قربانیوں کی یاد میں 1889ء میں انٹرنیشنل سوشلسٹ کانگریس نے یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔

یومِ مزدور ہمیں درج ذیل اہم نکات کی طرف توجہ دلاتا ہے:

1۔ محنت کش کی عزت و توقیر: ہر کام، خواہ وہ جسمانی ہو یا ذہنی، انسان کی بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اسلام اور دیگر مذاہب نے بھی محنت کو عبادت قرار دیا ہے۔

2۔ حقوق کی فراہمی: مزدوروں کو ان کی محنت کا مناسب معاوضہ، صحت و سلامتی، آرام کے اوقات، سوشل سکیورٹی اور ملازمت کا تحفظ دینا معاشرے کی ذمہ داری ہے۔

3۔ طبقاتی ہم آہنگی: سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان خلیج کو کم کرنا، معاشی انصاف قائم کرنا اور معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے۔

4۔ اجتماعی شعور کی بیداری: یہ دن مزدور طبقے کو اپنی طاقت، اتحاد اور جدوجہد کے ذریعے تبدیلی لانے کے شعور سے آگاہ کرتا ہے۔

پاکستان میں یومِ مزدور پہلی بار 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک ہر سال یکم مئی کو قومی تعطیل کی جاتی ہے، جلسے، سیمینارز اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ پاکستان کے آئین میں بھی مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔

دفعہ 11: جبری مشقت پر پابندی عائد کرتی ہے۔

دفعہ 37(e): محفوظ اور صحت مند حالات کار کی فراہمی کی ضمانت دیتی ہے۔

دفعہ 38: بنیادی ضروریات کی فراہمی، جیسے خوراک، رہائش، تعلیم اور علاج کی یقین دہانی کراتی ہے۔

سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹیٹیوشن (SESSI) اور ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹیٹیوشن (EOBI) جیسے ادارے مزدوروں کو طبی سہولیات، پنشن، مالی امداد اور دیگر حقوق مہیا کرنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں اور ان کی کارکردگی ہر طرح سے اطمنان بخش اور قابل تحسین ہے۔

اگرچہ قانوناً مزدوروں کے حقوق تسلیم کیے گئے ہیں، مگر زمینی حقائق نہایت مختلف اور افسوسناک ہیں:

1۔ غیر رسمی شعبہ: پاکستان کی معیشت کا بڑا حصہ غیر رسمی شعبے پر مشتمل ہے، جہاں مزدور رجسٹرڈ نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے لیے کسی سوشل سیکیورٹی کی سہولت میسر ہوتی ہے۔

2۔ کم از کم اجرت: حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت مقرر کی جاتی ہے، لیکن بیشتر ادارے اس پر عملدرآمد نہیں کرتے۔ خاص طور پر نجی فیکٹریوں، ورکشاپس اور گھریلو ملازمین کو ان کا جائز حق نہیں دیا جاتا۔

3۔ کام کے غیر انسانی اوقات: بہت سے اداروں میں آج بھی 10 سے 14 گھنٹے روزانہ کام لیا جاتا ہے، بغیر کسی اضافی معاوضے اور آرام کے۔

4۔ صنفی امتیاز: خواتین مزدوروں کو کم اجرت، کام کے ناگفتہ بہ حالات اور ہراسانی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

5۔ ٹریڈ یونین پر دباؤ: جہاں مزدور یونینز موجود ہیں، وہاں اکثر انہیں دبا دیا جاتا ہے یا ان کے رہنماؤں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔

اسلام نے محنت کو عبادت قرار دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے"۔ (کنز العمال)

حضرت عمرؓ نے ایک مزدور کے ہاتھ کو بوسہ دے کر فرمایا: "یہ ہاتھ کبھی جہنم کی آگ کو نہیں چھوئے گا"۔ اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کیا جائے تو مزدور کا استحصال ممکن ہی نہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں مزدور کے حقوق کو قانونی، سماجی اور معاشی تحفظ حاصل ہے۔ وہاں۔۔

لیبر لاءز کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے۔

ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ کارکنان کی فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔

ہیلتھ انشورنس، بونس، سالانہ چھٹیاں اور پینشن اسکیمز عام ہیں۔

پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں ان مثالوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ محنت کش کو عزت اور معاشی تحفظ دیا جا سکے۔

یومِ مزدور پر ہماری ذمہ داریاں:

1۔ قانون کا نفاذ: مزدوروں کے لیے بنائے گئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرانا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

2۔ سوشل سیکیورٹی کی توسیع: تمام غیر رسمی مزدوروں کو بھی سوشل سیکیورٹی اداروں میں رجسٹر کرکے ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

3۔ عوامی شعور بیدار کرنا: میڈیا، تعلیمی ادارے اور سماجی تنظیمیں مزدوروں کے حقوق اور معاشی انصاف کے حوالے سے عوام میں شعور پیدا کریں۔

4۔ کاروباری طبقے کی اصلاح: صنعت کاروں اور تاجروں کو چاہیے کہ وہ مزدوروں کو عزت دیں، ان کا جائز معاوضہ ادا کریں اور ان کے ساتھ انسانی سلوک روا رکھیں۔

یومِ مزدور صرف ایک دن کی تقاریب کا نام نہیں، بلکہ ایک مستقل پیغام ہے۔ ایسا پیغام جو محنت کشوں کی عظمت، حقوق اور جدوجہد کا علمبردار ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے مزدور خوشحال، محفوظ اور بااختیار نہ ہوں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم بطور فرد، بطور ادارہ اور بطور قوم اپنے مزدوروں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran