Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi/
  3. Pak America Taluqat, Haliya Daura Aur Badalta Aalmi Manzar Nama

Pak America Taluqat, Haliya Daura Aur Badalta Aalmi Manzar Nama

دنیا کی سفارت کاری ہمیشہ طاقت، مفاد اور ضرورت کے دھاگوں سے بُنی جاتی ہے۔ ریاستوں کے مابین تعلقات کبھی دوستی کے جذباتی نعرے پر قائم نہیں رہتے بلکہ وقت کے تقاضے اور بدلتے عالمی حالات ہی ان کا اصل محرک ہوتے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اس حقیقت کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ قیامِ پاکستان سے آج تک یہ رشتہ کئی بار اتار چڑھاؤ سے گزرا، کبھی گہرے تعاون کی صورت میں سامنے آیا اور کبھی بداعتمادی کے گرداب میں ڈوبتا دکھائی دیا۔ مگر یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہی کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے مکمل طور پر غیر متعلق کبھی نہیں ہوئے۔

حالیہ امریکی دورہ اسی تسلسل کی تازہ کڑی ہے جہاں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تفصیلی ملاقات کی۔ یہ ملاقات محض ایک رسمی مصافحہ نہیں تھا بلکہ اس نے کئی علامتی اور عملی سوالات کو جنم دیا۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا بیک وقت ایک ہی میز پر بیٹھنا، امریکہ کی جانب سے باضابطہ پروٹوکول اور خطے کے اہم معاملات پر براہِ راست تبادلۂ خیال، سب اس بات کی علامت ہیں کہ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر امریکی پالیسی میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان امریکہ تعلقات کا آغاز قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہوا۔ 1950ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان کا امریکہ کا پہلا دورہ اس رشتے کی ابتدائی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔ سرد جنگ کے دور میں پاکستان امریکی بلاک کا حصہ بنا اور سیٹو (SEATO) اور سینٹو (CENTO) جیسے معاہدوں میں شامل ہو کر امریکی حمایت حاصل کی۔ ایوب خان کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نیا فروغ ملا، مگر 1965ء کی جنگ اور اس کے بعد کے حالات نے امریکہ کے رویے میں سرد مہری پیدا کر دی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے "متوازن تعلقات" کی پالیسی اپنائی اور چین کے ساتھ قریبی روابط استوار کیے، مگر پھر بھی پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر ترک نہیں کیے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں افغان جنگ کے نتیجے میں پاکستان ایک بار پھر امریکہ کا قریبی اتحادی بنا۔ لیکن جیسے ہی روس افغانستان سے نکلا، امریکہ نے پاکستان کو ایٹمی پروگرام کے بہانے پابندیوں کی زد میں لے لیا۔

پرویز مشرف کے دور میں نائن الیون کے بعد پاکستان "وار آن ٹیرر" میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا۔ معاشی امداد، فوجی تعاون اور سیاسی حمایت سب میسر آئے، لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان کو دہشت گردی اور داخلی بدامنی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ عمران خان کے دور میں تعلقات ایک سرد مرحلے میں داخل ہوئے جب امریکہ نے اپنی توجہ بھارت اور بحرالکاہل کے خطے پر مرکوز کر لی۔

موجودہ دورہ اس لیے غیر معمولی ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے مشترکہ طور پر امریکی صدر سے ملاقات کی۔ یہ منظر دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان اپنی پالیسی میں ہم آہنگی چاہتا ہے اور اندرونی اختلافات کے باوجود قومی مفاد پر متحد ہے۔

امریکہ کے لیے بھی یہ ملاقات اہم ہے۔ چین کے بڑھتے اثر و رسوخ اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگیوں کے پیشِ نظر واشنگٹن کو احساس ہے کہ پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ افغانستان میں امن، مشرقِ وسطیٰ میں تنازعات اور وسطی ایشیا کی صورتِ حال ایسے عوامل ہیں جہاں پاکستان کے کردار کو نظر انداز کرنا امریکہ کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

گزشتہ دہائی میں دنیا کی سیاست ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے۔ چین کی ابھرتی معیشت، روس کی جارحانہ پالیسی، بھارت کا خطے میں بڑھتا اثر اور یورپ کی اندرونی تقسیم نے امریکہ کو نئی حکمت عملی پر مجبور کر دیا ہے۔ پاکستان، جو ایک جانب چین کا قریبی شراکت دار ہے اور دوسری جانب امریکہ سے بھی تعلقات رکھتا ہے، اس کشمکش میں ایک "بیلنسنگ ایکٹر" کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔

پاکستان کی جغرافیائی اہمیت، ایٹمی حیثیت اور افغانستان و وسطی ایشیا تک رسائی کی صلاحیت اسے ایک ایسا ملک بنا دیتی ہے جسے عالمی طاقتیں نظر انداز نہیں کر سکتیں۔

بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر ایچ اے ہیلر کے مطابق: "پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کبھی دوستانہ جذبات پر مبنی نہیں رہے بلکہ ہمیشہ مشترکہ مفادات کی بنیاد پر قائم ہوئے ہیں۔ آج بھی یہی اصول کارفرما ہے"۔

پاکستانی دانشور ڈاکٹر معید یوسف لکھتے ہیں کہ: "پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو صرف امداد یا فوجی تعاون تک محدود نہ رکھے بلکہ تجارت، ٹیکنالوجی اور تعلیم جیسے شعبوں میں بھی وسعت دے"۔

امریکی تجزیہ کار اسٹیفن کوہن نے برسوں پہلے کہا تھا کہ: "پاکستان اور امریکہ ایک ایسے جوڑے کی مانند ہیں جو علیحدگی اختیار نہیں کر سکتے لیکن ساتھ رہنے میں بھی ہمیشہ مشکلات کا شکار رہتے ہیں"۔

یہ اقوال آج کے حالات پر بھی صادق آتے ہیں۔

اس ملاقات کے نتیجے میں پاکستان کے لیے کئی مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ معاشی تعاون، برآمدات میں اضافہ، توانائی کے منصوبے اور تعلیمی و سائنسی شعبے میں تعاون سب ممکن ہیں۔ لیکن ساتھ ہی خدشات بھی موجود ہیں۔ امریکہ ہمیشہ اپنے مفاد کو مقدم رکھتا ہے۔ اگر کل کو بھارت یا کسی اور ملک سے زیادہ فوائد ملے تو پاکستان ایک بار پھر نظر انداز ہو سکتا ہے۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے تعلقات کو "ون وے" نہ بنائے بلکہ متوازن خارجہ پالیسی اپنائے۔ چین کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ بھی عملی تعاون رکھے تاکہ عالمی سیاست میں کسی ایک طاقت پر انحصار نہ کرنا پڑے۔

اگر پاکستان اپنی داخلی سیاسی استحکام کو مضبوط بنائے، معاشی اصلاحات کرے اور اپنی سفارتی ٹیم کو عالمی سطح پر فعال کرے تو آنے والے برسوں میں یہ ملاقات ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر یہ بھی محض ایک عارضی منظرنامہ ہوگا جو جلد دھندلا جائے گا۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی کہانی نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے۔ یہ کہانی کبھی محبت، کبھی بداعتمادی، کبھی اتحاد اور کبھی تنقید سے بھری ہوئی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔ پاکستان کو اپنی قومی مفاد پر مبنی پالیسی وضع کرنی ہوگی تاکہ ہر ملاقات، ہر دورہ اور ہر تعلق وقتی نہیں بلکہ دیرپا نتائج کا حامل ہو۔ یہی قومی شعور کا تقاضا ہے اور یہی مستقبل کی ضمانت۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran