Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi/
  3. Pakistan Maliyati Fraud Ki Zad Mein

Pakistan Maliyati Fraud Ki Zad Mein

مندرجہ ذیل کالم حقائق، اعداد و شمار اور ماہرین کی تشخیص کی روشنی میں پیش کیا جا رہا ہے، تاکہ اس امر کی اہمیت واضح ہو سکے کہ کس طرح ہمارے معاشی نظام پر ڈیجیٹل لٹیروں کا شب خون جاری ہے اور کیسے اس کی روک تھام ممکن ہے۔

حال ہی میں جاری کی گئی رپورٹ Global Anti-Scam Alliance (GASA) اور Feedzai کی مشترکہ تحقیق "Global State of Scams Report 2025" کے مطابق، Pakistan سالانہ تقریباً 9.3 ارب امریکی ڈالر کا نقصان مالیاتی فراڈ اور ڈیجیٹل اسکیمز کے نتیجے میں اٹھا رہا ہے جو ملک کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا تقریباً 2.5 فیصد بنتا ہے۔ یہ رقم قابلِ غور انداز سے اس وقت سامنے آئی ہے جب ہمارے معاشی چیلنجز بہت زیادہ ہیں اور قرضوں، معاشی پیکیجوں اور معیشت کی نمو کی نازک کیفیت زیرِ نگرانی ہیں۔

مزید یہ کہ، اس نقصان کا حجم اُس قرضے سے بیس سے تیس فیصد زیادہ ہے جو ہمارے ملک نے International Monetary Fund (IMF) سے لیا ہوا ہے یعنی تقریباً 7 ارب ڈالر کا پروگرام۔ نتیجتاً، یہ واضح ہے کہ اسکیمز کی وجہ سے صرف معیشت کو براہِ نقصان ہو رہا ہے بلکہ یہ قرضوں کے خراج کے بوجھ سے بھی زیادہ ہے۔

ایک معروف تجزیہ کار بیان کرتا ہے کہ: "ڈیجیٹل فراڈ تیزی سے بڑھ رہا ہے، جب ای-کامرس اور آن لائن ادائیگیاں عام ہو رہی ہیں، پاکستان اس کا آسان نشانہ بن چکا ہے"۔

یوں، یہ صرف ایک "انفرادی مسئلہ" نہیں رہا بلکہ قومی سطح پر معاشی سکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ بن گیا ہے۔ نقصان کی نوعیت اور اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں خسارے کی تفصیل یوں دی گئی ہے۔ پاکستان میں ہر متاثرہ شخص کی اوسط نقصان تقریباً 139 امریکی ڈالر ہے۔ یعنی فرداً فرداً نقصان شاید بہت بڑا نہ محسوس ہو لیکن تعداد اور وسعت کی وجہ سے مجموعی نقصان بہت بھاری نکلا ہے۔ دنیا بھر میں اسکیمز کے باعث تقریباً 442 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا حصہ عالمی سطح پر بھی نمایاں ہے۔ اسکیمز کی سب سے عام اقسام میں شامل ہیں۔ آن لائن شاپنگ فراڈ، سرمایہ کاری کے جعلی منصوبے اور ایسے پیغامات جن میں "غیر متوقع رقم ملنے" کا دعویٰ ہوتا ہے۔ فراڈ کے ذریعوں میں عام طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ بینک کارڈز، تار ترسیلات (wire transfers)، موبائل والٹس، سوشل میڈیا پر رابطے، ایس ایم ایس/واٹس ایپ کے ذریعے لنکس وغیرہ۔

صارفین کا اہم نقصان اس وقت ہوتا ہے جب وہ ذاتی معلومات (جیسے PIN، OTP، بینک لاگ ان، پاس ورڈ) شیئر کر دیتے ہیں یا جعلی لنکس پر کلک کر دیتے ہیں، جو دھوکہ باز استعمال کر لیتے ہیں۔ ان تمام عوامل نے مل کر ایک خطرناک ماحول تیار کیا ہے جہاں معاشی شجاعت، ڈیجیٹل ارتکاب، معاشرتی اعتماد اور سائبر شعور کا امتزاج ضرورت بن گیا ہے۔ یہ نقصان نہ صرف صارفین اور بینکنگ صارفین تک محدود ہے بلکہ ملک کی معیشت کے بڑے ڈھانچے کو متاثر کر رہا ہے۔ 2.5 فیصد GDP کا نقصان ایک ایسی معیشت کے لیے بہت سنگین ہے جو پہلے ہی قرضوں کا بوجھ، شرحِ مندی اور سرمایہ کاری کے کم رجحانات کا سامنا کر رہی ہے۔ جب یہ نقصان عام قرضے سے بھی زیادہ ہو جائے جیسے کہ IMF کا 7 ارب ڈالر کا قرض پروگرام، تو یہ نشاندہی کرتا ہے کہ "خارجی قرض لینے اور واپس کرنے" کی حکمتِ عملی کے علاوہ "بزنس ماڈل کی حفاظت" بھی اہم ہے۔

مالیاتی فراڈ کا پھیلاؤ معاشی عدم یقین کو فروغ دیتا ہے، لوگ بچت اور سرمایہ کاری سے پرہیز کرتے ہیں، بینکنگ نظام پر اعتماد کم ہوتا ہے اور مجموعی طور پر معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ ڈیجیٹل معاشی سرگرمی، مثال کے طور پر ای۔ کامرس، موبائل بینکنگ، آن لائن سرمایہ کاری، بڑھ رہی ہے۔ اگر یہ سرگرمیاں فراڈ کے خدشات کے باعث رک جائیں یا صارفین خوفزدہ ہو جائیں، تو معاشی نمو کی رفتار رک سکتی ہے۔

حکومت و نجی شعبے کے وسائل فراڈ مانیجمنٹ، سائبرسکیورٹی، عوامی آگاہی مہمات پر خرچ ہونے لگیں گے جو کہ ممکن ہے اگر بچت ہوتی تو ترقیاتی منصوبوں یا انفراسٹرکچر میں خرچ ہو سکتی تھیں۔ اس لحاظ سے، مالیاتی فراڈ صرف "لوگوں کی جیب کا مسئلہ" نہیں، بلکہ "معیشت کا مسئلہ" ہے۔ رپورٹ میں ماہرین نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کا بنیادی راستہ عوامی شعور ہے۔ یعنی صارفین، ادارے اور حکومت مل کر اس ریل کو روک سکتے ہیں۔ صارفین کو تعلیم ملنی چاہیے کہ وہ کبھی بھی اپنے بینک اکاؤنٹ، PIN، OTP، لاگ ان تفصیلات کسی کو نہ دیں، چاہے وہ بینک ملازم بن کر کیوں نہ بات کر رہا ہو۔

آن لائن شاپنگ اور ادائیگی کرتے وقت لنکس کی صحت چیک کریں، ناشناس یا مشکوک ویب سائٹس سے گریز کریں، سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز پر آنے والے اشتہارات پر فوراً عمل نہ کریں۔ اداروں (بینک، موبائل والٹ سروسز، فائنانشل انسٹی ٹیوٹس) کو چاہیے کہ انھیں صارفین کو دو قدمی تصدیق (two-factor authentication)، بایومیٹرک تصدیق اور غیر معروف ڈیوائسز سے رسائی کے خلاف اقدامات کرنا ہوں۔ رپورٹ کے مطابق، State Bank of Pakistan نے ایسی پالیسیاں نافذ کی ہیں جن کے نتیجے میں غیر مجاز رسائی 90 فیصد تک کم کی گئی ہے۔

حکومت اور نجی شعبہ کو مل کر عوامی آگاہی مہمات چلانی چاہئیں، اسکولوں، کالجوں، دیہی علاقوں اور معاشرتی سطح پر ڈیجیٹل خواندگی کو فروغ دینا ضروری ہے۔ فراڈ کا شکار افراد کو رپورٹ کی سہولت فراہم کی جائے، سہل تشہیر اور رپورٹنگ چینلز بنائے جائیں تاکہ رجحانات کا ڈیٹا اکٹھا ہو سکے اور موثر پالیسی بن سکے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی متاثرین رپورٹ نہیں کرتے، یا رپورٹنگ کا عمل مشکل سمجھتے ہیں۔ اگر ہم عوامی شعور کو صرف "اشتہار دیکھ لینا" تک محدود رکھیں گے، تو فراڈ باز اس سے آگے نکل جائیں گے۔ ضروری ہے کہ یہ شعور ہنر، عمل اور عادت کی شکل اختیار کرے۔ صارفین کی احتیاط کے ساتھ ساتھ ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس بھی ذمہ داریاں ہیں۔ قانون سازی کی جانی چاہیے تاکہ ڈیجیٹل فراڈ کرنے والوں کو جلد گرفتار کیا جائے اور بین الاقوامی تعاون کے تحت اس قسم کے جرائم کی روک تھام کی جائے۔ سائبر سکیورٹی انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنا ہوگا۔ بروقت شیئرنگ آف تھریٹ انٹیلی جنس، بینکنگ، ٹیلی کام اور فنانشل ایکو سسٹم میں تعاون۔

اس طرح کی رپورٹس کا مستقل تجزیہ ہونا چاہیے اور عوامی اور نجی شعبے کو ریئل ٹائم ڈیٹا فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ رجحانات کا فوری پتہ چلے۔ مالیاتی خدمات فراہم کرنے والے ادارے صارفین کی تعلیم و تربیت، اسکیموں کی پیشگی تشخیص اور شکایات کا موثر نظام قائم کریں۔ اسکینڈل کے شکار افراد کو عدالتوں اور ریگولیٹرز کی طرف سے سہارا ملے تاکہ وہ دوبارہ شکار نہ بنیں اور یہ پیغام جائے کہ قانون ان کی پشت پردہ ہے۔

بلاشبہ، پاکستان اس وقت ڈیجیٹل و مالیاتی اسکیموں کے عذاب سے گُذر رہا ہے وہیں، یہ ایک موقع بھی ہے۔ اگر ہم اس نقصان کو صرف "خراب خبر" کے طور پر لیں اور آگے نہ بڑھیں، تو یہ نقصان مزید بڑے پیمانے پر ہمارے معاشی مستقبل کو متاثر کر سکتا ہے۔ مگر اگر ہم اس کو "مسئلے کی شناخت" کے بعد اگلے مرحلے یعنی شعور، احتیاط اور حکمتِ عملی کی طرف لے جائیں، تو یہ نقصان کم کیا جا سکتا ہے۔

ایک مضبوط، محفوظ اور ڈیجیٹل طور پر فعال معیشت کے لیے ضروری ہے کہ: صارف ہوشیار ہو، ادارے ذمہ دار بنیں، حکومت پالیسی ساز ثابت ہو اور سب مل کر "لوٹنے والوں" کی حکمرانی کے خلاف متحد ہوں۔ ورنہ، وہ 9 ارب ڈالر سالانہ صرف اعداد و شمار کا حصہ نہیں رہیں گے بلکہ ہمارے ملک کی ترقی، عوام کی امید اور اقتصادی خودمختاری کی طاقت کمزور ہوتی جائے گی۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran