Saturday, 06 December 2025
  1. Home/
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi/
  3. Quran Ka Challenge Aur Iski Na Qabil e Tardeed Haqiqat

Quran Ka Challenge Aur Iski Na Qabil e Tardeed Haqiqat

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم کتاب ہے جو تمام جہانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور جنات کو چیلنج کیا ہے کہ اگر وہ اس بات میں شک رکھتے ہیں کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوئی بلکہ (نعوذ باللہ) حضور اکرم ﷺ نے خود تصنیف کی ہے، تو وہ بھی اس جیسی کوئی کتاب، چند سورتیں یا صرف ایک آیت ہی بنا کر دکھائیں۔ یہ چیلنج آج بھی باقی ہے، لیکن انسان آج تک اس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اس مضمون میں ہم تفصیل سے ان وجوہات پر غور کریں گے کہ کیوں قرآن کے اس چیلنج کا جواب دینا ممکن نہیں ہوا۔

قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر یہ چیلنج دیا گیا ہے، جس میں تدریجاً شدت آتی گئی:

1۔ پوری کتاب کی مثل لانے کا چیلنج: "کہہ دو، اگر تمام انسان اور جنات مل کر بھی ایسا قرآن لانا چاہیں، تو وہ اس کی مثل نہیں لا سکتے، چاہے وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں"۔ (سورۃ الإسراء: 88)

2۔ دس سورتوں کی مثل لانے کا چیلنج: "کیا وہ کہتے ہیں کہ اس (قرآن) کو اس نے خود گھڑ لیا ہے؟ کہہ دو کہ تم بھی ایسی دس سورتیں بنا لاؤ جو گھڑی ہوئی ہوں اور اللہ کے سوا جس کو بلا سکتے ہو، بلا لو، اگر تم سچے ہو"۔ (سورۃ ہود: 13)

3۔ صرف ایک سورت کی مثل لانے کا چیلنج: "اور اگر تمہیں اس (قرآن) کے بارے میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے، تو تم اس جیسی ایک ہی سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اپنے سب حمایتیوں کو بھی بلا لو، اگر تم سچے ہو"۔ (سورۃ البقرہ: 23)

یہ چیلنج صرف زبانی نہیں بلکہ ایک عملی دعوت تھی، جسے قبول کرنے کے لیے کوئی بھی شخص آزاد تھا، لیکن آج تک کوئی اس کا جواب نہ دے سکا۔

عرب اپنی زبان دانی اور شاعری میں بے مثال تھے، لیکن جب قرآن نازل ہوا تو ان کے بہترین خطیب اور شاعر بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں۔ قرآن کے الفاظ کی ترتیب، اس کا اندازِ بیان، تشبیہات، استعارات اور فصاحت ایسی تھی کہ عرب کے بڑے بڑے ادیب اور شاعر بھی اس جیسی کوئی چیز پیش نہ کر سکے۔

قرآن صرف فصیح کلام نہیں بلکہ اس کے اندر گہرے معانی، تاریخ، قانون، سائنس، اخلاقیات اور دیگر علوم کے مضامین بھی موجود ہیں۔ انسانی تصانیف ایک محدود دائرے میں رہتی ہیں، مگر قرآن میں زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے"۔ (سورۃ النساء: 82)

انسانی کتب میں ہمیشہ تضادات اور غلطیاں پائی جاتی ہیں، لیکن چودہ سو سال گزرنے کے باوجود قرآن میں کوئی تضاد نہیں پایا گیا۔

قرآن صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ اس میں ایک روحانی طاقت اور اثر ہے۔ یہ دلوں پر اثر انداز ہوتا ہے، سخت سے سخت دشمن کے دل کو بھی بدل سکتا ہے۔ بہت سے غیر مسلم بھی صرف قرآن کی تلاوت سن کر ایمان لے آئے۔

قرآن میں موجود کئی سائنسی حقائق وہ ہیں جن کا علم نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ممکن نہیں تھا، جیسے:

جنین کی تخلیق کے مراحل (سورۃ المومنون: 12-14)

سمندر کی گہرائیوں میں اندھیروں کی موجودگی (سورۃ النور: 40)

زمین اور آسمان کے ابتدائی مراحل (سورۃ الانبیاء: 30)

جدید سائنسی تحقیقات نے ان آیات کی صداقت کی تصدیق کی ہے۔ اگر قرآن انسانی تصنیف ہوتا تو ان میں غلطیاں ملتیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔

قرآن کے چیلنج کو ناکام بنانے کے لیے مختلف فلسفیوں اور مفکرین نے دعوے کیے، لیکن ان کے دلائل خود ہی تضادات کا شکار ہوگئے۔ کوئی بھی مفکر قرآن کی طرز پر ایک مکمل اور جامع تحریر پیش نہ کر سکا۔

انسانی قوانین اور نظام ہمیشہ کسی نہ کسی کمی کا شکار رہتے ہیں، لیکن قرآن کا دیا ہوا نظامِ حیات ہر دور اور ہر معاشرے کے لیے بہترین ثابت ہوا۔ اس میں انسانی حقوق، عدل و انصاف، معاشی اصول اور بین الاقوامی تعلقات کے ایسے اصول موجود ہیں جو آج تک ناقابلِ تغیر ہیں۔

چودہ صدیوں سے لے کر آج تک قرآن کے ماننے والے ہمیشہ موجود رہے ہیں اور وہ اپنے جان و مال کے ذریعے اس کی حفاظت کرتے آئے ہیں۔ کسی اور کتاب کے پیروکاروں میں ایسی وابستگی اور قربانی کا جذبہ نظر نہیں آتا۔

قرآن کا طرزِ بیان نہ صرف فصیح و بلیغ ہے بلکہ اس میں زبان و بیان کا ایسا توازن ہے جو انسانی کلام میں ناپید ہے۔ عربی زبان کے سب سے بڑے ماہرین نے بھی یہ تسلیم کیا کہ قرآن کی عبارت میں ایسا اسلوب ہے جو انسانی تخلیق سے ماورا ہے۔

قرآن میں کئی پیشین گوئیاں کی گئیں، جیسے روم کی فتح (سورۃ الروم: 2-4) جو تاریخی طور پر سچ ثابت ہوئیں۔ اگر قرآن انسانی تصنیف ہوتا تو یہ پیش گوئیاں غلط بھی ہو سکتی تھیں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

قرآن کسی مخصوص قوم، نسل یا خطے کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت ہے۔ اس کے اصول، تعلیمات اور قوانین ہر دور اور ہر تہذیب میں قابلِ عمل ہیں، جس کا عملی مظاہرہ مسلم امہ کی عالمی تاریخ میں نظر آتا ہے۔

دنیا کی کسی اور مذہبی یا تاریخی کتاب کو ہزاروں افراد نے زبانی حفظ نہیں کیا، لیکن قرآن لاکھوں حفاظ کے سینوں میں موجود ہے اور چودہ صدیوں میں اس میں ایک حرف کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔

تاریخ میں کئی دشمنانِ اسلام نے کوشش کی کہ قرآن کی مثل کچھ پیش کریں یا اس کے کلام میں نقص نکالیں، لیکن وہ ہمیشہ ناکام رہے۔ آج تک کوئی بھی اس جیسا کلام تخلیق نہیں کر سکا۔

بہت سے مستشرقین اور غیر مسلم ماہرین لسانیات نے بھی یہ تسلیم کیا کہ قرآن کی زبان، اسلوب اور علمی معیارات کسی انسانی ذہن کی پیداوار نہیں ہو سکتے۔

یہ کتاب لوگوں کے دلوں کو بدلنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے۔ بے شمار واقعات موجود ہیں کہ قرآن سن کر بڑے بڑے ظالم، فاسق اور بدکار افراد اپنی زندگی کو بدلنے پر مجبور ہو گئے۔

قرآن مجید کا اسلوب حیران کن حد تک منفرد ہے۔ یہ نہ تو شاعری ہے، نہ نثر، بلکہ ایک ایسا خاص طرزِ بیان رکھتا ہے جو کسی اور تصنیف میں نہیں پایا جاتا۔ ایک ہی مقام پر نصیحت، حکمت، تاریخ، قانون اور اخلاقیات کا ایسا جامع بیان موجود ہوتا ہے جو انسانی تخلیق میں ممکن نہیں۔

قرآن میں مختلف سورتوں کے آغاز میں حروفِ مقطعات جیسے الم، یس، طسم وغیرہ استعمال کیے گئے ہیں، جن کا مکمل مفہوم انسانی عقل سے بالاتر ہے۔ عربی زبان کے بڑے ماہرین بھی ان کے صحیح مفہوم کو نہیں سمجھ سکے، جو قرآن کی ماورائی حقیقت کو ثابت کرتا ہے۔

جب قرآن نازل ہوا تو عرب کی جاہلانہ سوسائٹی میں زبردست انقلاب برپا ہوگیا۔ ایک بکھری ہوئی اور ظلم و جبر میں ڈوبی ہوئی قوم کو بہترین تہذیب میں بدل دیا گیا۔ اگر یہ انسانی تصنیف ہوتی تو اس کا اثر وقتی ہوتا، لیکن آج بھی دنیا میں جہاں اس کے اصول اپنائے جاتے ہیں، وہاں امن و عدل قائم ہوتا ہے۔

انسانی قوانین وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں، لیکن قرآن کے قوانین چودہ صدیوں بعد بھی جدید ترین سائنسی اور سماجی اصولوں سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ عدل، تجارت، خاندانی نظام، بین الاقوامی تعلقات اور جنگ و امن کے قرآنی اصول آج بھی سب سے زیادہ عملی حیثیت رکھتے ہیں۔

قرآن کی ہر آیت نہ صرف خود میں ایک مکمل معنی رکھتی ہے بلکہ پوری کتاب کے ساتھ ایک مربوط تعلق رکھتی ہے۔ اس کا ترتیب وار نظم ایسا حیران کن ہے کہ اگر کوئی جملہ نکال دیا جائے یا تبدیل کر دیا جائے تو اس کا اثر پوری عبارت پر پڑے گا، جو انسانی تحریر میں ممکن نہیں ہوتا۔

ماہرین نے ثابت کیا ہے کہ قرآن میں کئی الفاظ ایک خاص عددی توازن کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر:

لفظ "دن" اور "رات" 365 اور 30 بار آئے ہیں، جو سال اور مہینے کے دنوں کے برابر ہیں۔

لفظ "مرد" اور "عورت" برابر تعداد میں آئے ہیں۔

یہ ریاضیاتی مطابقت ایک انسانی تصنیف میں ناممکن ہے۔

دنیا کی تمام زبانیں وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں، لیکن قرآن چودہ سو سال سے بغیر کسی تبدیلی کے وہی فصاحت و بلاغت رکھتا ہے۔ اس کا اسلوب، الفاظ اور بیان آج بھی ویسا ہی پراثر اور معجزانہ ہے جیسا نازل ہونے کے وقت تھا۔

جدید سائنس نے کئی ایسی دریافتیں کی ہیں جو قرآن میں پہلے سے بیان ہو چکی تھیں، جیسے:

بگ بینگ تھیوری (سورۃ الانبیاء: 30)

کائنات کے مسلسل پھیلاؤ (سورۃ الذاریات: 47)

انگلیوں کے نشانات کی انفرادیت (سورۃ القیامہ: 4)

یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ علم کسی انسان کا نہیں بلکہ خالقِ کائنات کا دیا ہوا ہے۔

قرآن کی تلاوت میں ایک مخصوص ردھم، آہنگ اور موسیقیاتی حسن پایا جاتا ہے جو کسی انسانی تحریر میں نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کی تلاوت سننے سے دل و دماغ میں سکون پیدا ہوتا ہے اور سننے والے پر ایک روحانی اثر طاری ہو جاتا ہے۔

اگرچہ قرآن چودہ سو سال پہلے نازل ہوا، لیکن آج بھی اس میں ہر جدید مسئلے کا حل موجود ہے۔ ٹیکنالوجی، معاشرت، معیشت، طب، سیاست، ہر شعبے میں قرآن کی ہدایات آج کے دور میں بھی مکمل طور پر قابلِ عمل ہیں۔

قرآن انسانی نفسیات کو بہترین انداز میں بیان کرتا ہے اور انسان کے دل و دماغ پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔ مصیبت کے وقت صبر اور اللہ کی رحمت کی تلقین کرتا ہے۔ خوف اور اضطراب میں تسلی دیتا ہے۔ غرور اور تکبر کو توڑ کر عاجزی سکھاتا ہے۔ زندگی کے تمام نفسیاتی پہلوؤں پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ اثر کسی عام انسانی تحریر میں ممکن نہیں ہوتا۔

دنیا کی ہر کتاب میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں کی جاتی ہیں، لیکن قرآن میں آج تک ایک نقطہ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ اللہ نے خود اس کی حفاظت کا وعدہ کیا:

"بے شک ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے"۔ (سورۃ الحجر: 9)

یہ دعویٰ آج تک سچ ثابت ہوا ہے۔

قرآن صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ غیر مسلم دانشوروں، سائنسدانوں اور محققین کے لیے بھی حیرت کا باعث بنا ہے۔ کئی غیر مسلم اسکالرز جیسے ڈاکٹر موریس بوکائلے، لیو ٹالیسٹائی اور مائیکل ہارٹ نے قرآن کو غیر معمولی کتاب قرار دیا۔ یہ کسی عام انسانی تصنیف میں ممکن نہیں۔

قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو عام انسان بھی باآسانی سمجھ سکتا ہے، لیکن بڑے بڑے عالم اور دانشور اس کے گہرے معانی پر حیران رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک نرالی خوبی ہے جو کسی اور کتاب میں نہیں ملتی۔

عام انسانی کتابوں میں تضاد پایا جاتا ہے، لیکن قرآن کہتا ہے:

"اگر یہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلافات پائے جاتے"۔ (سورۃ النساء: 82)

سائنس، تاریخ، قانون، فلسفہ، ہر میدان میں اس کا علم مکمل طور پر ہم آہنگ اور درست پایا گیا ہے۔

دنیا میں ایسی بے شمار کتابیں لکھی گئیں جو وقت کے ساتھ ختم ہوگئیں، لیکن قرآن چودہ صدیوں سے کروڑوں لوگوں کے دل و دماغ پر اثرانداز ہو رہا ہے اور آج بھی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔

یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو عبادات، معاشرت، معیشت، سیاست، اخلاقیات، عدل، جنگ، صلح، صحت، علم اور ہر شعبہ زندگی کے اصول فراہم کرتی ہے۔ کوئی اور کتاب اتنی جامع نہیں ہو سکتی۔

سمندری لہروں کے نیچے گہرے اندھیرے کا ذکر (سورۃ النور: 40) جو جدید سونار ٹیکنالوجی سے ثابت ہوا۔

شہد میں شفا ہونے کا ذکر (سورۃ النحل: 69) جو جدید میڈیکل سائنس نے تسلیم کیا۔

یہ سب قرآن کی سچائی کو مزید ثابت کرتے ہیں۔

قرآن میں کئی قدیم اقوام جیسے فرعون، عاد، ثمود اور بابل کے تذکرے ہیں، جن کے آثار جدید تحقیق سے ثابت ہوئے ہیں، جبکہ کئی تاریخی کتابوں میں ایسی معلومات موجود نہیں تھیں۔

جدید سائنس ثابت کر چکی ہے کہ قرآن کی تلاوت سے انسانی دماغ میں مثبت اثرات پیدا ہوتے ہیں، ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے اور سکون ملتا ہے۔ یہاں تک کہ کئی غیر مسلم ماہرین بھی اس کے میوزیکل اثرات پر تحقیق کر چکے ہیں۔

ہر زبان وقت کے ساتھ بدلتی ہے، لیکن قرآن کی عربی زبان آج بھی ویسی ہی ہے جیسی نزول کے وقت تھی۔ جدید عربی کئی تبدیلیوں سے گزری، لیکن قرآن کی زبان آج بھی اتنی ہی فصیح، معیاری اور مستند ہے، جیسے چودہ سو سال پہلے تھی۔ یہ کسی انسانی کتاب کے لیے ممکن نہیں۔

قرآن نہ صرف عبادات بلکہ عدل و انصاف کا مکمل ضابطہ فراہم کرتا ہے، جس میں کسی امیر یا غریب، مسلم یا غیر مسلم کے ساتھ تفریق نہیں کی گئی۔

"اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو"۔ (المائدہ: 8)

یہ اصول آج بھی جدید انسانی قوانین کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

قرآن روحانی، اخلاقی اور دنیوی ترقی کے اصول فراہم کرتا ہے۔ محنت، امانت، دیانت، سچائی اور علم حاصل کرنے پر زور دیتا ہے، جو آج بھی ترقی یافتہ قوموں کی کامیابی کے بنیادی اصول ہیں۔

جدید نفسیات، سماجیات اور معاشیات کی تحقیق قرآن کے اصولوں کی تائید کرتی ہے۔ شادی، وراثت، تجارت اور فلاحی ریاست کے اصول قرآن نے دیے، جنہیں جدید ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں۔

"اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا"۔ (الانبیاء: 32)

یہ اوزون تہہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو زمین کو مہلک شعاعوں سے بچاتی ہے، جبکہ یہ حقیقت صدیوں بعد دریافت ہوئی۔

"اور ہر ایک (ستارہ) اپنے مدار میں تیر رہا ہے"۔ (یس: 40)

یہ جدید فلکیاتی علم کے عین مطابق ہے کہ تمام سیارے اور ستارے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔

ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق کا ذکر (المؤمنون: 12-14) جدید ایمبریولوجی کے عین مطابق ہے۔

شہد کی مکھی اور اس کے شہد کے فوائد (النحل: 69) کو آج سائنس بھی تسلیم کرتی ہے۔

فرعون کی لاش کو محفوظ رکھنے کی خبر (یونس: 92)، جو جدید ماہرین نے دریافت کی۔

قرآن کہتا ہے: "اگر تمہیں شک ہے تو اس جیسی ایک سورت لے آؤ"۔ (البقرہ: 23)

چودہ سو سال میں کوئی بھی شخص قرآن کے ہم پلہ متن نہیں لا سکا، حالانکہ دنیا کے بہترین شاعر اور ادیب اس کوشش میں لگے۔

نماز کے جسمانی اور ذہنی فوائد جدید تحقیق سے ثابت ہیں، جیسے ذہنی سکون، بلڈ پریشر کنٹرول اور جسمانی فٹنس۔

روزے کے ڈیٹاکسیفیکیشن (Detoxification) اور میٹابولزم پر مثبت اثرات جدید سائنس بھی مانتی ہے۔

قرآن کی تلاوت سن کر غیر مسلم بھی جذباتی ہو جاتے ہیں، حالانکہ وہ عربی نہیں جانتے۔ اس کی آواز میں ایسی تاثیر ہے جو انسانی کلام میں ممکن نہیں۔

لاکھوں لوگ قرآن کو حرف بہ حرف حفظ کر چکے ہیں، جبکہ دنیا میں کوئی اور کتاب ایسی نہیں جسے کروڑوں افراد زبانی یاد رکھتے ہوں۔ یہ حفظ کا نظام کسی انسانی کتاب میں ممکن نہیں۔

رسول اللہ ﷺ کے پاس جدید سائنسی لیبارٹری یا تحقیق کے ذرائع نہیں تھے، لیکن پھر بھی قرآن میں جدید سائنسی حقائق بیان کیے گئے، جو بعد میں ثابت ہوئے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ قرآن انسانی سوچ یا تحقیق کا نتیجہ نہیں بلکہ الہامی کتاب ہے۔

"کیا وہ غور و فکر نہیں کرتے؟" (محمد: 24)

قرآن ہر انسان کو سوچنے، سیکھنے اور تحقیق کرنے کی دعوت دیتا ہے، جو کسی بھی دوسری مذہبی کتاب میں اس انداز سے نہیں ملتی۔

دنیا میں لکھی گئی ہر کتاب کسی خاص دور کے مطابق ہوتی ہے، لیکن قرآن ہر زمانے میں جدید اور متعلقہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کے اصول آج بھی سیاسی، سماجی اور سائنسی میدان میں قابلِ عمل ہیں۔

انسان کے ذہن میں آنے والے ہر سوال کا جواب قرآن میں موجود ہے، خواہ وہ زندگی کے مقصد سے متعلق ہو یا کائنات کی حقیقت سے متعلق۔ کوئی اور کتاب اتنی جامع نہیں۔

قرآن کا چیلنج، گہرائی اور انفرادیت یہی ہے کہ کوئی انسان ایسی بے عیب، مکمل، سائنسی، فصیح اور ہمہ گیر کتاب نہیں لکھ سکتا۔ یہ صرف اور صرف اللہ ہی کا کلام ہے۔ اللہ کا یہ کلام محض ایک مذہبی کتاب ہی نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات، سائنسی معجزہ، ادبی شاہکار اور الہامی دانش کا منبع ہے۔ یہ کتاب چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی جدید سائنسی تحقیقات، سماجی اصولوں اور اخلاقی اقدار سے ہم آہنگ ہے۔ اس میں بیان کردہ پیشین گوئیاں پوری ہو چکی ہیں، اس کے سائنسی بیانات آج کی دریافتوں کی تصدیق کر رہے ہیں اور اس کا ادبی معیار آج بھی دنیا کے بہترین لکھاریوں کے لیے ناقابلِ تسخیر چیلنج ہے۔

لاکھوں افراد کا اس کو حفظ کر لینا، اس کی زبان کا ارتقائی عمل سے محفوظ رہنا اور اس کی تلاوت کے دلوں پر گہرے اثرات اس کے خدائی کلام ہونے کی روشن دلیلیں ہیں۔ قرآن ہر دور کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے اور ہر انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، تاکہ وہ اپنے خالق کو پہچانے اور ایک بامقصد زندگی گزار سکے۔ یہی وہ معجزہ ہے جو ہر پہلو سے انسانیت کو چیلنج کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ اللہ کا نازل کردہ معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran