برصغیر کی روحانی و ادبی تاریخ میں ایسے درخشاں ستارے نمایاں نظر آتے ہیں جنہوں نے نہ صرف صوفیانہ فکر کو عام کیا بلکہ انسانیت، محبت اور رواداری کے پیغام کو بھی اپنے کلام کے ذریعے ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ ان درخشاں ہستیوں میں سے ایک عظیم المرتبت نام شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا ہے، جنہیں سندھ کی روح، دل اور آواز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ ایک ایسے صوفی شاعر تھے جنہوں نے صرف شاعری نہیں کی بلکہ اپنے فکر و فن سے صدیوں پر محیط ایک فکری روایت کو جنم دیا، جو آج بھی سندھ اور برصغیر کے ثقافتی و فکری منظرنامے پر روشن ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کا تعلق 17ویں صدی کے ایک معزز، مذہبی اور علمی گھرانے سے تھا۔ آپ کی ولادت 1689ء میں سندھ کے ضلع حیدرآباد کے قریب واقع ہالا کے نواحی گاؤں بھٹ میں ہوئی، جس نسبت سے آپ کو "بھٹائی" کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد شاہ حبیب ایک نیک سیرت اور صاحبِ علم شخصیت تھے جنہوں نے اپنے بیٹے کی تربیت میں دینی، روحانی اور علمی اقدار کو خاص اہمیت دی۔ شاہ عبداللطیف بچپن ہی سے نہایت ذکی، حساس اور متجسس فطرت کے حامل تھے، جنہیں قرآن، حدیث، فقہ، فارسی ادب، عربی زبان اور تصوف کے اسرار سے خصوصی شغف تھا۔
شاہ عبداللطیف کا اصل کمال اُن کی روحانی اور فکری بلندی میں مضمر ہے۔ انہوں نے صرف علم حاصل نہیں کیا بلکہ زندگی کے تجربات، انسانی دکھ سکھ اور روحانی سچائیوں کو اپنی ذات میں جذب کیا اور پھر اسے منظوم شکل میں پیش کیا۔ ان کا کلام "شاہ جو رسالو" کے نام سے مشہور ہے، جو سندھی ادب کا ایک شہکار اور صوفیانہ ادب کا نادر خزانہ ہے۔ اس رسالے میں سترہ سے زائد "سور" (باب) ہیں جن میں سسی پنوں، عمر ماروی، مومل را نو، لیلا چنیسر، نوری جمال، سورٹھ رائے جیسے لوک داستانی کرداروں کے ذریعے انسانی عشق، قربانی، وفاداری، توکل، ضبط اور روحانی کمالات کی ایسی تفسیر پیش کی گئی ہے جو ابدی صداقتوں کی آئینہ دار ہے۔
شاہ صاحب کا صوفیانہ فکر اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر ہم آہنگ تھا، مگر انہوں نے اس کا اظہار کسی روایتی خطیب یا عالم کی طرح نہیں کیا بلکہ اسلوبِ عشق و محبت کے پیرائے میں کیا۔ ان کا پیغام وحدت الوجود کا ترجمان ہے، جس کے مطابق تمام کائنات ایک ہی حقیقت کی مظہر ہے۔ وہ انسان کو "عشق حقیقی" کی تلاش پر اکساتے ہیں، جو دنیاوی پردوں سے ہٹ کر صرف دل کے آئینے میں نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں عشق نہ صرف منزل ہے بلکہ ذریعہ بھی ہے اور سالک کا اصل امتحان یہی ہے کہ وہ اس عشق کی آنچ میں خود کو کیسے کندن بناتا ہے۔
شاہ عبداللطیف کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے سندھی زبان و ادب کو ایک نئے رنگ، نئی وسعت اور نئی معنویت عطا کی۔ انہوں نے اپنی شاعری میں نہ صرف مذہبی و روحانی موضوعات کو سادہ اور عوامی زبان میں بیان کیا بلکہ مقامی روایت، دیہی زندگی، عورت کے جذبات اور فطرت کی لطافتوں کو بھی غیر معمولی حسن سے پیش کیا۔ ان کی شاعری میں موسیقیت، روانی اور دلسوزی کا ایسا امتزاج ہے جو سننے والے کو مسحور کر دیتا ہے۔ شاہ سائیں کا کلام نہ صرف پڑھا جاتا ہے بلکہ آج بھی سندھ کے صوفیانہ محافل، مزاروں اور ثقافتی میلوں میں دھنبورے اور طنبورہ جیسے آلات کے ساتھ گایا جاتا ہے، جو ان کے پیغام کو ایک زندہ روحانی تجربہ بنا دیتا ہے۔
ان کی زندگی بھی ان کی تعلیمات کی عملی تصویر تھی۔ انہوں نے ہمیشہ سادگی، قناعت، عاجزی، درویشی اور انسان دوستی کو اپنایا۔ انہوں نے مذہبی تعصب، فرقہ واریت اور طبقاتی نفرتوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا، مگر اس بغاوت میں کہیں بھی نفرت، تشدد یا اشتعال کا شائبہ تک نہیں تھا۔ وہ اپنے عمل اور کردار سے معاشرتی اصلاح کی ایسی مثال بنے جو آج کے دور میں بھی قابلِ تقلید ہے۔ ان کا مزار بھٹ شاہ میں واقع ہے جو سندھ کا ایک اہم روحانی مرکز ہے، جہاں ہر سال لاکھوں عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔
شاہ لطیف نے عورت کو اپنی شاعری میں ایک مضبوط، باوقار اور باہمت کردار کے طور پر پیش کیا، جو اس وقت کے سماجی تصورات سے ایک انقلابی رویہ تھا۔ ان کی تمام لوک داستانوں میں خواتین مرکزی کردار کے طور پر سامنے آتی ہیں جو عشق میں استقامت، ایثار، خودداری اور راست بازی کی مجسم تصویر ہوتی ہیں۔ یہ طرزِ فکر نہ صرف عورت کی سماجی حیثیت کی بحالی کی کوشش ہے بلکہ انسانی روح کے ان اعلیٰ اوصاف کی نشان دہی بھی ہے جن کا متلاشی ہر مرد و زن ہو سکتا ہے۔
شاہ لطیف کا پیغام مقامی حدود سے بالا تر ہو کر آفاقی سطح پر انسانیت کے اتحاد، مذہبی ہم آہنگی اور روحانی بیداری کا پیام ہے۔ انہوں نے اپنی زمین، اپنے وقت اور اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے ایک ایسا فکری میراث چھوڑا جو کسی بھی دور میں، کسی بھی خطے کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ بن سکتا ہے۔ وہ نہ صرف سندھ بلکہ برصغیر کے ان صوفیا میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے زبان، ثقافت اور روحانیت کو ایک دوسرے میں ضم کرکے ایسا ہم آہنگ پیغام دیا جو آج بھی قلوب کو منور کرتا ہے۔
جدید دور کے محققین، ادبا اور دانشور بھی شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شخصیت اور فکر پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کی شاعری کا ترجمہ انگریزی، اردو، پنجابی، ہندی، فارسی اور دیگر زبانوں میں ہو چکا ہے، مگر ان کے اصل کلام کی سوزش، تاثیر اور رمزیت کا جو اثر سندھی زبان میں ہے، وہ کسی ترجمے میں مکمل طور پر منتقل نہیں ہو سکتا۔ یہی ان کی شاعری کا زندہ معجزہ ہے کہ وہ سینکڑوں برس گزرنے کے باوجود آج بھی دلوں میں اترتی ہے اور سچائی، اخلاص اور روحانیت کی جوت جگاتی ہے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی صرف ایک شاعر یا صوفی نہیں، بلکہ ایک مکمل فکری نظام کا نام ہیں۔ وہ ایک ایسی صدا ہیں جو وقت کے شور میں بھی گونجتی ہے، ایک ایسا چراغ ہیں جو ظلمت کے ہر دور میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ان کی تعلیمات، ان کی شاعری اور ان کی حیات ہم سب کے لیے ایک مستقل سبق ہے کہ انسانیت، محبت، رواداری، علم اور خود شناسی ہی وہ اقدار ہیں جو انسان کو سچائی کی طرف لے جاتی ہیں۔
شاہ لطیف بھٹائی نے اپنے لیے جو راستہ چنا، وہ نہ دولت کا تھا، نہ شہرت کا، بلکہ ایک فقیرانہ راہ تھی جس پر چل کر انہوں نے نہ صرف سندھ بلکہ ساری انسانیت کو روشنی بخشی۔ ایسے مردِ حق کو ہم آج بھی صرف احترام سے نہیں، بلکہ سچے دل سے اپنانے کے محتاج ہیں۔