بنگلہ دیش کی سیاسی تاریخ میں ایک اور غیر معمولی باب اس وقت رقم ہوا جب انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اور سابق وزیر داخلہ اسدالزماں خان کمال کو انسانیت کے خلاف سنگین جرائم میں سزائے موت سنادی۔ سابق پولیس چیف عبداللہ ال مامون، جنہوں نے عدالت میں جرم قبول کیا، کو پانچ برس قید کی سزا دی گئی۔ فیصلے نے نہ صرف ڈھاکہ بلکہ پورے خطے میں ایک سیاسی ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔
تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس محمد غلام مرتضیٰ نے 453 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ فیصلے میں تحریر ہے کہ ایک لیک آڈیو کال اور دیگر شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ شیخ حسینہ نے مظاہرہ کرنے والے طلبا کے خلاف طاقت کے استعمال کی ہدایات دیں، ان کی آواز دبانے کے لیے "توہین آمیز اور جابرانہ اقدامات" کیے اور ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے تحریک کو مزید بھڑکایا۔
عدالت نے مزید کہا کہ جس سیاسی جماعت نے ریاستی تشدد میں مرکزی کردار ادا کیا ہو، وہ آئندہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی مجاز نہیں رہتی۔ اس بنیاد پر عوامی لیگ کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی سفارش بھی سامنے آئی ہے۔ یہ اقدام جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک مثال بن سکتا ہے، جہاں حکمران جماعتوں پر ریاستی قوت کے بیجا استعمال کے الزامات اکثر دہرائے جاتے ہیں۔
فیصلے کے بعد عدالت کے اندر اور باہر کا منظر ایک سیاسی و سماجی کیفیت کی بھرپور عکاسی کرتا تھا۔ کورٹ روم کے اندر موجود افراد نے تالیاں بجا کر فیصلے کا خیرمقدم کیا، جبکہ ڈھاکہ کی شاہراہوں پر لوگوں نے قومی پرچم لہراکر جشن منایا۔ کئی مظاہرین نے بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے گھر کے باہر جمع ہو کر اس کی مسماری کا مطالبہ بھی کیا یہ قدم اس بات کا غماز ہے کہ حالیہ واقعات نے ملکی جذبات کو کس حد تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے فیصلے کو "تاریخی سنگِ میل" قرار دیتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش نے پہلی مرتبہ ریاستی تشدد اور طاقت کے ناجائز استعمال کے خلاف جرات مندانہ پیش رفت کی ہے۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ نہ صرف انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے بلکہ اگلی نسلوں کے لیے ایک اخلاقی مثال بھی قائم کرتا ہے۔
حیران کن طور پر فیصلے کے فوری بعد بنگلہ دیشی وزارت خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ مفرور سزا یافتہ شیخ حسینہ اور اسدالزماں خان کو ڈھاکہ کے حوالے کرے۔ وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ: "انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کو کسی دوسرے ملک میں پناہ دینا نہ صرف غیر دوستانہ رویہ ہے بلکہ انصاف کی توہین بھی ہے"۔
یہ مطالبہ جنوبی ایشیا کی سفارت کاری میں ایک نیا موڑ ہے۔ بھارت کا ردِعمل کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ آنے والے ہفتوں میں ہوگا، لیکن یہ حقیقت واضح ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئی کشمکش نے جنم لے لیا ہے۔
جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش نے فیصلے کو متاثرہ خاندانوں کے لیے "جزوی تسکین" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سالوں سے انصاف کے منتظر افراد آج سکون کا سانس لے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس نیشنل سٹیزن پارٹی (NCP) کی کنوینر ناہید اسلام نے ڈھاکہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ شیخ حسینہ کو ایک ماہ کے اندر واپس لا کر سزا پر عمل درآمد کیا جائے۔ ان کے بقول: "جولائی انقلاب کے ہزاروں شہیدوں اور زخمی جنگجوؤں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا آج ازالہ ہوگیا ہے"۔
یہ بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک کی ایک بڑی آبادی اس فیصلے کو ریاستی استحکام اور قومی تطہیر کی جانب اہم قدم سمجھتی ہے۔
اس فیصلے کے قانونی پہلو نہایت پیچیدہ مگر اہم ہیں۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کا قیام اگرچہ عالمی قوانین سے متاثر ضرور ہے، مگر اس کی حیثیت مکمل طور پر ملکی عدلیہ کے دائرۂ اختیار میں آتی ہے۔ اس وجہ سے چند بین الاقوامی حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا سزائے موت جیسے انتہائی اقدام کو بین الاقوامی قانونی معیار کے مطابق سمجھا جا سکتا ہے؟ لیکن بنگلہ دیشی حکام کا مؤقف ہے کہ جب معاملہ ریاستی تشدد، قتلِ عام اور مظاہرین کے خلاف دانستہ کارروائیوں کا ہو تو سزا میں نرمی انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہوگی۔
شیخ حسینہ واجد کے خلاف مقدمے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ آیا ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں پر موجود افراد کو ان کے فیصلوں، احکامات یا "غفلت" پر کس طرح جواب دہ ٹھہرایا جائے۔ دنیا بھر میں اس پر اختلافات موجود ہیں، مگر اس مقدمے نے اس بحث کو نئی توانائی دی ہے۔
اگر باضابطہ شواہد یہ ثابت کریں کہ ریاستی مشینری کو سیاسی مخالفین یا مظاہرین پر جبر کے لیے استعمال کیا گیا، تو یہ صرف قانون کی نہیں بلکہ جمہوریت کی اخلاقی بنیادوں کی بھی نفی ہے۔ بنگلہ دیشی ٹریبونل کے حالیہ فیصلے نے اس حد کو واضح کر دیا ہے کہ ریاستی طاقت کے استعمال کی "سرخ لکیر" کہاں کھڑی ہے۔
عدالت کی آبزرویشن کہ عوامی لیگ آئندہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتی، ایک بہت بڑے سیاسی دھماکے سے کم نہیں۔ عوامی لیگ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک بنگلہ دیشی سیاست کی محرک قوت رہی ہے۔ اگر اس جماعت کی تحلیل کا قانونی عمل شروع ہوتا ہے تو بنگلہ دیش کا سیاسی نقشہ سرے سے بدل سکتا ہے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ بنگلہ دیش کی سیاست میں ایک نئے عہد کے آغاز کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ کچھ حلقے اسے انصاف کی جیت قرار دے رہے ہیں تو کچھ اسے سیاسی انتقام کا شائبہ بھی سمجھتے ہیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ بنگلہ دیشی معاشرے میں "ریاستی تشدد" کے خلاف حساسیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔
اگر حکومت نے شفافیت، قانون کی حکمرانی اور عوامی شمولیت کو یقینی بنایا تو یہ فیصلہ ملک کو ایک زیادہ مضبوط، زیادہ ذمہ دار اور زیادہ جمہوری ریاست کی سمت لے جا سکتا ہے۔