دنیا کی ریاستی سیاست میں، تعلقاتِ بینالاقوامی اکثر اس سوچ پر استوار ہوتے ہیں کہ "مجھے تم سے اس وقت تک رشتہ ہے جب تک ہم دونوں کو ایک دوسرے سے فائدہ ہو"۔ یعنی وہ سیاسی رشتے جنہیں ہم بظاہر دوستانہ یا مشترکہ مفاد پر مبنی کہتے ہیں، غالباً مجبوریوں کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے یہ کہنا بجا ہے کہ سیاسی رشتے درحقیقت مجبوری ہی کا نام ہیں۔
پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عالمی تعلقات کے علمی مطالعے میں ایسی تھیوریاں موجود ہیں جو یہ واضح کرتی ہیں کہ ریاستیں اخلاقی یا نظریاتی بنیادوں پر کم اور اپنے قومی مفاد، سلامتی اور بقا کے اصولوں پر زیادہ غور کرتی ہیں۔ اس ضمن میں International Relations (بین الاقوامی تعلقات) کا مکتبِ ریئل ازم (Realism) قابلِ ذکر ہے، جو ریاستوں کو خودمختار اور حامی مفاد منفرد رکھنے والا عنصر قرار دیتا ہے۔
ریئل ازم کی روشنی میں، ریاستیں ایسے ماحول میں کام کرتی ہیں جہاں کوئی "عالمی حکمران" نہیں جنہیں وہ قانونی اور اخلاقی طور پر پابند ہوں، بلکہ خود اپنا تحفظ اور مفاد خود تلاش کرتی ہیں۔ اس تناظر میں، تعلقات سازی وہ میکنزم ہے جو وقتی مفاد کے تقاضوں سے مستعلق ہوتی ہے۔
مزید یہ کہ، علمی مطالعہ نے "مفاداتی اتحاد" (Alliances of Convenience) کی اصطلاح پیش کی ہے، جس کے تحت دو یا دو سے زیادہ ریاستیں، جب کہ عملاً نظریاتی یا اصولی اختلاف رکھتی ہوں، مشترکہ مفاد، دشمنِ مشترک، یا خطرے کی وجہ سے وقتی طور پر مل کر چلتی ہیں۔
یہاں مجبوری کا مفہوم یہ ہے کہ ریاستیں اکثر ان رشتوں میں داخل ہوتی ہیں جنہیں وہ مکمل طور پر منتخب نہیں کرتیں، بلکہ "انتخابِِ کم بدیل" کی صورت میں قائم کرتی ہیں۔ یعنی دیگر متبادل کمزور ہوں، خطرہ زیادہ ہو، وسائل کم ہوں یا علاقائی حالات پیچیدہ ہوں۔ اس لیے رشتہ جب دوستانہ یا وابستہ دکھائی دے، حقیقت میں وہ ایک مجبوری کا اظہار ہوتا ہے۔
مثلاً ایک کمزور یا درمیانی درجے کی ریاست، اگر سرد جنگی یا بعد از سرد جنگی ماحول میں نئی بڑی طاقتوں کے مقابلے میں خود کو محفوظ کرنا چاہے تو وہ اپنی نظریاتی عدم مطابقت کے باوجود طاقتور ریاست کے ساتھ معاہدہ یا اتحاد قائم کر سکتی ہے کیونکہ اختیارِ عمل کم، خطرات زیادہ اور متبادل کمزور ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ تعلق "دوستی" کی بجائے "ضرورتِ موجودہ" کا نام بن جاتا ہے۔
مشہور مثال ہے Molotov–Ribbentrop Pact (1939) کا جس میں جرمنی اور سوویت یونین نے ایک غیرحملہ آور معاہدہ طے کیا۔ اس معاہدے نے دونوں کی نظریاتی بنیادوں کو عبور کیا: نازی جرمنی اور سوشلسٹ سوویت یونین کے درمیان عارضی مفاد نے نظریاتی تصادم کو پیچھے چھوڑا۔ یہ عین اس بات کی مثال ہے کہ سیاسی رشتے کس طرح مجبوری یا خطرے کی بنیاد پر بن جاتے ہیں، نظریاتی ہم آہنگی کی بنیاد پر نہیں۔
علمی مطالعہ "مفاداتی اتحاد" پر اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ریاستیں جب دشمنِ مشترک، دفاعی ضرورت، یا علاقائی دباؤ کا سامنا کرتی ہیں، تو وہ وقتی اتحاد کی طرف جاتی ہیں اور جب وہ ضرورت کم ہو جائے، اتحاد کی بنیادیں کمزور یا ٹوٹ سکتی ہیں۔
آج کے عالمی منظرنامے میں بھی یہی رجحان جاری ہے۔ متعدد ریاستیں اپنے ترجیحی نیٹ ورکس اور اتحاد ایسے بناتی ہیں جو مکمل تعاون یا ایمانداری پر مبنی نہیں، بلکہ فوری اہداف، اقتصادی مواقع، علاقائی سکیورٹی اور عالمی طاقت کے توازن کے تحت ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی رشتے طویل المدتی انسان دوست یا اخلاقی بنیادوں پر کم اور مفاداتی بنیادوں پر زیادہ قائم ہو رہے ہیں۔
پاکستان، جنوب ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی ہماری نظروں کے سامنے ایسی مثالیں آتی ہیں جہاں ریاستیں بدلتے عالمی حالات، اقتصادی امداد، عسکری ضروریات یا علاقائی تناؤ کے تحت تعلقات کا انتخاب کرتی ہیں۔ اس پس منظر میں "دوستانہ" نظر آنے والا تعلق بھی داخلی و خارجی طور پر مجبوری کا عکس بن سکتا ہے۔
اس تجزیے سے چند اہم نکات واضح ہوتے ہیں: پہلا: جب سیاسی رشتے مجبوری کی بنیاد پر قائم ہوں، تو ان میں اعتماد کا فیکٹر کمزور رہ جاتا ہے۔ کیونکہ بنیاداً تعلق مستقل نہیں بلکہ وقتی مفاد پر ہے، اس لیے جب مفاد بدل جائے تو رشتہ ٹوٹنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرا: ریاستوں کو چاہیے کہ وہ تعلقات بناتے وقت صرف فوری مفاد نہیں دیکھیں بلکہ طویل المدتی قومی مفاد، خود مختاری، اخلاقی ساکھ اور علاقائی تعاملات کی تنوع کو مدنظر رکھیں۔ اس سے تعلق محض مجبوری کی حالت سے نکل کر ممکنہ تعاون اور مستقل شراکت کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ تیسرا: عوام کو اس بات سے آگاہ رہنا چاہیے کہ بیرونی تعلقات اور اتحاد عموماً "دوستی" کی کیفیت سے کم اور "مفادت" کی کیفیت سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس کو رازداری یا ناپیدائی کی کیفیت میں دیکھنا چاہیے۔ اس شعور سے عوامی مکالمہ بہتر اور قیادت کی شفافیت بھی قابلِ توقع بن سکتی ہے۔
اگر ہم نظریاتی بنیاد پر جائیں، تو رئیل ازم کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں اخلاقی اَدوار ہمیشہ غالب نہیں رہتے۔ جب ریاستیں "خطرے، طاقت، مفاد" کے تقاضوں کی بنیاد پر حرکت کرتی ہیں، تو وہ اکثر نظریاتی ہم آہنگی یا اقداریت سے ہٹ کر عمل کرتی ہیں۔
مزید برآں، مفاداتی اتحاد کا تصّور بتاتا ہے کہ تعلقات وہ "دوستی" نہیں بلکہ "ضروری شراکت" ہوتے ہیں یعنی جب ضرورت ختم ہوتی ہے، تعلق بھی تبدیل ہو سکتا ہے یا ختم ہو سکتا ہے۔ اس لامحالی سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ہمیں سیاسی رشتوں کو جذباتی یا لافانی نہ سمجھنا چاہیے بلکہ اُنہیں وقتی اور حالات کی بنیاد پر دیکھنا چاہیے۔
مختصراً، "سیاسی تعلقات ہمیشہ باہمی مفادات پر ہی استوار ہوتے ہیں!" عالمی سیاست میں زیادہ تر تعلقات وہی بن پاتے ہیں جو ریاستوں کی مجبوریاں، حالاتِ حاضرہ، خطرے کی نوعیت اور مفادِ وقت کی بنیاد پر قائم ہوئے ہوں اور اگرچہ یہ بات بعض افراد کو سرد محسوس ہو سکتی ہے، مگر یہی حقیقتِ موجود ہے۔
اچھی شراکت داری وہ ہے جسے مجرد مجبوری کے تحت نہیں بلکہ باہمی اعتماد، طویل المدتی شراکت اور اصولی ہم آہنگی کے تحت استوار کیا جائے تب ہی سیاسی رشتہ محض وقتی سودے سے بلند ہو کر حقیقتاً معنی خیز اور معتبر بن سکتا ہے اور یہ وہ راستہ ہے جہاں سیاست، قومی مفاد اور اخلاقیات کا خوبصورت توازن ممکن ہے۔